شادیوں میں غیر اخلاقی رسمیں اور ہماری ذمہ داریاں

اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ہر شخص اولاد کی خواہش رکھتا ہے ۔جب اولاد اس دنیا میں آتی ہے تو والدین طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتے ہیں ۔ان کی تعلیم  و تربیت کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔پھران کی اچھی سے اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے ہیں۔جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے تو والدین جہاں ان کے لیے دیگر امور کے لیے فکر مند ہوتے ہیں وہیں ان کی شادی کی بھی فکر کرنے لگتے ہیں۔اچھا رشتہ تلاش کرکے بچے بچیوں کو نکاح کے مقدس رشتے سے جوڑ دیتے ہیں۔

جب شادی کی بات آتی ہے تو لوگ طرح طرح کے رسم و روا ج کو یاد کرنے لگتے ہیں چاہے وہ رسم غیر شرعی ہی کیوں نہ ہو۔میں یہاں خاص طور پر ایک رسم(بارات ) پر گفتگو کروں گا ۔جب دولہا نکاح کے لیے لڑکی  کے گھر آتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے کچھ قریبی دوست اور عزیز رشتے دار بھی ہوتے ہیں ۔نوشہ کے ہمراہی کو باراتی کہتے ہیں ۔باراتیوں کی ضیافت لڑکی والے کرتے ہیں ۔کبھی تو وہ بخوشی ضیافت کرتے ہیں تو کبھی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے اور اس کا گھر بس جانے کی خاطر  کرتے ہیں۔جب کہ شریعت میں ولیمہ لڑکے کے اوپر ہے ۔لڑکی والوں پر کچھ نہیں ہے۔یہ تو ان کی کشادہ ظرفی ہے کہ رشتے ناطے اور دوست احباب کی دعوت کرکےسب کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں ۔حالاں کہ ان کے یہاں بیٹی کی رخصتی کا غم ہوتا ہے کہ وہ لاڈ پیار سے پال پوس کر،زیور تعلیم و ادب سے آراستہ کرکے لڑکے کے سپرد کر دیتے ہیں۔

ولیمہ لڑکے کے اوپر ہے ۔ جب نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ میں انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات فرمائی اور بے سرو سامان مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا تو ان کو جہاں مال واسباب اور مکانات کی ضرورت تھی وہیں زندگی گزارنے اورافزائش ِ نسل کے لیے شادیوں کی بھی ضرورت تھی ۔تو مدینہ طیبہ میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاتون سے نکاح کیا ،پھر سرکار دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں تشریف لائے ،آپ پر پیلے پن (شاید ہلدی یا زعفرانی رنگ)کا اثر تھا تو سرکار نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو جواب دیا یارسول اللہ ﷺ میں نے سونے کے نواۃ (پانچ درہم کےبرابر )کے وزن (مہر)پر ایک خاتون سے نکاح کرلیاہے۔تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ‘‘بَارَک اللہُ لَکَ’’اللہ تمہیں برکت سےنوازےاورفرمایاولیمہ کرو اگرچہ  ایک بکری سے ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عن أنس بن مالک رضی اللّٰہُ تعالیٰ عنہ :ان النبی صلی اللّٰہُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  رأى على عبدِ الرَّحمنِ بنِ عوفٍ أثرَ صفرةٍ، فقالَ: ما هذا؟ أو مَه، فقالَ: يا رسولَ اللهِ، إنِّي تَزَوَّجْتُ امرأةً عَلى وَزنِ نَواةٍ من ذَهبٍ، فقالَ: بارَكَ اللّٰہُ لَكَ، أوْلِمْ وَلَو بشاةٍ.
(أخرجہ البخاری(٢٠٤٩)، ومسلم (١٤٢٧)، وأبو داود (٢١٠٩)، والترمذی (١٠٩٤)، والنسائی(٣٣٥١)، وابن ماجہ(١٩٠٧) واللفظ لہ، وأحمد (١٢٧٠٨)۔

اس حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ولیمہ کرو اگر چہ ایک ہی بکری سے ہو ۔ کیوں کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے اور مال و اسباب کی فراوانی نہیں تھی ،اس کا خیال کرتے ہوئے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جتنی استطاعت ہو اتنا ہی ولیمہ کرو ۔کیوں کہ عرب میں بکریاں خوب ہوا کرتی تھیں اور ہر کسی کے پاس آسانی سے دستیاب ہوتی تھیں ،جب  کہ اونٹ مہنگا تھا ، اس لیے فرمایاکہ ایک بکری ہی میسر ہو تو اسی سے ولیمہ کرو۔
اس حدیث پاک میں لڑکے کی طرف سے ولیمہ کرنے کا ثبوت ملتا ہےجیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  فرمایا کہ ولیمہ کرو۔ایک بات یہ بھی پتا چلی کہ جب نکاح کرنے والوں کو مبارک باد پیش کی جائے تو اس لفظ ‘بارَكَ اللّٰہُ لَكَ’ سے پیش کی جائے کیوں نبی کریم ﷺنے اس لفظ کو اپنی زبانِ فیض ترجمان سےارشادفرمایا ۔

اب یہاں ایک خاص بات بارات کے حوالے سےیہ  پیش کرنی ہے کہ جب نکاح کے لیے دن تاریخ طےکی جاتی ہے تو یہ بات بھی کر لی جاتی ہے کہ آپ کتنی تعداد میں آئیں گےتاکہ ہم آپ کی اچھی طرح خاطر تواضع کر سکیں ۔جب آپ کہیں مہمان بن کر جاتے ہیں تو میزبان آنے والوں کی تعدادبھی  پوچھ لیتا ہے تاکہ وقت پرپریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ،ایک دو افراد کم بیش ہوجاتے ہیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اسی لیے دولہے کے ساتھ آنے والوں کی بھی تعداد پوچھ لی جاتی ہے تاکہ عین وقت پرکسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔
ایسے حالات میں تو ہونا یہ چاہیے کہ لڑکی والے سے ہی پوچھا جائے کہ کتنے لوگ ہم لے کر آئیں ؟اور لڑکی والوں کی رضا مندی سے لوگ آئیں تاکہ دونوں لوگ خیر سے نپٹ جائیں کسی کو کوئی پریشانی بھی نہ ہواور نکاح کے ذریعے مبارک رشتہ جڑ جائے۔اب جو غور کرنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب باراتیوں کے انتظام کی بات چل رہی ہو تولڑکے والوں کا یہ مطالبہ کہ ہم پانچ سو،چار سو یا تین سو باراتی لائیں گے ۔اگر  غیر مسلم سے روابط ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اس میں آدھے ہندو باراتی بھی ہوں گے مثلاً ایک سو،دوسو۔ ان کا بھی الگ سے انتظام کرنا پڑے گا ۔ہمارے تعلقات ہندو وں سے بھی ہیں ۔ ہم ان کو نہیں چھوڑ سکتے ۔لہٰذا آپ ان کا بھی انتظام کیجیے گا ۔اور یہ سارا بوجھ لڑکی والے پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ شرعاًکہاں تک درست ہے؟شریعت اس کی کہاں تک اجازت دیتی ہے ؟ یعنی شریعت اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی،کہ یہ بلاوجہ کسی پر بوجھ ڈالناہوا۔جوعقلاًاورشرعاً کسی طرح درست نہیں۔

میں کہتا ہوں کہ آپ کے لوگوں سے تعلقات ہیں ،آپ کے ملاقاتی غیر مسلم ہیں تو ان کو اپنے گھر بلا کر خوب کھلائیے ، خوب ان کی دعوتیں کیجیے۔ طرح طرح کے پکوان کھلائیے ۔لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے تعلقات کا سارا بوجھ لڑکی والوں پر ڈال دیا جائے۔ اس غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کام میں بےشمار لوگ ملوث ہیں ان کو اپنی روش بدلنی اوراپنی اصلاح کرلینی چاہیے ۔

بنارس کا ایک واقعہ ہےتقریباً ڈیڑھ سو باراتیوں کی بات طے پائی اور بارات رات میں آنے والی تھی ،جب آئی تو باراتی دو گنا یعنی تین سو آگئے ،اب جو رات میں فوری طور پر انتظامات کرنے میں پریشانی ہوئی وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔اس کا احساس اسی کو ہوگا جس پر یہ مصیبت آئی ہو ۔لڑکی والے اپنی عزت اور بیٹی کی خاطر سب جھیل جاتے ہیں ۔اس لیے لوگوں کو ایسا کرنے سے سخت پرہیز کرنا چاہیے ۔ایسا کرنا دھوکا اور ایک مسلمان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا ہے ۔اس سے باز آنا ضرورچاہیے۔

ایسا ہی ایک واقعہ جھارکھنڈ  دیوگھر کے اسہنا گاوں کا ہے ۔سردیوں کی رات تھی ۔دیہات کا جنگلی علاقہ تھااوپر سے رات کی شادی ۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ تقریباًآٹھ سو باراتی لے آئے ۔گاوں کی شادی تھی تو بارات میں پورا گاوں ہی امنڈ پڑا تھا ۔رات ۱۰ بجے نکاح ہونا تھا جو ۲ بجے رات کو ہوا ۔کیوں کہ فوری طور پر انتظامات کرنا وہ بھی دیہات کے علاقے میں ۔نہ جانے کیسے کیا ہوگا؟ ۔ایسے ایسے واقعات بہت پیش آتے ہیں ۔لڑکے والوں کو کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس بھی بیٹیاں ہیں یا ان کےقریبی رشتے میں تو ضرور ہوں گی ۔کل ان کے ساتھ ایسا ہوتو کیسا لگے گا ؟ 

اسی ضمن میں ایک واقعہ اور پیش ہے ۔ایک زمین دار صاحب کی بیٹی کی شادی تھی ،یہاں معاملہ الٹا تھا ۔دو سوباراتیوں کا مطالبہ تھا ۔تو لڑکے والوں نے کہا کہ ٹھیک ہم اس سے زیادہ ہی لائیں گے۔پھر کہتے ہیں کہ میں فلاں فلاں مدرسے کے بچوں کو بارات میں لے آؤں گا تو لڑکی والے کہتے ہیں کہ ان کو نہیں بلکہ رشتے داروں کو لے آئیں تو ان کو پتے کا جواب ملا ۔کہتے ہیں کہ یہ سب بھی ہمارے دینی رشتے دار ہیں ۔بالآخر ۸۰ ،۸۵ لوگ بارات میں پہنچے اور کل ۸ لوگ کھانا کھا پائے ،بقیہ لوگ ناشتہ کرکے واپس آگئے کیوں کہ کھانا گھٹ گیا تھا ۔اسی کو کہتے ہیں جیسی نیت ویسی برکت۔کیوں کہ ان کو دینی مدارس کے طلبہ بارات میں پسند نہیں آئے ، ان کو ہائی فائی انگریز نما لباس پہنے ہوئے لوگ بارات میں چاہئیں ،تاکہ چاروں طرف خوب ان کی سخاوت کے قصیدے پڑھے جائیں۔ ان کی خاطر تواضع کی تعریف کے پل باندھے جائیں ۔ اس لیے ہمیں شادی بیاہ میں خصوصاًاور عام زندگیوں میں عموماً اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے ۔درمیانی راہ اختیار کرنے میں ہی دونوں جہان کی بھلائی ہے۔

بعض ایسی گھٹیا حرکت پر اُتر آتے ہیں کہ باراتیوں کے کھانے میں طرح طرح کے پکوان کی فرمائش کرتے ہیں ۔یہ فرائی ،وہ فرائی،یہ ٹھنڈا ،یہ میٹھا ،اور اس طرح کا بہترین چاول ہونا چاہیے ۔یہ  نہایت درجے کی گری ہوئی حرکت ہے ۔مہمان کو میزبان پر اپنی پسند کا بوجھ ڈالناہرگز جائز نہیں،بلکہ جو ملے کھا لینا چاہیے۔غیر ت مند اور نبی آخر الزماں ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے سے اس کی توقع نہیں کی جاتی ۔کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی کھانے کو عیب نہیں لگایا ۔اگر خواہش ہوتی تو کھالیتے ورنہ چھوڑ دیتے ۔حدیث پاک ملاحظہ ہو:
عن أبي هريرةرضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: ما عابَ النبيُّ ﷺ طَعامًا قَطُّ، إنِ اشْتَھاهُ أكَلَهُ وإلّا تَرَكَهُ.(صحیح البخاری،حدیث نمبر٣٥٦٣)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی، فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کھانے کو کبھی بھی عیب نہیں لگایا، اگر خواہش ہوتی (یعنی اچھا لگتا )تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے ۔
نبی کریم ﷺ نے اس حدیث پاک سے ہمیں بہت بڑا درس دیا ہے ۔اگر اس پر عمل کر لیں تو گھریلو جھگڑوں کا خاتمہ ہی ہو جائےکیوں کہ زیادہ تر میاں بیوی میں ناراضگی نمک کم ہونے ، دال ،سالن پتلا ہونے سے ہی ہوتی ہے ، ہمیں ایسے حالات میں اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے اور سرکار دوعالم ﷺ کی اس حدیث پاک کو یاد رکھنا چاہیے ۔اس سے آپ کے گھر میں خوشیاں آئیں گی۔

یہاں گفتگو چل رہی تھی شادیوں میں کھانے اور باراتیوں کے لیے فرمائش کرنے کی ۔ تو سن لیجیےہمیں فرمائش کرنے سے بالکل بچناچاہیے ۔میزبان کی طرف سے جو بھی آئےخوشی خوشی تناول کرلے ۔اگر کسی نے فرمائش کی اور میزبان نہ پوری کر سکا یا اس معیار کا انتظام نہ کرسکا تو اس کی دل شکنی ہوگی ، اس کا دل دکھے گا ۔ اسلام میں کسی کا دل دکھانابہت بڑا گناہ ہے۔

شادیوں کے کھانے میں ایک بات یہ بھی پیش آتی ہے کہ لڑکی والےباراتیوں کاتواچھا سے اچھا انتظام کرتے ہیں چاہےفرمائش ہو یا نہ ہو ۔اور رشتے داروں،گھراتیوں اور محلے کے ان لوگوں کو(جو شادی کے دو دن پہلے سے دو دن بعد تک کام کرتے ہیں اور شادی کے سارے انتظامات سنبھالتے ہیں) تو ان کووہی عام کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم باراتیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ،یقیناً وہ اہمیت کے حق دار ہیں کیوں کہ وہ مہمان ہیں ۔لیکن آپ عام لوگوں کو بھی وہی کھلائیں جو باراتیوں کو کھلاتے ہیں ۔سب کو اچھا اور ایک جیسا کھلائیں۔باراتیوں کا الگ سے انتظام کرنے میں دوسروں سےکہیں نہ کہیں امتیازانہ سلوک ضروربرتا جاتا ہے جواچھانہیں۔یوں ہی ولیمے میں امرا کو تو بلایا جاتا ہےلیکن فقرا کو چھوڑ دیا جاتا ہےجو ایک مذموم عمل ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے:
عن أبي هريرةرضی اللہ تعالیٰ عنہ قال:قال رسول اللہ ﷺ‘‘ شَرُّ الطَّعامِ طَعامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعى لَها الأغْنِياءُ ويُتْرَكُ الفُقَراءُ، ومَن تَرَكَ الدَّعْوَةَ فقَدْ عَصى اللَّهَ ورَسوله ﷺ‘‘۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:٥١٧٧)، وصحیح مسلم (حدیث نمبر :١٤٣٢)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ ‘‘سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اور فقیروں کو چھوڑ دیا جائے ۔اور جو دعوت کو ترک کرے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی ۔(نافرمانی اس لیے ہوئی کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا حق ہے کہ جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کی جائے۔یہاں اس پر عمل نہیں ہوا۔)
شادیوں میں دعوت کی بابت ایک بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ دعوت دینے میں ہمیں پاس پڑوس کے غریب لوگوں کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔کیوں کہ محلے میں بہت سارے گھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے یہاں کئی کئی ہفتوں بعد گوشت بنتا ہے ۔تو چند بوٹیاں مل پاتی ہیں ۔اس لیے ایسے لوگوں کاضرور خیال کرنا چاہیے ۔کیوں کہ ان کو کھلانے کے بعد جو خوشیاں انھیں حاصل ہوتی ہیں وہ ہماری زندگی بھر کی خوشیوں کی ضامن ہوتی ہے۔ان کی دعائیں جلدی قبول ہوتی ہیں۔ان کو کھلانے کا ثواب بھی زیادہ ہے۔

مذکورہ  حدیث پاک سے ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ وہ کھانا برا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔اس میں یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی دعوت دے تو اس کو قبول کیا جائے کیوں کہ دعوت قبول کرنا ایک مسلمان کا حق ہے ۔ہاں اگر کسی وجہ سے وہ نہیں آسکتا ہے تو پہلے ہی معذرت کر لے۔دعوت کا انکار نہ کرے ۔اسے ٹھکرائے نہیں۔کیوں کہ دعوت کا انکار کرنا یا قبول نہ کرنا اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا سبب ہے۔اس لیے ہمیں اس حدیث پاک کو یاد رکھنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا اور اسےدوسروں تک پہنچانا بھی چاہیے ۔کیوں کہ بہت سے لوگ اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بنا پر  غلطی کر جاتے ہیں۔اللہ عزوجل ہمیں عملِ خیر  کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ سید المرسلین علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter