یہ وقتِ عمل،وقت ِعمل،وقت ِعمل ہے

اُس رب کا بےپایاں کرم ہے جس نے اپنے بندوں کو دو سال کی سخت آزمائش کے بعد راحت بخشی ہےاورزندگی کی گاڑی کو رواں کیا۔سرکاری دفاتر اور محکمے تو کھلے ہی تھے ،تعلیمی ادارے ،اسکول ،کالج اور یونی ورسٹی بھی تعلیم کے سلسلے کو بحال کرنے کی ڈگر پر ہیں۔روزگار کےمواقع کی فراہمی میں بھی تیزی آئی ہے،کیوں کہ لوگ بےروزگاری کی مار سے نڈھال ہو چکے تھے۔ادارے اور کمپنیاں اپنی سست روی کو خیرباد کہہ کےترقی کی بلندیوں تک پہنچنا چاہتی ہیں۔مدارس بھی دوسال کے تعطل کے بعدشروع ہو رہے ہیں جب کہ بعض اسکول کالج اور مدارس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیمی سرگرمی جاری رکھے ہوئے تھےتاہم یہ طریقہ تدریس درسگاہوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی افادیت تک نہیں پہنچ سکے۔ایک جگہ سے دوسری جگہ آمد و رفت کی سہولت میسر ہو گئی۔

اب جب کہ زندگی معمول پر آرہی ہےتو اس کی ڈگر پر تیز گامی سے چلنے کے لیے اپنا جائزہ لینا ہوگا جیسا کہ ہم سفر پر  نکلتےوقت گاڑی کی درستگی اور تیل ،انجن کی چانچ کرتے ہیں تاکہ منزل تک پہنچنےمیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ٹھیک اسی طرح اب ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا ہوگا تاکہ کاروبار حیات کی شروعات نئے جوش و جذبے ،محنت اور لگن کے ساتھ کی جاسکے۔

اپنا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم زندگی کی ریس میں بہت پیچھے ہو گئے ۔اب پھر سے اٹھ کر مقابلے میں آنا ہوگا۔سستی ،کاہلی ،غفلت  اور جہالت کے خول سے باہر آنا ہوگا۔دنیاوی زندگی میں بھی خود کو کامیاب کرنا ہوگااور آخرت کی زندگی میں بھی سرخرو ئی حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی کیوں کہ اصل کامیابی توآخرت کی کامیابی ہے۔جہاں ہم دنیاوی زندگی میں پیچھے ہوئے ہیں ،وہیں ہم آخرت کی زندگی میں بھی کافی پیچھے ہوگئے ہیں۔اس لاک ڈاؤن کے عرصے میں موبائل انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے ہمیں اور پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔تعلیم کے حصول نے تو سبھی کے ہاتھوں میں موبائل پکڑا دیا ہے۔جس سے شعوری اور غیرشعوری طور پر نوجوان بہک چکے ہیں۔تہذیب و ثقافت سے دور،مغربیت زدہ ماحول سے متاثر ہو کر خود کوتباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔اس لیے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے کہ تعلیم اور کامیابی کے نام پر کہیں والدین اور ذمہ داران کو دھوکاتو نہیں دے رہے ہیں ۔اپنے آپ کو شریعت کے بندھن سے آزاد تصورکرکے تباہی کے دلدل میں تونہیں جا رہے ہیں۔یہ وقت حساس اور بیدار ہونے کا ہےتاکہ ہم خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچا سکیں۔

کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلےکامیابی کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہوگا جو کہ روحانیت ،تعلیم ،روزگار اور حسن کردار پر مشتمل ہے۔کامیابی اور سرخروئی عطا کرنے والاحقیقت میں اللہ رب العزت ہی ہے،اس کی مرضی کے بغیر کائنات کا ایک ذرہ بھی نہیں ہل سکتا۔وہی سب سے بہتر روزی دینےوالا ہے۔وہی عزت و شہرت دینے والا ہے۔وہی ترقی اور کامیابی دینے والا ہے۔توجس سے حقیقی کامیابی ملتی ہےاس سے رشتہ مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔پھراپنی زندگی کو اسی کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔اس کے احکامات و فرامین پر عمل کرنا ہوگا۔ فرائض و واجبات کے بعد ذکر و مراقبے کے ذریعے اپنےباطن کا تزکیہ کرکےاپنے رب کو راضی کرنا ہوگا۔اس کی بارگاہ میں رجوع کرنا ہوگا۔تاکہ کامیابی کا سفر آسان تر ہو جائے۔یہاں ایک بات یہ ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اللہ نے ہمیں اسلام کے دامن میں پناہ دی۔اسلام اور ایمان کی بنیاد روحانیت اور تعلق مع اللہ پر مشتمل ہے۔جب تک ہمارا رشتہ اپنے رب سے مضبوط نہیں ہوگا ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔دنیاوی ترقی مادی ترقی ہے جو کہ وقتی ہوتی ہے ایک وقت کے بعد ختم ہو جائے گی۔لیکن وہ کامیابی جو اللہ سے تعلق کی بنیاد پر حاصل ہو وہ دیرپا ہوتی ہے۔ہمیں ایسی ہی کامیابی کی ضرورت ہے۔

جب بندے کا تعلق اپنے رب سے کمزور ہوتا ہے ،تووہ خواہشات کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہےاور رب کی نافرمانیاں کرنےلگتاہے۔ معاشرے میں جو برائیاں ،بےحیائیاں،بےپردگی ،جھوٹ فساد،لوٹ مار،قتل وغارت گری ،ظلم و جبر،دھوکا دھڑی ،جنسی اور فکری بےراہ روی عام ہے وہ اپنے رب سے تعلق کمزورہونے کی بنا پر ہے۔یہ سب دنیااور آخرت کی ناکامیوں کا پیش خیمہ ہیں۔ جس معاشرے میں یہ سب چیزیں پائی جائیں وہ معاشرہ حقیقت میں ترقی نہیں کرسکتا۔اس لیے ہمیں سب سے پہلے اِن کو اور اِن جیسی دوسری برائیوں کو دور کرنا ہوگا۔

علم کی اہمیت سے کون صاحب عقل انکار کر سکتا ہے۔علم چاہے دین کا ہو یا زمانے  کا ، کامیابی اور سرخروئی عطا کرتا ہے۔تعلیم سے روزگار کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔علم کے ذریعے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے،خود کو پہچانتا ہے۔انسان کا علم جب اسے صحیح سمت عطا کرتا ہے ،دین و شریعت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ،شریعت کی روشنی میں زندگی کو آگے لے جاتا ہے تو کامیابی اس کا مقدر ہوتی ہے اور اسے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی کامیاب بناتی ہے۔اس لیے زمانے کے علم کے ساتھ ساتھ دین کاعلم سیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔کیوں کہ ضروریات دین کا علم تو ہر مسلمان پر حاصل کرنا فرض ہے۔ ایمان وعقیدے کا علم،نماز ،روزہ ،حج،زکوٰۃ کا علم اور اگرتاجرہے تو تجارت کا علم ،شادی بیاہ ،نکاح طلاق کا یا زندگی کے جس شعبے سے جڑا ہے اس کا علم کہ یہ شریعت کی نظر میں صحیح ہے یا نہیں؟ ان سب کو فرض علوم کہیں گے جن کاحاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔یہ ضرور حاصل کریں۔اس سے بہت لاپرواہی برتی جاتی ہے۔اسی کی وجہ سے زندگی میں مسائل پیداہوتے ہیں۔

دینی علم کے ساتھ ساتھ عصری علوم حاصل کرنے میں بھی خوب توجہ دینی چاہیے کہ اس کے بغیر آپ غیروں کے دست نگر بنے رہیں گے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت ضروری ہے۔تاکہ مسلمان غیروں کے دھکے نہ کھائیں اور ملک و ملت کے لیے ہر میدان میں کھڑے رہیں ،اپنی شناخت بنائیں،اپنے وجود کا احساس دلائیں،ایسا نہ ہو کہ غیروں کی بھاری اکثریت ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہو جب کہ یہ ملک ہر کسی کا ہے،ملکی آئین کی رُو سے ہر کسی کو اس ملک میں آزادی کے ساتھ سانس لینے کی اجازت ہے ۔ملک کےتمام شہریوں کو آئین کے تحت حقوق حاصل ہیں، اُن حقوق کو جاننے اور اُن کی بنیاد پر اپنا حق حاصل کرنے کے لیےاپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا ،ورنہ باطل طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔اس کے لیے عصری علوم کا حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہو گیا ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس دنیاوی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے علاقوں کے نوجوانوں کی تعلیم و ترقی کی طرف صحیح رہنمائی کریں ،ان کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلائیں تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کریں اور ان کے اندر ملک وملت کے لیے قربانیاں پیش کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔

یہاں یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ دنیا کا علم ،دین سے الگ نہیں ہے۔جب تک کہ اس کا استعمال دین کے خلاف نہ ہو اوردین و شریعت کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو ۔اس لیے سارے علوم حاصل کرنے چاہیےلیکن سب سے پہلے دین کا علم حاصل کرنا چاہیے ۔آپ اسلامی تاریخ کے سنہرے دور کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلمان علم و ہنر میں کس درجہ بلند تھے۔فلسفہ ،ریاضی، سائنس،طب اور سیاست وغیرہ میں ماہرین کی ایک جماعت موجود تھی۔جنہوں نے کئی علوم کی ایجاد کی۔

ملک کے اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحانات (یو،پی،ایس،سی، وغیرہ)میں مسلمانوں کی شرح لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے،کوئی اس کے دفاع میں کہہ سکتا ہے کہ تعصب بھرے ماحول میں ان نوجوانوں کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا ہے جو اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی تعدادہی بہت کم ہے جو ،ان جیسے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔جب کہ ایسے نوجوان کثرت سے پائے جاتے ہیں جو ان امتحانات میں شرکت ہی نہیں کرتے،بعض تو جانتے ہی نہیں اور کچھ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کہ میں پاس کر پاوں گا یانہیں ،جب کہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو بھی ایسے امتحانات پاس کرتے ہیں وہ آپ ہی جیسے ہوتے ہیں ،بس وہ منظم طریقے سے صحیح سمت میں محنت کرتے ہیں ۔گھر معاشرے کے افراد ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور وہ خود قربانیاں پیش کرتے ہیں ،کیوں کہ مقاصد جتنے بڑےہوتے ہیں قربانیاں اتنی ہی زیادہ پیش کرنی ہوتی ہیں۔اس لیے جو لوگ خود آگے بڑھ سکتے ہیں وہ ضرور آگے آئیں اور جو دوسروں کو آگے بڑھنے میں کسی بھی طرح سے مدد کر سکتے ہیں وہ کریں۔معاشرے کو اچھے علما اور مفتیان کرام کی ضرورت ہے۔اچھےقائد کی ضرورت ہے۔اچھے اورایمان دار ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔اچھے وکیل کی ضرورت ہے۔اچھے تاجر کی ضرورت ہے۔آپ سے جو بھی ہو سکے قوم و ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔تبھی قوم آگے بڑھ سکتی ہے۔

آج ملک بھر میں نفرت انگیز آندھیاں چل رہی ہیں۔پرامن ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے۔تاریخ سےکھلواڑ کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کےشاندار ماضی کو مٹایا جا رہا ہے۔مذہبی مقامات اور دین و مذہب پر بڑی تیزی سے حملے ہو رہے ہیں۔باطل طاقتیں، اسلام اورمسلمانوں کو مٹانے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں۔ہر حربے اپنارہی ہیں۔اُدھر مغربی تہذیب و ثقافت مسلمانوں کو اپنے دام تذویر میں لے چکی ہے۔اسلام کا  نام لیوا  فرنگی تہذیب میں اپنی شامیں رنگین کر رہا ہے۔عریانیت و فحاشی کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ذہنی وفکری بےراہ روی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ برائیوں اور بےحیائیوں کو فخریہ بیان کیا جارہا ہے۔مغربی آزادی کو کھلے دل سے اپنایا جا رہا ہے۔اس کے پیچھے عفریتی ذہن و دماغ کی غلامی کو کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ایسے حالات میں ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے۔اور غور کرنا چاہیے کہ معاشرے کا نوجوان کہاں جا رہاہے۔دن بھر تعلیم کے نام پر سوشل میڈیا پر وقت گزارنے والا کہیں شریعت کی حدود کو پار تو نہیں کر رہاہے۔اور بےحیائی کے مناظر میں ملوث ہو کریہودیوں کی سازشوں کاشکار تو نہیں ہو رہا ہے۔ایسی ہی بہت ساری باتیں ہیں جن پر بہت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔تاکہ نیک اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے۔اگر آج ہم نے بروقت اپنے مسائل کا حل نہیں نکالا۔تو کل آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی ،تو ان کے  نیک اور روشن مستقبل کے لیے آج ہی کام کریں،لائحہ عمل تیا ر کریں۔لوگوں میں ،خاص طور سے نوجوانوں میں بیداری پیدا کریں،تاکہ ملک و ملت کی تعمیر وترقی روزافزوں ہو۔

 

از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی

ایڈیٹر: پیام برکات،علی گڑھ

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter