! شبِ قدر: ایک ایسی رات جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے

دینِ اسلام میں اکثر اعمال کے پیچھے کسی نہ کسی نیک بندے کی یاد موجود و مقصود ہے۔ جیسے عرفات کے میدان میں حج کا فریضہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی یادگار ہے۔ قربانی کا نیک عمل حضرت ابراہیم و اسمعیل علیہ السلام کی سنت ہے۔ صفا و مروہ کی سعی ، حضرت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کا دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی یاد کو باقی رکھتا ہے۔ اس طرح ہمارے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں کچھ دن کھانے، پینے سے پر ہیز کرتے تھے یعنی ہمارے حضور سراپا نور مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ سلم نے رمضان شریف میں بھوکے اور پیاسے رہنا پسند فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے بھی روزے کے لئے ماہ رمضان شریف کو پسند فرمالیا اور پورے رمضان شریف کے روزے ایمان والوں پر فرض کر دیئے تا کہ میرے حبیب ، کونین کے طبیب مصطفی جان رحمت صلی الہ تعالی علیہ والہ وسلم کی یادگار باقی رہے۔ اور میرے محبوب مصطفی کریم صلی للہ تعالی علیہ والہ سلم کی سنت قائم رہے۔اور جیسا کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي في الجنه" ترجمہ: جس شخص نے بھی میری سنت کو پسند کیا تو بیشک اس نے مجھے پسند کیا اور جس نے مجھے پسند کیا میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (سنن ترمذی)۔ 
اور تمام تر علمائے اہلسنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  لیلۃ القدر یا شب قدر اسلامی مہینے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائسویں اور انتیسویں) میں سے ایک رات جس کے بارے میں قرآن کریم میں سورہ قدر کے نام سے ایک سورت بھی نازل ہوئی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔
حضرت  علامہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے سورہ قدر کی شان نزول اس طرح بیان فرمایا کہ ہمارے حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت اور پہلی امتوں کی عمروں میں موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ پہلی امتوں کی عمریں زیادہ اور طویل تھیں، اور میری امت کی عمر بہت مختصر اور چھوٹی ہے تو سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک میں خیال آیا کہ پہلی امتوں کی عمریں زیادہ تھیں۔ تو ان کی نیکیاں بھی زیادہ ہوں گی اور میری امت کی عمر کم ہے تو نیکیاں بھی کم ہوں گی ، گویا میری امت کی نیکی پہلی امتوں کی نیکی کے برابر ہیں ہو سکتی اس لئے کہ ان کی عمریں زیادہ ہیں تو نیکی بھی زیادہ ہوں گی۔ پس اس خیال امت میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کے  چہرۂ مبارکہ کا رنگ بدل گیا اور چہرۂ انور سے رنج وغم کے آثار نمودار ہو گئے ۔ تو اللہ تعالٰی کی رحمت کو گوارہ نہ ہوا کہ میرا پیارا حبیب امت کا طبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے غم میں رنجیدہ اور کبیدہ خاطر رہے اس لئے سورہ قدر کو نازل فرمایا۔ (تفسیر عزیزی پ: 30)۔

قرآن مقدس میں ذکر ہے :  إِنَّا أَنزَلْتَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِه وَمَا أَدْرَكَ مَالَيْلَةُ الْقَدْرِه لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنَ الْفِ شَهْرٍ ٥ تنزل الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمُ مِنْ كُلِّ أَمْرِه سَلَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (پ:30، سورۂ قدر ) ترجمہ: بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ، اس میں فرشتے اور جبرائیل اترتے ہیں۔ اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔ (کنزالایمان)۔
شبِ قدر میں قرآن مجید کا نزول: قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر شب قدر میں نازل ہوا، ہزار مہینے تک عبادت کرنے کا جو ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روح الامین حضرت جبرئیل امین علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ اترتے ہیں تا کہ شب قدر میں عبادت کرنے والوں کو فرشتے خیر و برکت سے نوازیں اور عبادت کرنے والے بندوں پر سلام بھیجیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ شب قدر میں عبادت کرنے والے بندوں کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور یہ برکت ورحمت کا سلسلہ اس رات شام سے صبح تک جاری رہتا ہے۔
 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے آقا کریم ، آفتاب نبوت ، ماہتاب رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب شب قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور ہر اس شخص پر جو کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہو اس پر رحمتیں بھیجتے ہیں یعنی اس شخص کے لئے رحمت کی دعا فرماتے ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، بیہقی- ص:127)۔
شب قدر میں تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے آقا کریم ماہ نبوت آفتاب رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا، جو بندہ شب قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف، ج:1،ص:270)۔
 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ الہ وسلم نے فرمایا جب شب قدر آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل امین ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں اور اس سبز جھنڈا کو کعبہ معظمہ پر نصب فرما دیتے ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سو بازو ہیں جن میں سے دو بازوصرف شب قدر میں کھولتے ہیں وہ بازو مشرق و مغرب میں پھیل جاتے ہیں پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج کی رات قیام کرے یا نماز پڑھ رہا ہو یاعبادتِ الہی میں مشغول ہے۔ اے فرشتو! اس شخص سے سلام و مصافحہ کرو اور ان کی دعاؤں پر آمین کہو اور صبح تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام تمام فرشتوں کو واپس چلنے کا حکم فرماتے ہیں تو فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے سردار حضرت جبرئیل ! اللہ تعالی نے اپنے پیارے محبوب، احد محبتی محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی امت کے معاملات کے بارے میں کیا کیا؟ تو حضرت جبرئیل علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اپنی خاص نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ تمام لوگوں کو معاف فرما دیا ۔ حضرات صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وہ چار قسم کے لوگ کون یں تو آقا صلی اللہ تعال علیہ سلم نے ارشاد فرمایا (ایک) وہ شخص ہے جو شراب کا عادی ہے (دوسرا) وہ شخص ہے جو ماں، باپ کا نافرمان ہے ( تیرا) وہ شخص ہے جو قطع رحمی کرنے والا (یعنی آپ داروں سے رشتہ توڑنے والا ) ( چوتھا) وہ شخص ہے جو آپس میں بغض و کینہ رکھتا ہے۔ (الترغیب والتر بیب،کنز العمال ، ج 8،ص: 268)۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے رمضان شریف کی ستائیسویں رات (یعنی شب قدر ) صبح ہونے تک عبادت کی وہ مجھے رمضان شریف کی تمام راتوں سے زیادہ پسند ہے۔
سیدہ زاہرہ، طیبہ طاہرہ حضرت فاطمہ خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہ ضعیف و کمزور مرد اور عورتیں کس طرح عبادت کریں جو قیام پر قدرت نہیں رکھتے (یعنی کھڑے ہو کر عبادت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ) تو ہمارے سر کا ر امت کے غمخوار مصطفٰی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا وہ حضرات تکیہ لگالیں یعنی کسی چیز کا سہارا لے لیں، جس سے عبادت کرنے میں آسانی ہو جائے لیکن اس مبارک رات کے کچھ لمحے ضرور بیٹھ کر گزاریں، اور اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے فرمایا مگر یہ بات میں اپنی امت کے تمام رمضان کو قیام میں گزارنے سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں (مکاشفتہ القلوب)۔
شب قدر طاق راتوں میں تلاش کرو: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی مصطفی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی اکیسویں اور تیسویں اور پچیسویں اور استائیسویں اور انیسویں راتوں میں تلاش کرو ۔ ( بخاری شریف ج:1 ص: 270)۔
شب قدرکون سی رات ہے؟۔۔اس مبارک رات کے تعین میں ہمارے اسلاف اور علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں جو چالیس کے قریب ہیں ہر سال شب قدر رمضان شریف کے آخری عشرہ میں ضرور ہوتی ہے، مگر تاریخیں بدلتی رہتی ہیں اور یہ بھی علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس رات کے متعین نہ کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ اس کی تلاش میں مسلمان کم از کم پانچ طاق راتوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں گزاریں۔ (تفسیر مظہری)۔
 حضرت علامہ محمود آلوسی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ علمائے کرام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طاق راتوں میں سے ستائیسویں کو شب قدر ہوتی ہے۔ (روح المعانی)۔
ہمارے اسلاف کے اقوال: اگر چه بزرگان دین اور مفسرین کرام ومحد ثین عظام رحمہ اللہ علیہم اجمعین کا شب قدر کے تعین کے متعلق بہت اختلاف ہے پھر بھی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال شب قدر رمضان شریف کی ستائیسویں شب کو ہی ہوتی ہے۔ صحابی رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ ، صحابی ابن صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اماموں کے امام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ پیروں کے پیر، ولیوں کے سردارا بوالشیخ ابو محمد سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ اور بے شمار بزرگان دین و علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شب قدر رمضان شریف کی ستائیسویں رات ہی کو ہوتی ہے (تفسیر عزیزی)۔
ستائیسویں رات ہی غالبا شبِ قدر ہے:حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے شب قدر کے متعلق حلف اٹھا کر (یعنی قسم کھا کر) کہا کہ وہ (یعنی شبِ قدر) ستائیسویں شب ہے۔ حضرت زین تابعی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کس دلیل سے آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ (یعنی شبِ قدر) ستائیسویں رات شب قدر ہے ؟۔ تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ علیہ وآلہ وسلم علم نے جو اس کی علامت بیان فرمائی ہے وہ اسی رات میں پائی جاتی ہے۔ (مشکلاۃ المصابیح)۔
شب قدر کا انعام:امیر المومنین مولائے کائنات حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص شب قدر میں سورہ قدر سات مرتبہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہر بلا و مصیبت سے محفوظ فرمادیتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کے لئے جنت کی دعاء کرتے ہیں (نزہتہ المجالس )۔
شب قدر کی برکات سے محروم لوگ : ایک روایت میں نقل ہے کہ شب قدر میں جولوگ اللہ تعالی کی برکت و رحمت سے محروم ہیں وہ لوگ نو قسم کے ہیں (1) جو لوگ مال کی زکوۃ نہیں دیتے (2) جو لوگ خون ناحق کرتے ہیں (3) رشتہ داروں سے رشتہ توڑنے والے (4) قبرستان میں جا کر بننے والے (5) اس کی بات اس کو اور اس کی بات اس کو کر کے لڑانے والے (6) دینی استاذ کو تکلیف دینے والے (7) نماز میں سستی کرنے والے (8) تین دن سے زیادہ مسلمان بھائی کی طرف کینہ رکھنے والے (9) بے غسل رہنے والے۔
 حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب رمضان شریف کا مہینہ آیا تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات (یعنی شب قدر ) ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہا، گویا تمام بھلائی سے محروم رہا اور اس کی (یعنی شب قدر) کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقت میں محروم ہے (ابن ماجہ شریف ص:۱۱۹)۔
شب قدر کی تیاری: اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمیں یہ مقدس عظمت والی رات نصیب فرمائی، جو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے پس غنیمت جانئے اور تیاری کیجئے۔ یہ رات جاگنے اور اللہ تعالی کا ذکر اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے اور کلمہ شریف کے ورد کی رات ہے اور خوب، خوب تیار رہے کہ یہی رات جس میں فرشتے ہم سے سلام و مصافحہ کریں گے صرف ظاہری صفائی نہیں بلکہ اپنے دلوں کو بھی پاک وصاف کرلیں۔ اگر ہمارے ماں ، باپ ہم سے ناراض ہیں تو ان سے معافی مانگ لیں۔ اگر ہم پر کسی کا حق ہے تو اس کو ادا کر دیں اگر سود کھاتے ہیں تو اس سے توبہ کر لیں ، اپنے دلوں میں مسلمانوں کی محبت ، الفت اور ان کے لئے ایشیار و قربانی کا جذبہ پیدا کریں، ہر قسم کی کدورت، نفرت، بغض و حسد، کینہ کی گندگیوں سے اپنے دل کو پاک وصاف کرلیں۔ یاد رکھئے آج کی رات حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ ہم کو دیکھنے اور ہم سے ملاقات کرنے آرہے ہیں ۔ غرضیکہ اللہ تعالی نے یہ رات یعنی شب قدر ہم کو عطا فرما کر ہم پر بڑا احسان کیا۔ یہ رات رونے اور گڑگڑانے کی رات ہے اور رو رو کر اپنے رب تعالیٰ کو منا کر بخشش و نجات پانے کی رات ہے۔ یہ رات دعا مانگنے کی رات ہے۔ اپنے لئے مانگو اور اپنے مومن بھائیوں کے لئے خوب دعاء کرو اس رات میں مومن بندہ کی کوئی دعا رد نہیں کی جاتی ہے۔

در  کریم  سے  بندہ  کو  کیا  نہیں  ملتا
 جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter