وزیر اعظم کو مسلم مخالفت کے خول سے باہر آنا ہوگا!

انتخابات کے پانچ مراحل گزر چکے ہیں۔ کچھ ریاستوں میں امن وامان کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ پولنگ ہوئی۔ اس بار  ہندوستان کی عوام الناس نے مکمل بیداری کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ کہیں کہیں برسراقتدار پارٹی نے ہار کے خدشے میں بہت سارے  رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے سے روکا۔ ان کے دستاویزات کو نقلی قرار دے کر انہیں پولنگ بوتھ جانے سے روکا۔ کچھ علاقوں میں عوام الناس پر زیادتی بھی کی کئی۔ اس بار 400 پار کا نعرہ ڈھکوسلہ ثابت ہورہا ہے۔ بی جے پی کا پورا شیش محل چکنا چور ہو رہا ہے۔ اسی اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر ہمارے ملک کے وزیراعظم مسٹر مودی جی بوکھلاہٹ میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ وہ کیا بکے جا رہے ہیں۔ ہریانہ میں کچھ، راجستھان میں کچھ، تھانہ میں کچھ اور کرناٹک میں کچھ۔ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ کرناٹک کو دیش کا نمبر ون اسٹیٹ بنادوں گا۔ کبھی کہتے کہ اڈیشہ کو ملک کا نمبر ون صوبہ بنادوں گا۔ کبھی ہندو مسلم کرتے ہیں تو کہیں کہتے ہیں میں جس دن ہندو مسلم کروں گا تو عوامی زندگی میں رہنے کے لائق نہیں رہ سکوں گا۔ مزید برآں جس دن میں ہندو مسلم کروں گا اس دن میں سیاست چھوڑ دوں گا۔

اس الیکشن میں مسٹر مودی جی نے مسلمانوں کے خلاف جتنی زہر افشانی کی ہے شاید ہی کسی اور سابق وزیر اعظم نے کی ہو۔ یہ پورے ملک کے لیے ننگ وعار اور باعث شرمندگی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کسی ایک خاص قوم کی نمائندگی کرنے میں اتنا گرجائیں کہ جو منگل سوتر اور جائیداد چھیننے کی بات کہنے پر مجبور ہو۔ کیا کیا نہیں کہا مسٹر مودی جی نے مسلمانوں کے خلاف۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ کانگریس کا انتخابی منشور مسلم لیگی منشور ہے۔ کہیں بوکھلاتے ہوئے کہتے کہ ماں بہنوں یہ تمہارے جائیداد اور بھینس بھی چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں۔ اشتعال انگیزی کی حد ہوگئی۔ زندگی میں کئی الیکشن دیکھنے کو ملے لیکن کبھی اتنی فرقہ وارانہ تقریریں سننے کو نہیں ملی۔ مسلم ریزرویشن پر بڑی گندی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل امیت شاہ کی تلنگانہ میں ہوئی تقریر ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر تلنگانہ میں بی جے پی کو دس سیٹ بھی دوگے تو ہم مسلم ریزرویشن کو ختم کر دینگے۔

اس دس سال میں بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا اور فرقہ پرستی کے نام پر ملک کے کئی حصوں میں دنگے فسادات کروائے۔ گئو رکشا کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ٹارگٹ کرکے ان کی زندگی کو اجیرن کردیا گیا۔ کتنے بے گناہ ومعصوم نوجوان آج بھی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ فرقہ واریت کے نام پر کتنے مسلم علاقوں کو ویران کردیا گیا۔ مندر کے نام پر کتنی ہی مسجدوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ لوجہاد کو آڑ بنا کر کتنی مسلم بچیوں کی زندگی سے کھلواڑ کیا گیا۔ پیار و محبت کا ڈھونگ رچاکر شادی کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں مسلم مخالفت کا جراثیم  ضرور کارفرما ہے۔ بلقیس بانو کی عصمت کو تار تار کرنے والے درندوں کو کھلے عام رہا کرکے گل پوشی کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان مجرموں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر نہیں تو اتنی ہمت و جرأت کے ساتھ یہ مجرم درندے نہیں گھومتے۔ اگر کوئی ہم سے پوچھیں کہ اس دس سال میں مسلمانوں نے کیا حاصل کیا تو جواب جگ ظاہر ہے کہ نفرت، فرقہ وارانہ تشدد، اشتعال انگیزی، مندر مسجد کے نام پر دنگے فسادات، لوجہاد کے نام پر مسلم بچیوں کی کھلے عام عصمت دری، فرقہ پرستی کی وجہ سے مدارس دینیہ کا سروے، غریب ولاچار مسلمانوں کو دستاویزات کے نام پر خوف وہراس کا شکار بنایا گیا۔ یکساں سول کوڈ کے بےجا نفاذ کی ہٹ دھرمی، سی اے اے کے نام پر عوام کو حیران کیا گیا، اس لیے ہم مسلمانوں پر ضروری ہے کہ اس بار اسمبلی الیکشن کو ہلکے میں نہ لیں بلکہ ملک کی سالمیت، جمہوریت کا تحفظ، آئین ہند کی حفاظت اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم مکمل بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے ووٹ دیں۔ اور انڈیا کو جتائیں۔

فرقہ پرست سیاست دانوں سے ملک کو بچائیں۔ ایسے ہی ہم ملک کے وزیراعظم سے بھی نویدن کرتے ہیں کہ یہ فرقہ وارانہ تقریریں اور کسی خاص قوم کے خلاف آپ کی زہر افشانی آپ کے منصب کے عین مخالف ہے۔ اس سے صرف آپ کی ذات نہیں بلکہ پورے دیش کی عزت کی دھجیاں اڑ رہی ہے ۔ اقوام عالم کے سامنے ہندوستان کا وقار مجروح ہورہا ہے۔ اگر آپ کو آپ کی عزت پیاری نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ ہمیں ملک کی عزت و آبرو کی فکر ضرور ہے۔ اور ایک مخلصانہ اپیل ہے کہ قوم کو جھوٹ بول بول کر الو بنانے کی نام کوشش مت کیجیے۔ ان مودی اندھ بھکتوں سے ہماری والہانہ  گزارش ہے کہ آنکھ کھولو کب تک اندھیرے میں رہوگے۔ ملک کی فکر کرو۔ بےروزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے اس کا حل ڈھونڈو، غریبی اور افلاس سے قوم کو بچاؤ، تعلیم کے ذریعے اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارو، فرقہ واریت سے نکل کر قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرو، اگر نہیں تو تمہارا بھی حشر وہی ہوگا جو کل تک دوسروں کا تھا یہ سیاست دان اپنی کرسی کے لیے تمہارے ملک کو بھی نیلام کرکے بیچ دیں گے۔ تم پر ٹیکس لاگو کرکے تمہارے خون پسینے کی کمائی چھین لیں گے۔ مہنگائی کے دلدل میں تمہیں ڈھکیل کر تماشائی بنے رہیں گے۔ ان فرقہ پرست سیاست دانوں کو نہ تمہارے دھرم سے سروکار نہ تمہاری ترقی کی فکر انہیں صرف صرف ان کی کرسی اور حکومت پیاری ہے۔ خدا ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت فرمائے آمین۔

 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter