ایس. آئی. آر ذمہ دار شہری ہونے کا امتحان
جمہوریت کی اصل طاقت عوام کے ووٹ میں چھپی ہے۔ ووٹ صرف ایک پرچی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی طاقت ہے۔ اسی ووٹ کے ذریعے عوام اپنی پسند کا نظام اور قیادت منتخب کرتی ہے مگر اس حق کے صحیح استعمال کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری کا نام ووٹر لسٹ میں درست طور پر درج ہو۔ اگر لسٹ میں غلطی رہ جائے یا کسی اہل ووٹر کا نام شامل نہ ہو تو جمہوریت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر ہر چند سال بعد ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور تجدید کا عمل شروع کیا جاتا ہے تاکہ ہر شہری کا حق رائے دہی محفوظ رہے۔ اسی سلسلے میں اس سال بھی (SIR) یعنی Special Intensive Revision کا کام شروع ہو چکا ہے۔ یہ نہایت اہم اور ذمہ دارانہ مرحلہ ہے جس میں ہر شہری کا تعاون لازمی ہے۔ یہ کام صرف ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ قوم کی بیداری، شعور اور دیانت داری کا امتحان بھی ہے۔ ایس آئی آر کے تحت BLO صاحبان آپ کے گھروں پر آئیں گے۔ ہر اُس فرد کے لیے جو اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہے اور جس کا نام ووٹر لسٹ میں موجود ہے، ایک فارم (دو نقول میں) فراہم کریں گے۔ جب BLO صاحب آپ کے دروازے پر آئیں تو احترام کے ساتھ ان سے ملاقات کریں، ان کی ہدایت غور سے سنیں اور جو معلومات درکار ہوں، وہ پوری ذمہ داری سے فراہم کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کو وہ فارم دو دن کے اندر اندر بھر کر واپس کرنا ہے۔ تاخیر سے آپ کے اندراج یا تصدیق میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ اس فارم کو مکمل کرنے کے لیے درج ذیل کاغذات اور معلومات پہلے سے تیار رکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ جب BLO صاحب آئیں تو وقت ضائع نہ ہو۔ اگر آپ کو نئے فوٹو بنوانے ہیں تو فوٹوگرافر سے صاف کہہ دیں کہ فوٹو کے پیچھے کا پردہ سفید رنگ کا ہو۔ دھندلے یا رنگ دار پس منظر والے فوٹو قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ یہ دونوں لازمی کاغذات ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کا موبائل نمبر بھی لازماً درج ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی ضرورت پر آپ سے فوری رابطہ کیا جا سکے۔ چالیس سال یا اس سے زیادہ عمر کے ووٹروں کے لیے ضروری ہے کہ اُن کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں موجود ہو۔ اگر کسی وجہ سے اُس فہرست میں نام درج نہیں ہے تو اُن کے والد یا والدہ کا نام اُس میں ہونا چاہیے تاکہ تصدیق ممکن ہو۔ اس زمرے کے ووٹروں کا نام 2003 کی لسٹ میں نہیں ہوگا مگر اُن کے والد یا والدہ کا نام اُس فہرست میں ضرور ہوگا۔ اسی بنیاد پر اُن کی میپنگ کر دی جائے گی۔ وہ خواتین جن کی شادی 2003 سے پہلے یہاں ہوئی ہے اُن کے نام یہاں کی 2003 کی ووٹر لسٹ میں ہوسکتے ہیں اور جن کی شادی 2003 کے بعد ہوکر یہاں ہوئی ہے اُن کے نام ممکن ہے کہ مایکے کی ووٹر لسٹ میں درج ہوں۔ اگر وہاں بھی نام نہ ہو تو اُن کے والد یا والدہ کا نام مایکے کی لسٹ میں ضرور ہوگا۔ ایسی خواتین2003 کی ووٹر لسٹ کے اُس صفحے کی تصویر منگوا لیں جس میں اُن کا یا اُن کے والدین کا نام درج ہو۔ 2003 کی ووٹر لسٹ کا حصہ نمبر کیا تھا۔ اسمبلی حلقہ نمبر کیا تھا اور مایکے کا ضلع کون سا تھا۔ یہ تمام تفصیلات فارم پُر کرنے کے وقت ضروری ہوں گی اس لیے انہیں پہلے سے تیار رکھنا بہتر ہے۔
یاد رکھیں! یہ مرحلہ صرف فارم بھرنے یا دستخط کرنے کا نہیں بلکہ جمہوری نظام کو درست سمت دینے کا عمل ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس موقع پر لاپرواہی کرتے ہیں پھر بعد میں شکایت کرتے ہیں کہ ووٹر لسٹ میں نام نہیں آیا یا ووٹ کٹ گیا۔ ایسے مسائل سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم ابھی سے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ جب BLO صاحب آئیں تو ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں، ضروری دستاویزات فوراً دکھائیں اور فارم صحیح طرح سے بھریں۔ یہ عمل آپ کے ووٹ کو محفوظ کرے گا اور آنے والے وقت میں کسی بھی پریشانی سے بچائے گا۔ نوجوان طبقے کو اس موقع پر آگے بڑھ کر ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ جن گھروں میں بزرگ یا خواتین کو فارم سمجھنے میں دشواری ہو وہاں نوجوان ان کی مدد کریں۔ اسی طرح خواتین بھی اپنی ووٹر لسٹ سے متعلق معلومات بروقت حاصل کر کے فارم کی تیاری مکمل رکھیں۔ یہی اجتماعی شعور ایک مضبوط قوم کی پہچان ہے۔ یہ کام محض ایک سرکاری کارروائی نہیں بلکہ قوم کے شعور اور بیداری کی علامت ہے۔ اگر ہم سب تھوڑی سی توجہ دیں، اپنے وقت سے چند منٹ نکالیں تو نہ صرف اپنا حق محفوظ کریں گے بلکہ نظامِ جمہوریت کو بھی مضبوط بنائیں گے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنی قوم، اپنے شہر اور اپنے ووٹ کے احترام کو پہچانیں۔ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ BLO حضرات کے ساتھ احترام اور دیانت داری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کام کو معمولی نہ سمجھیں۔ آپ کی آج کی یہ تھوڑی سی محنت آنے والے وقت میں آپ کے لیے آسانی اور سکون کا سبب بنے گی۔ یہی وقت ہے جب ہم اپنے ملک کے باشعور اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔
افسوس کہ مسلمان طبقہ ایسے حساس مواقع پر اکثر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہم اپنے مسائل کے لیے ہمیشہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر اپنی کوتاہیوں پر کم ہی غور کرتے ہیں۔ ہم جلسوں میں نعرے لگاتے ہیں، تقریروں میں جوش دکھاتے ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو سستی، بہانے اور بے حسی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتے یہی رویہ ہمیں مسلسل پیچھے دھکیل رہا ہے۔ اگر ہم اپنی شہری ذمہ داریوں کو معمولی سمجھتے رہیں گے تو ترقی کے سارے دروازے ہم پر بند ہوتے چلے جائیں گے۔ ووٹر لسٹ میں نام درج کرانا کوئی چھوٹا سا کام نہیں یہ قوم کے شعور کا آئینہ ہے۔ اگر کسی علاقے کے لوگوں کے نام لسٹ میں نہیں ہوں گے تو وہ علاقہ ترقی کے نقشے پر کمزور پڑ جائے گا۔ حکومتیں اور انتظامیہ انہی علاقوں پر توجہ دیتی ہیں جہاں ووٹروں کی تعداد درست اور مکمل ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کام صرف ووٹ دینے تک محدود نہیں بلکہ اپنی موجودگی منوانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ افسوس کہ بہت سے مسلمان بھائی بہنیں اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹر لسٹ میں نام ہونا ایک رسمی چیز ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ہمارے سیاسی و سماجی اور معاشی حقوق قائم ہوتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب BLO حضرات گھروں پر پہنچتے ہیں تو بعض لوگ اُن سے بدتمیزی یا بے رُخی سے پیش آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ابھی وقت نہیں، کوئی دروازہ بند کر دیتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب فضول کارروائی ہے۔ حالانکہ یہی لوگ بعد میں شکایت کرتے ہیں کہ ووٹ کٹ گیا یا نام لسٹ میں نہیں آیا۔ اگر ہم نے ابھی ذرا سی توجہ دے دی تو کل ہمیں کسی دفتر کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔ لیکن اگر ہم نے آج لاپرواہی کی تو کل اپنی محرومی پر سوائے افسوس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
مسلمانوں کے اندر ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم اجتماعی نظم کے بجائے انفرادی سوچ میں الجھے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع کو ایک اجتماعی مہم کی شکل دیں۔ محلے کی سطح پر نوجوانوں کی ٹیمیں بنائی جائیں جو ہر گھر جا کر ووٹر لسٹ کی جانچ کریں، بزرگوں کی مدد کریں، خواتین کے فارم بھریں اور اگر کسی کو سمجھنے میں دشواری ہو تو اسے سمجھائیں۔ یہ کام کوئی سیاسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ قومی ذمہ داری کے طور پر کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح مساجد و مدارس اور دینی مراکز کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جمعہ کے خطبات میں، درسِ قرآن کی محفلوں میں اور عوامی اجتماعات میں اس بات کا ذکر کیا جانا چاہیے کہ ووٹر لسٹ کی تصدیق محض دنیاوی فریضہ نہیں بلکہ ایک شرعی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اسلام نے ہمیں معاشرتی نظام میں تعاون، دیانت اور ذمہ داری کا حکم دیا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے قانون، نظم اور شفافیت کی پاسداری نہیں کریں گے تو یہ دین کے عملی تقاضوں کے خلاف ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے اندر خود اعتمادی اور نظم و ضبط پیدا کریں۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نمائندے ہماری بات نہیں سنتے لیکن کیا ہم نے اپنی بات پہنچانے کا حق محفوظ رکھا ہے؟ جب ووٹر لسٹ میں ہمارا نام ہی موجود نہیں ہوگا تو ہم اپنی رائے دہی سے کیسے اپنی نمائندگی ثابت کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنی شناخت محفوظ رکھنا محض ایک انتخابی عمل نہیں بلکہ اپنی قوم کے مستقبل کی حفاظت ہے۔ ہمارے نوجوان طبقے کو خاص طور پر اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے نوجوان بیدار اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ نوجوان اگر آگے آئیں تو پورا نظام درست ہو سکتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو سمجھائیں کہ BLO حضرات سے تعاون کی اہمیت کیا ہے۔ اپنے والدین، دادا دادی، چچا، ماموں، بہنوں اور خالاؤں کے فارم وقت پر بھریں، فوٹو تیار رکھیں، آدھار کارڈ اور پرانے شناختی کاغذات درست کریں۔ اگر ہر گھر کا ایک نوجوان یہ ذمہ داری سنبھال لے تو ہمارے علاقے کی ایک بھی آواز خاموش نہیں رہے گی۔ عورتوں کو بھی اس عمل میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ وہ اپنے نام کے اندراج، اپنے کاغذات کی تصدیق اور اپنی معلومات کی درستگی پر خود توجہ دیں۔ اکثر خواتین کی شادی کے بعد ان کا نام دوسرے علاقے کی لسٹ میں رہ جاتا ہے اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اب اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر وہ خود پیش قدمی کریں گی تو آنے والے وقت میں کسی بھی سرکاری یا انتخابی معاملے میں انہیں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ ہماری قوم کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم کتنی آسانی سے اپنے حق کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اس کے نظام میں حصہ لینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے حق کی حفاظت نہیں کریں گے تو دوسرا کون کرے گا؟ آج اگر ہم نے اپنے نام درست درج کرا لیے، اپنے فارم مکمل بھر دیے، اپنے دستاویزات تیار رکھے، تو یہ عمل آنے والے کئی برسوں تک ہمارے لیے سہولت اور وقار کا ذریعہ بن جائے گا۔
یاد رکھیے! جو قوم اپنی فہرستوں میں مکمل طور پر درج ہوتی ہے وہی قوم اپنے نمائندے خود چننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جو قوم اس عمل سے غافل رہتی ہے وہ ہمیشہ دوسروں کے فیصلوں پر چلنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک دوسروں کے رحم پر رہیں گے؟ کب تک اپنی سستی اور لاپرواہی سے اپنے ہی حقوق کو پامال کرتے رہیں گے؟ لہٰذا! اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اجتماعی طور پر یہ عہد کرے کہ اس بار کوئی گھر، کوئی فرد، کوئی ووٹر ایسا نہیں رہے گا جس کا نام لسٹ سے غائب ہو۔ ہم سب مل کر اپنی شناخت کو محفوظ کریں گے، اپنی آواز کو مضبوط بنائیں گے اور اپنے ووٹ کے تقدس کو پہچانیں گے۔ یہ کام نہ حکومت کا ہے، نہ کسی پارٹی کا یہ ہمارا اپنا فرض ہے، ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ اب مزید تاخیر نہ کریں۔ BLO حضرات کے آنے سے پہلے ہی اپنے کاغذات درست رکھیں، اپنے گھروں میں آگاہی پیدا کریں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اس مہم میں شامل کریں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اپنی قوم کی کمزوری کو طاقت میں بدل سکتے ہیں۔ اگر ہم سب نے مل کر ذمہ داری دکھائی تو آنے والا وقت یقیناً بہتر ہوگا اور اگر پھر بھی ہم نے سستی دکھائی تو یہی غفلت ہماری محرومی کا سبب بنے گی۔ الله تعالیٰ ہمیں بیداری، سمجھ بوجھ اور قومی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں ایسا شعور بخشے کہ ہم اپنے ووٹ، اپنی پہچان اور اپنے ملک کے وقار کی حفاظت کر سکیں۔ ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ مسلمان ایک باشعور، منظم، دیانت دار اور محبِ وطن قوم ہیں جو اپنے وطن کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ یہی رویہ ہماری نجات کا سبب بن سکتا ہے اور یہی بیداری ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو روشن کرے گی۔