حج و قربانی کاعارفانہ تصور
دین اسلام کی تمام تر عبادات اورحضوصاًحج اور قربانی خالص توحیدی عبادتیں ہیںجن میں غیراللہ کاکہیں گزرنہیں۔ قرآن وحدیث میں اِن دونوں عبادتوں کی بےشمار فضیلتیں وارد ہیں۔علماوفضلا اور فقہا ومحدثین نے جہاں حج و قربانی کو اُن کے ظاہرمعنی کے پیش نظر سمجھنے سمجھانے کی کوششیں کی ہیں وہیں مشائخ عظام نے حج و قربانی کو اُن کے باطنی معنی ومفہوم کی روشنی میں دیکھنا اور دِکھانا اہم سمجھا ہے، چناںچہ جب ہم مشائخ کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف اور واضح طورپراِن دونوں کا اصل مقصود’’مقام ابراہیم‘‘ کا حصول نظر آتا ہے اور ’’مقام ابراہیم‘‘ کاحصول کیا ہے؟یہ،دراَصل ’’مقصود صرف اللہ کی ذات ہے‘‘ کے رمز سے آشنائی ہے۔گویا جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنا سب کچھ رضائےمولیٰ پرنچھاور کردیا اور کبھی اُف تک نہیںکیا، بعینہ مشائخ عظام بھی اپنا سب کچھ رضائےمولیٰ پر نچھاور کردینے کے درپے رہتے ہیںاور اُن کی زبان سےبھی اُف تک نہیں نکلتا۔
ایک عاشق صادق کی یہ کیفیت کب ہوتی ہے ؟ یہ کیفیت تبھی حاصل ہوتی ہےجب ایک بندہ حضرت جنید بغدادی جیسا تصورِ حج کے ساتھ سفر حج پرنکلتاہے اور حج سے واپسی تک اُسی کیفیت میں محو ومست رہتا ہے۔ چناںچہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص حج سے واپسی پرحضرت جنیدبغدادی کی خدمت میں پہنچا۔حضرت جنید بغدادی نے اُس سےدریافت کیا: آغاز سفرحج میں تم نے ترک ِگناہ کیا؟منزل بہ منزل قیام کے دوران حق کی خاطردنیا سے اِنقطا ع کیا؟ احرام پوشی کی حالت میںاپنی بشری صفتوں سےجدا رَہے؟ عرفات میں مشاہدات کے مرحلے سےتمہارا گزرہوا؟ مقام مزدلفہ پر تم نے اپنی خواہشات ومرغوبات کو ترک کیا؟طواف کعبہ میں اپنے باطن کو خالص حضرت حق کے حضور پایا؟ صفاومروہ کے درمیان دوڑ لگائی تو صفا اور مروہ کے مقام ودرجے پر خود کوفائز رکھا؟ منٰی میں تم نے دُنیوی مرادسےکنارہ کشی اختیار کی؟ رمی جمار کیا تو ہراُس شئے کو پتھرمارا جوتم نے اپنے نفس اَمّارہ کےلیے اختیار کررکھی تھی؟ اِن تمام سوالوں کے جواب میں اُس شخص نےکہا:نہیں!ایساکچھ بھی نہیں ہوا۔
اِس پر حضرت جنید بغدادی نے فرمایا: پھر توسفرحج، احرام پوشی، وقوف عرفات، قدوم مزدلفہ، طواف کعبہ،سعی صفاومروہ، قیام منٰی، رمی جماروغیرہ میںسےکوئی بھی رکن مکمل نہیں ہوا ،اَورگویا تمام مشقتوں کے باوجود تم نےحج نہیں کیا، لہٰذا دوبارہ بیت اللہ جاؤ اور مذکورہ طریقے پر حج کے ارکان مکمل کرو،تاکہ تم ’’مقام ابراہیم‘‘ تک پہنچ سکو۔
چناںچہ یہ تصوربالقصد ہونا چاہیے کہ جب ایک عاشق صادق سفرحج پر نکلے تو وہ دنیا ومافیہاسے بالکل بےنیاز رہے۔خواہ آغازِ سفر ہویا منزل بہ منزل قیام۔ احرام و میقات ہویاوقوف عرفات ۔ قدوم مزدلفہ ہویا طواف کعبہ۔ صفاومروہ کے درمیان سعی ہو یا قیام منٰی یا پھررمی جماروغیرہ۔ اِن تمام ساعتوں اور مرحلوں میں ذاتِ واحد کا تصور ، ذکروفکر اور اُس کی یاد وپکار کے سوا اورکچھ بھی ورد ِزبان نہیں رہنا چاہیے۔ واضح لفظوں میں کہا جائے تو دَورانِ حج ایک عاشق (بندۂ صادق)اور حق تعالیٰ کے مابین رشتہ وتعلق اِس قدر مضبوط ومستحکم ہوناچاہیےکہ آغازِ سفر سے واپسی تک چھوٹےسے چھوٹے گناہ کابھی گزر نہ ہو۔لہٰذا مخلوق کا خالق سے اگر اَیسارشتہ قائم ہوجاتاہے تو بندے کاحج ہرفسق و گناہ سے پاک ہوگا اور ایسی صورت میں اُس کاحج، حج مبرور کہلائےگااورحج مبرور سے لوٹنےوالا ہرگناہ سے پاک ہوتا ہے گویااُس نے ابھی اپنی ماں کے بطن سے جنم لیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جوبندہ ہرگناہ اورہرفسق سے پاک رہ کر خالص اللہ کے لیے حج کرتا ہے تووہ حج سے ایسے ہی لوٹتا ہےجیسےکہ اُس کی ماں نے اُسے ابھی جنم دیا ہے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث:۱۵۲۱)
قربانی میں بھی ’’مقام ا براہیم‘‘ کاحصول پیش نظر رہنا چاہیےاورقربانی کے جانور خریدنے سے لے کر اُس کے ذبح کرنے تک بالقصد تصورِغیراللہ سے دورونفوررَہنا چاہیے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو نہ جانور سے مطلب ہےاورنہ اُس کے گوشت سےکچھ غرض۔ اگر وہ کچھ چاہتا ہے تو بس یہی کہ اُس کا بندہ تقویٰ وطہارت کے مقام پر فائز ہوجائے،نیزاپنے بندے کواَپنی تکبیروتسبیح میں مشغول دیکھنا چاہتاہے۔ارشاد رَبانی ہے:’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نہ قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اُس کا خون پہنچتاہے ، البتہ! تمہارا تقویٰ ضرور پہنچتا ہے۔ اِسی لیے اُس نے تمہارے لیےیہ جانورمسخر کردیے تا کہ تم اِس رہنمائی پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو۔‘‘(حج:۳۷)
چناں چہ ایک بندے کو تقویٰ وطہارت کب حاصل ہوگی اور اَپنے خالق کی تکبیروتسبیح میں کب مشغول ہوگا؟ جب وہ ہرطرح کے نام ونمود اور جاہ وحشمت سے کنارہ کشی اختیار کرتےہوئے اپنی قربانی خالص ا للہ کے لیے پیش کرےگا اور اپنی خواہشات ومرغوبات کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا ومشیت پریہ کہتے ہوئے قربان کردےگاکہ’’بےشک میںنے دین ابراہیم پریکسو ہوکراَپنا رُخ اُس ذات کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میںسے نہیں۔ بے شک میری نماز، میری قربانی، میراجینااورمیرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اِسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میںسے ہوں۔‘‘(مسنداحمد ،حدیث:۱۵۰۶۴)
خلاصہ یہ کہ حج کا فریضہ ہویا قربانی کا فریضہ، بہرحال ’’مقام ابراہیم‘‘ کا حصول پیش نظر رہنا چاہیے اور ’’مقام ابراہیم‘‘اِس کے سوا اَور کچھ نہیںکہ بندے کاہرعمل خالص اللہ کی رضاکے حصول کے لیےہواور اُس کا مطلوب ومقصود محض تقویٰ اورمحض قرب ربانی ہو۔اس کے لیے خواہ جان کی بازی لگانی پڑے،خواہ بےآب وگیاہ مقام پر سکونت کرنا پڑے یاخواہ جان سے عزیز کی قربانی پیش کرنی پڑے۔
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی