بہار اسمبلی انتخابات: فیصلہ تسلسل کا یا تبدیلی کا؟
بہار کی سر زمین ہمیشہ سے سیاسی تغیر و تبدل کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں کے سیاسی موسم کی پیش گوئی کسی کے بس کی بات نہیں۔ کبھی ذات پات کے توازن نے بازی پلٹ دی، تو کبھی عوامی جذبات نے بڑے بڑے سورماؤں کو زیر کر دیا۔ اب جب نومبر 2025 میں ریاست ایک بار پھر اسمبلی انتخابات کی دہلیز پر ہے پورا ملک اس بات پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہے کہ آیا بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والا قومی جمہوری اتحاد اپنی حکومت برقرار رکھ پائے گا یا مہا گٹھ بندھن جسے عام طور پر انڈیا بلاک بھی کہا جاتا ہے عوام کے دل جیت کر اقتدار کا تاج پہن لے گا۔
ریاست کی 243 اسمبلی نشستوں پر ووٹنگ دو مرحلوں میں 6 اور 11 نومبر کو ہوگی اور نتیجہ 14 نومبر کو متوقع ہے۔ پچھلے انتخابات (2020) میں NDA نے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اسے 125 جبکہ مہا گٹھ بندھن کو 110 نشستیں ملی تھیں۔ اس بار دونوں کی نظریں چند نشستوں کے اسی نازک فرق پر جمی ہوئی ہیں۔ بی جے پی، جنتا دل (یونائیٹڈ) اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) پر مشتمل این ڈی اے نے اس بار بھی ایک منظم اتحاد کے ساتھ انتخابی میدان میں قدم رکھا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت، مرکزی اسکیموں کی تشہیر اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر ترقی کے بیانیے نے ان کی مہم کو تقویت بخشی ہے۔ تاہم نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں عدم اطمینان وہ پہلو ہیں جو حکمران اتحاد کے لیے دردِ سر بن سکتے ہیں۔ جے ڈی(یو) کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اگرچہ تجربہ کار ہیں مگر پچھلے برسوں میں اتحادی بدلنے اور سیاسی اُتار چڑھاؤ نے ان کی ساکھ پر اثر ڈالا ہے۔ این ڈی اے کی ایک بڑی حکمتِ عملی پسماندہ طبقات خصوصاً او بی سی اور ای بی سی کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی ہے۔ یہ وہ طبقے ہیں جنہوں نے 2019 اور 2020 میں بھی این ڈی اے کو کامیابی دلائی تھی مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس بار بھی ویسی ہی حمایت کریں گے؟
دوسری جانب آر جے ڈی کے تیجسوی یادو کی قیادت میں مہا گٹھ بندھن ایک مرتبہ پھر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ میدان میں ہے۔ کانگریس بائیں بازو کی جماعتوں اور کئی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ بنے اس اتحاد نے روزگار، تعلیم اور بدعنوانی کے خاتمے کو اپنا ایجنڈا بنایا ہے۔ تیجسوی یادو نوجوان قیادت کی علامت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ ان کی انتخابی حکمتِ عملی میں ذات پات کے ساتھ ساتھ جذباتی جملوں اور عام نوجوان کے خوابوں کی جھلک نمایاں ہے۔ وہ بار بار کہتے نظر آتے ہیں کہ بہار کے نوجوان کو نوکری دو وعدے نہیں! تاہم گٹھ بندھن کے اندرونی اختلافات اب بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ کانگریس اپنی نشستوں کے مطالبے پر اڑی ہے جبکہ دیگر اتحادیوں کے درمیان امیدواروں کے انتخاب پر تنازعہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود عوامی سطح پر این ڈی اے مخالف فضا اگر ذرا بھی مضبوط ہوئی تو یہ اتحاد بازی پلٹ سکتا ہے۔
اس بار بہار کی سیاست میں ایک نیا نام بھی سرخیوں میں ہے۔ پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی انتخابی حکمتِ عملی کے ماہر کشور نے اپنی مہم کو عوامی رابطے کے ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ اگرچہ ان کی جماعت اقتدار حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن وہ چند نشستوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ان حلقوں میں جہاں مقابلہ بہت قریب ہے۔ یہی وہ تیسرا عنصر ہے جو کسی ایک اتحاد کے ووٹ بینک میں رخنہ ڈال سکتا ہے۔ ریاست کے مختلف اضلاع میں عوامی رائے تقسیم نظر آتی ہے۔ شہری علاقوں میں بی جے پی کی گرفت اب بھی مضبوط ہے مگر دیہی علاقوں میں مہنگائی، روزگار اور تعلیم کے مسائل کے سبب ناراضی موجود ہے۔ نوجوان ووٹروں میں بے روزگاری سب سے بڑا انتخابی ایشو بن چکا ہے۔ مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد اب بھی مہا گٹھ بندھن کی طرف جھکی ہوئی ہے لیکن اگر ووٹ کی تقسیم ہوئی تو اس کا نقصان بھی انہیں ہی ہوگا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس وقت بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن نسبتاً مضبوط ہے۔ حکومت مخالف لہر واضح نہیں مگر انتخابی تھکن محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگر بی جے پی ترقی، مرکز کی اسکیموں اور وزیراعظم مودی کی مقبولیت کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی تو وہ ایک بار پھر اقتدار میں لوٹ سکتی ہے۔ تاہم اگر مہا گٹھ بندھن اپنی مہم میں اتحاد برقرار رکھے، نوجوانوں کے ایشوز کو ترجیح دے اور نشستوں پر مناسب تقسیم کرے تو نتائج کسی کے بھی حق میں جا سکتے ہیں۔ بہار کا انتخاب ہمیشہ سے قومی سیاست کی سمت متعین کرتا آیا ہے۔ یہاں کا ووٹر حساس بھی ہے اور بے باک بھی۔ اس بار کے نتائج صرف ایک ریاست نہیں بلکہ مرکز کی آئندہ سیاسی بساط پر بھی اثر ڈالیں گے۔ یہ طے ہے کہ نومبر کی خنک ہواؤں میں جب ووٹنگ ہوگی تو ہر ووٹر کے ہاتھ میں صرف ایک پرچی نہیں بلکہ پورے بھارت کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ کیوں کہ بہار کے عوام ہمیشہ سے اپنی سیاسی بصیرت اور فیصلہ کن کردار کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس ریاست نے ہندوستانی جمہوریت کو وہ راہ دکھائی ہے جہاں عوام کی رائے صرف حکومتوں کو بدلنے کا ذریعہ نہیں بلکہ سیاسی بیانیے کو متعین کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ آج جب ایک بار پھر بہار انتخابی دہلیز پر کھڑا ہے تو ہر ووٹر کے سامنے دو نہیں بلکہ تین راستے ہیں۔ ایک طرف اقتدار میں بیٹھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحادی ہیں جن کے پاس تجربہ، نظم اور ترقیاتی منصوبوں کی فہرست ہے دوسری جانب انڈیا گٹھ بندھن ہے جو عوام کے مسائل، روزگار اور بدعنوانی کے خاتمے کے وعدوں کے ساتھ میدان میں ہے اور تیسری جانب پرشانت کشور کا جن سوراج ہے جو نظام میں نئی شفافیت اور عوامی شرکت کی بات کر رہا ہے۔ بہار کے ووٹرز کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ محض نعرے اور چہرے دیکھ کر فیصلہ کریں یا پھر زمینی حقیقتوں کو پرکھیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں جو وعدے کیے گئے ان میں سے کتنے پورے ہوئے؟ نوجوانوں کو کتنی نوکریاں ملیں؟ کسانوں کی حالت میں کیا بہتری آئی؟ تعلیم صحت اور بنیادی ڈھانچے میں کتنا بدلاؤ آیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر ووٹر کو خود اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے۔
یاد رکھیں کہ انتخاب جیتنے والے نعرے وقتی ہوتے ہیں لیکن ان کے اثرات برسوں باقی رہتے ہیں۔ اگر بہار کے عوام چاہتے ہیں کہ ریاست واقعی ترقی کی راہ پر چلے تو انہیں ذات پات، مذہب یا وقتی فریب نظر سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا۔ ایک باشعور ووٹر وہ ہے جو پارٹی کے منشور کو پڑھے، اس کی پچھلی کارکردگی کو دیکھے اور پھر ووٹ دے۔ بہار میں یہ روایت رہی ہے کہ عوام نے ہمیشہ اقتدار کو سبق سکھایا ہے۔ جب وعدے پورے نہ ہوئے تو تخت بدل دیا اور جب حکومت نے کارکردگی دکھائی تو پھر موقع دیا۔ اس انتخاب میں بھی یہی اصول رہنما ہونا چاہیے۔ ووٹ کسی ذات یا برادری کے نام پر نہیں بلکہ کام اور خدمت کے ریکارڈ پر دیا جائے۔ اگر بی جے پی اور اس کے اتحادی واقعی ترقی، روزگار اور خوشحالی کے وعدے نبھا سکے ہیں تو انہیں موقع ملنا چاہیے۔ اگر مہا گٹھ بندھن نے عوامی مسائل کو زیادہ سچائی سے اٹھایا ہے، نوجوانوں کی آواز بننے کا حق ادا کیا ہے تو بہار کے لوگ انہیں بھی موقع دے سکتے ہیں اور اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ موجودہ نظام میں ہی خرابی ہے اور کوئی تیسری راہ اختیار کرنی چاہیے تو وہ اپنی رائے کا اظہار جن سوراج جیسے متبادل کے حق میں کر سکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ووٹ ہر حال میں دیا جائے۔ خاموشی جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ بہار کے لوگ اگر گھر بیٹھے رہے تو فیصلہ وہ لوگ کر لیں گے جو شاید عوامی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کے اسیر ہیں۔ اس لیے ہر شہری کو چاہیے کہ وہ 6 اور 11 نومبر کو ووٹنگ مرکز تک ضرور پہنچے، اپنی رائے ظاہر کرے اور اپنی ریاست کے مستقبل کو اپنی انگلی کی طاقت سے روشن کرے۔ بہار کا ووٹر اگر ذات و مذہب کے دائرے سے نکل کر ترقی، تعلیم، روزگار اور شفافیت کو ترجیح دے گا تو یقیناً یہ انتخاب بہار ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے۔ جمہوریت میں عوام ہی اصل طاقت ہیں اور بہار نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں کا ووٹر صرف ووٹ نہیں دیتا بلکہ تاریخ رقم کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 14 نومبر کو جب نتائج آئیں گے تو بہار کیا فیصلہ کرتا ہے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے یا تبدیلی کی نئی صبح طلوع ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ بہار کے ووٹر کے ہاتھ میں ہے اور شاید اسی فیصلے پر ہندوستان کی آئندہ سیاسی سمت بھی منحصر ہوگی۔