آیا صوفیا: عروج اسلام کی ایک نئی کرن
تمام عالم اسلام میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے مسجد آیا صوفیا کو عامۃ الناس کے لیے پنج وقتہ نمازوں کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔ یہ وہی آیاصوفیہ ہے جو کسی زمانے میں عیسائیوں کا کلیسہ تھا۔ اور جب محمد الفاتح نے چھٹی صدی ہجری میں استنبول کو فتح کیا تو اسی کلیسہ آیا صوفیا کو ایک عظیم الشان مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھر اس کے بعد صدیوں تک وہاں نمازیں پڑھی جاتی رہی ، اذان کی آوا گونجتی رہی ، قرآن کی تلاوت ہوتی رہی ، اعتکاف ہوتا رہا ، مدرسہ چلتا رہا اور دین وتبلیغ کا کام ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ دور آیا جب اتاترک مصطفی کمال پاشا جمہوریہ ترکی کے پہلے صدر بنے۔ یہ وہی ملحد اور ذلیل یہودی ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں کی طاقت کی مدد سے مصطفی کمال پاشا کے نام سے مشہور ہوا اور ان ہی کی مدد سے پورے ملک ترکی میں مساجد کے دروازوں پر قفل لگا دیا ، اذانوں پر پابندیاں عائد کر دیا ، ہر طرح کے اسلامی معاشرے پر پابندی لگا دی گئی ، سلطنت عثمانیہ کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اسلامی تہذیب و تمدن کو نيست ونا بود کرنے کی ہر طرح کی کوشش کی گئی۔ شاید ہی پوری دنیا میں ایسا کوئی ملحد گزرا ہو جس نے یہودی اور مغربی صلیبیوں کی طاقت کی مدد سے ایک اسلامی ملک کی پہچان کو ختم کردیا۔ اور اسی مغربی طاقتوں کو استعمال کرکے سینکڑوں ہزاروں علماء کرام کو قتل عام کیا۔ ترکی کو اسلامی تہذیب و ثقافت سے بالکل عاری کر دیا۔ ترکی سے رمق اسلام کو ختم کرنے میں اس مجرم ملحد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حتی کہ اس خبیث نے اس وقت کے شیخ الاسلام کے سر پر قرآن شریف کو پھینک کر کہا کہ جاؤ اور لے جاؤ تمہارا قرآن۔ وه ایک ایسے مسلم ملک پر قابض ہوگیا جس ملک نے مدد توں ، صدیوں تک عالم اسلام کی خدمت اور شعار اسلام کا تحفظ کیا تھا۔
ترکی جو صدیوں تک اسلام کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا رہا اسی ترکی کو اسلام سے بالکل عاری بنانے کی کوشش میں اس ملحد مصطفی کمال پاشا نے ظلم و بربریت کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک دن اس کی حکومت اور اور طاقت سب کچھ ختم ہو جائے گی۔ زمانہ اول سے یہ اصول رہاہے کہ جب بھی کسی نے اس دنیا میں ظلم و بربریت کا ڈھول بجایا ہے تو خدا تعالی نے اس کو سبق سکھایا ہے۔ اس کی طاقت اور حکومت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ایک مقولہ بہت مشہور ہے کہ 'جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے' ، اللہ کا نظام اپنی جگہ کام کرتا ہے اگرچہ اسے پورا ہونے میں کچھ عرصہ لگتا ہے۔ تقریبا سو سال گزر گیا تھا کہ اس مجرم نے مسجد آیاصوفیہ جہاں نمازیں ادا کی جاتی تھی ، قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی تھی ، کو ایک متحف (میوزیم) میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہ تقریبا 1930- 1933 کے بیچ کی بات ہے جب اس نے اس مسجد کو ایک میوزیم (عجائب گھر) میں تبدیل کر دیا۔ اب 2020 تک کا طویل سفر کئی دہائیوں کی محنتیں ، بڑی بڑی قربانیوں کے بعد یہ خوش وقت آیا کہ اس میوزیم کو پھر سے اسی مسجد کی شکل میں دیکھنے کو ملا جس کے اوپر کئی صدیوں تک دین اسلام کا پرچم لہرتا رہا۔
اس میوزیم کو پھر سے مسجد میں بدلنے کا مشن 1965 کے بعد جمہوریہ ترکی کے سابق وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان نے علی الاعلان آغاز کیا اور اس کے لیے انہوں نے انتھک کوششیں بھی کی۔ لیکن وہ اپنی حیات میں اس عظیم الشان عمارت کو مسجد کے شکل میں نہ دیکھ سکے۔ ان کے گزرنے کے بعد ان کا تلمیذ رشید جمہوریہ ترکی کے حالیہ صدر جناب رجب طیب اردوغان نے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اگرچہ رجب طیب اردوغان نے اپنے استاد نجم الدین کی پارٹی سے اپنے آپ کو کسی سیاسی اختلافات کی بنا پر منعزل کرلیا تھا لیکن دونوں کا مشن ایک ہی تھا کہ ملک ترکی کو پھر سے وہی عزت و آبرو لوٹا سکيں جو سلطنت عثمانیہ میں تھی۔ ان کا اولین مقصد تھا کہ ترکی پھر سے عالم اسلام کا مرکز بن سکے ، اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے۔ رجب طیب اردوغان نے بہت حکمت عملی کے ساتھ اس میوزیم کو کئی مقدمہ لڑنے کے بعد پھر سے ایک بار مسجد کی شکل میں ترکی کو واپس کیا۔ پھر سے انہوں نے محمد الفاتح کی وصیت کو زندہ کیا۔ جب رجب طیب اردوغان کے اعلان کے بعد مسجد آیاصوفیہ میں اذان کی آواز بلند ہوئی تو پورے ترکی کے مسلمانوں کے اندر نشہ سا چھا گیا تھا ، ان کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ محمد الفاتح نے پھر سے استنبول کو فتح کیا اور کلیسہ کو مسجد میں تحویل کر دیا ہو۔
ترکی آج پھر سے ایک قوی مسلم ملک بن کر سامنے آیا ہے۔ ترکی اپنی خدمات صرف ترکی ہی تک محدود نہیں کیا بلکہ شام ، لیبیا ، عراق اور فلسطین میں اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔ ترکی ابھی اس کوشش میں ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جہاں جہاں مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان پر تھی پھر سے وہاں امن و امان کا نظام قائم کرسکیں ، پھر انہیں انکا حقوق دلا سکیں۔ اور انہیں باعزت مسلمان بنا سکیں۔ اور الحمدللہ اس مشن عظیم میں ان کو کامیابی بھی ملتی جا رہی ہے۔ اور وہ دن دور نہیں کہ جس طرح خدا تبارک و تعالی نے سلطان سلیم عثمانی کو خادم الحرمین الشریفین منتخب فرمایا تھا اسی طرح جناب طیب اردوغان کو ایک دن خادم حرمین شریفین منتخب فرمائے گا۔
ترکی ان ممالک میں سے نہیں ہے جو آج کے اس دور میں بھی دوسروں کی غلامی کر رہا ہے۔ انگریزوں کی پیروی کرکے اپنى حکومت جما رکھے ہيں۔ ترکی میں اسلام کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ لیکن ترکی اپنے دم پر اٹھا اور پھر سے وہ دن واپس لے آیا جو سلطنت عثمانیہ میں ہوا کرتا تھا۔ آج کے اس دور میں اس طرح کا کام کوئی مجددا نہ کام سے کم نہیں ہے۔ بے شک رجب طیب اردوغان نے ترکی کو اپنی حالت ماضی کی طرف لا کر ایک مجددانہ کام کو انجام دیا ہے۔ آج وہ ملک جو کبھی عالم اسلام کا منبع اور اسلامی تہذیب و تمدن کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا ، کسی اور کی غلامی کر رہا ہے۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کو ان کی ہی زمین پر رہنے کے لئے انہیں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ عرب و امارات کی حکومت نے انگریز ، امریکہ اور روس کی غلامی کر کے اپنی شناخت کو کھو دیا ہے۔ انہى لوگوں نے مصر میں سیسی جیسے مکار و ذلیل کو تخت پر بٹھایا تا کہ مصر میں اخوان المسلمین کو حکومت نہ مل سکے۔ لیکن گردش ایام نے ان کے ہی منہ پر تھپڑ مارا۔ آج وہی سیسی جس کو انہوں نے تخت دیا تھا ان کو ہی ٹھکرا دیا۔ یہ وہی بزدل اور غلامی پسند لوگ ہیں جنہوں نے یمن کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ مسلمانوں کے درمیان جنگ کروادی۔ الغرض انہیں بزدل اور حکومت کے لالچی قسم کے لوگوں کی وجہ سے آج عالم اسلام اتنا پیچھے چلا گیا۔ انگریز اور امریکہ کی طاقت کے بل پر لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا کر حکومت قائم کیا۔ انہی لوگوں نے شام ، عراق اور یمن میں ہزاروں لاکھوں معصوم مسلمانوں کا خون بہایا۔ اور ابھی لیبیا میں ظلم و ستم کا پہاڑ ڈھارہے ہیں۔ یہ لوگ غلامی کی اتنی گہرائی میں چلے گئے کہ ان کے پاس ان کی ہی کوئی دولت نہیں رہى۔ تیل جیسے عظیم سرمایہ پر آج باہر والوں کا قبضہ ہے۔
آیاصوفیہ میوزیم کا پھر سے مسجد میں بدلنا اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ عنقریب بیت المقدس بھی آزاد ہوگا ، فلسطین سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا۔ کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی ملے گی ، وہاں سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوگا۔ وہ وقت قریب ہے جب مسلمان پھر سے اپنا سر اٹھا کر جئے گا ، انہیں ان کی عزت و آبرو دوبارہ ملے گی۔