احکام حج اور اس کے باطنی اسرار ورموز---

احکام حج اور اس کے باطنی اسرار ورموز---

 

ارکان اسلام پانچ ہیں۔ پانچواں رکن حج ہے۔ جسے 'عاشقوں کی عبادت' سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ یوں تو تمام ارکانِ اسلام کی قبولیت کا دار و مدار محبت پر ہے، مگر حج کے اسرار و رموز پر ذرا سی التفات سے عیاں ہوتا ہے، کہ حج محبت کا نقطۂ عروج ہے۔ حج تمام عبادتوں (نماز، روزہ، زکوٰۃ اور قربانی) کا جامع ہے۔ نیز مالی اور جسمانی عبادتوں کا مجموعہ بھی۔

 

فرضیت حج

وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ. (سورة آل عمران، آيت٩٧)

ترجمہ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔

 اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔

حج فرض ہونے کے لئے زادِ راہ کی مقدار: کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔ (تفسیر صراط الجنان تحت الآية المذكورة)

 

حج کی تعریف اور اس کے چند احکام:

حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور  کعبہ معظمہ کے طواف کا ۔اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ حج 9ہجری میں فرض ہوا،اس کی فرضیت قطعی ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار شریعت، جلد ١، حصہ ششم، صفحہ ١٠٢٩)

 

حج کے فرائض یہ ہیں :(۱)…احرام  (۲)… وقوفِ عرفہ (۳)… طواف زیارت۔

حج کی تین قسمیں ہیں : (۱) اِفراد یعنی صرف حج کا احرام باندھا جائے۔ (۲) تَمَتُّع یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھا جائے پھر عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے بعد اسی سفر میں حج کا احرام باندھا جائے۔(۳) قِران یعنی عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے ، اس میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہیں۔ (تفسير صراط الجنان تحت سورة البقرة آيت١٩٦)

 

فضائل حج

 قرآن شریف کی مختلف سورتوں یعنی: سورة البقرة سورة آل عمران سورة المائدة، سورة الأنعام، سورة الأنفال، سورة التوبه، سورة ابراهيم ، سورة بني اسرائيل ، سورة الحج ، سورة العنكبوت، سورة النمل ، سورة القصص ، سورة الصافات ، سورة الشورى، سورة الفتح، سورة البلد، سورة التين اور سورة القريش میں مکہ معظمہ اور بیت اللہ کی فضیلت کا تذکرہ ہے۔ اور حج وعمرہ کے مختلف افعال واحکام کا بیان ہے۔

 

فضائل حج پر چند احادیث زیبِ قرطاس ہیں:

حدیث نمبر ١-  نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: ’’اﷲ (عزوجل) و رسول (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان۔ عرض کیا گیا پھر کیا؟ فرمایا: اﷲ (عزوجل) کی راہ میں   جہاد۔ عرض کیا گیا پھر کیا؟ فرمایا: حجِ مبرور۔‘‘  (مسلم شریف)

 

حدیث نمبر٢-  مروی ہے کہ رسولﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جس نے حج کیا اور رفث (فحش کلام) نہ کیا اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہو کر ایسا لوٹا جیسے اُس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔‘‘ (بخاری شریف)

 

حدیث نمبر٣-  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمرہ سے عمرہ تک اُن گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حجِ مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔‘‘  (بخاری، مسلم)

 

حدیث نمبر٤-  حج ان گناہوں کو دفع کردیتا ہے جو پیشتر ہوئے ہیں ۔‘‘  (مسلم)

 

یوں ہی قرآن وحدیث میں کثیر مقامات پر حج اور حاجی کی عظمت و رفعت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

تفصیل کے لیے علماء اہلسنت کی تصنیف کردہ کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ بالخصوص مسائل حج سے واقفیت کے لئے بہار شریعت، حصہ٦ کا مطالعہ فرمائیں۔

 

حج کے باطنی اسرار و رموز:

حج کے ظاہری عبادت وریاضت کے علاوہ باطنی خوبیاں بھی ہیں۔ جس سے اکثر ہم صرفِ نظر کا شکار رہتے ہیں۔ نتیجتاً معترضین کو اعتراض کا موقع ملتا ہے، کہ حج تضييع مال ووقت کا سبب ہے۔

لہذا ہلکی سی روشنی ڈالے دیتا ہوں:

اللہ ربّ العزت کے مقدس گہر بیت اللہ شریف میں ملکی غیر ملکی، امیر غریب، چھوٹے بڑے اور گورے کالے کا ایک جیسا سفید چادر میں ملبوس ہوکر، ایک آسمان کے نیچے، ایک زمین کے اوپر ایک خانۂ خدا کے سامنے، ایک صف میں آجانا، بلا تمثیل اجتماعیت اور یکسانیت کی حسین تصویر پیش کرتی ہے، کہ ہم سب ایک ہیں اور ایک رب کے ماننے والے ہیں۔ اجتماعیت کی اس قدر زندہ جاوید مثال کسی قوم ومذہب میں تھی نہ صبحِ قیامت ہو سکتی ہے۔ کاش! ہم اجتماعیت کے اتنے بڑے درس کو اپنی زندگی میں اتارتے اور اسے عملی جامہ پہناتے تو آج ہماری صورت حال کچھ اور ہوتی۔۔

نیز مشروعاتِ حج کسی نہ کسی تاریخی یادگار سے مربوط ہے مثلا: میدان عرفات، مزدلفہ، مقام براہیم، رمی اور صفا و مروہ وغیرہ۔ یہ سب کے سب شعائر اللہ ہیں، ان شعائر کی حکمِ تعظیم وتوقیر سے سبق ملتا ہے، کہ ہم دنیا میں کہیں بھی رہیں شعائر اللہ کی تکریم اور اس کی حفاظت وصیانت میں لگے رہیں۔ مزید برآں اپنے اسلاف کی تاریخ کو ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے ذہن و دماغ میں محفوظ کرنے کا شعور ملتا ہے۔ کاش! اس عظیم درس کو مسلم امہ سمجھتی، اور اسلام کے عروج وارتقا میں اپنے وجودِ مسعود کو قربان کر دینے والی عظیم ہستیوں کی تاریخ کو فراموش نہ کرتی، تو موجودہ وقت میں تاریخِ عروج کے علاوہ تاریخِ زوال کا کوئی باب منظر عام پر نہ آتا۔

پھر مقام منی میں حجاج کا جانور کی قربانی کرنا، ایسی تاریخ کو یاد دلاتی ہے جو باوجود قدیم ہونے کے آج بھی بالکل تروتازہ اور حالیہ واقعہ محسوس ہوتا ہے، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان گاہ لانا، پھر رب کی رضا و خوشنودی کے لیے بیٹے کی گردن پر چھری چلا  دینا...... یہ مقدس کہانی اپنے پاک دامن میں آج کی سسکتی قومِ مسلم کے لئے ناقابلِ فراموش درس سمیٹے ہوئے ہے کہ رب کی رضا اور اعلاء کلمۃ الحق کے لیے جان، مال اور اولاد کو قربان کرنا پڑے تو راہ خدا میں قربانی دینے میں ذرا سی بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ قال الله عز وجل: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (سورة المنافقون، آيت٩) يعنى: اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں.

اور جانور کی قربانی انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرتا ہے، کہ جس طرح آج رب کی رضا کے لئے جانور کی گردن پر چھری پھیرتے ہو یوں ہی دین اسلام کی بقا کے لئے کل کو أعداء دین کی گردنوں پر چھری چلانا پڑے تو دریغ مت کھانا، اور جس طرح اللہ کی خوشنودی کے لیے جانور کی قربانی پیش کرتے ہو یوں ہی بوقتِ ضرورت اسلام وسنیت کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو قربان کرکے حسینی کردار کا اعلی نمونہ پیش کرنا پڑے تو ذرا سی غفلت وکوتاہی سے کام مت لینا۔ ورنہ تمہارے جانور کے گوشت پوست کی رب کو کوئی حاجت نہیں ہے۔ قال اللہ عزوجل: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ (سورة الحج، آيت٣٧) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے.

تفسیر خزائن العرفان: "یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقوی کی رعایت سے اللہ تعالی کو راضی کر سکتے ہیں۔"

 

اللہ ربّ العزت ہمیں توفیقِ حج، فہمِ مقاصد حج اور جذبۂ ایثارِ جان و مال عطا فرمائے۔۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter