خیرخواہی، رب کی بارگاہ کا محبوب عمل

خیرخواہی بہت ہی پیارا،دینی اور رب کا پسندیدہ عمل ہے اوررب کی قربت کا بڑااچھا ذریعہ بھی ہے۔سرکار دوعالم ﷺکی سیرتِ پاک اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مبارک زندگیوں سے بھی اس کا درس ملتا ہے،اس سے دین و دنیاکی بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں توہمیں اس پسندیدہ عمل کواپنانا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ خیرخواہی کا معاملہ کرنا چاہیے اس لیے نہیں کہ اس کا بدلاہمیں ملے بلکہ رب کی رضا ملے۔

 آئے دن ہمارے عزیز و اقارب، دوست احباب،رشتے داراس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، ایک دن ہر کسی کو رخصت ہونا ہے، جو لوگ ہمارے سامنے رخصت ہو رہے ہیں، ہم ان کی موت سے نصیحت لیں اور ان کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام کرکے ان کے ساتھ خیرخواہی کریں۔عام مسلمانوں کے انتقال پر بسا اوقات ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمارے رشتے دار تھوڑے ہی ہیں جو ہم ان کے لیے ایصال ثواب کریں،چلے گئے اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور بس۔ہاں یاد رکھیں وہ آپ کے رشتے دار ہیں بلکہ خونی رشتوں سے بڑھ کر ہیں۔وہ ہمارے ایمانی بھائی تو ضرورہیں،وہ ہمارے ایسے رشتے دار ہیں جن کا تذکرہ قرآن پاک میں آیا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ  فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ  لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(سورہ حجرات ۹۴،آیت:۰۱)
 ترجمہ: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔(کنزالایمان)
 

اس آیت کریمہ میں مومنوں کے آپسی ایمانی رشتے کا بیان ہے اور ان کے ساتھ صلح کرنے کا حکم دیا گیا ہے، صلح بھی خیرخواہی کی ہی ایک قسم ہے۔ہمیں بتائیں،بھلائی بھی کیا رشتہ دیکھ کر کی جاتی ہے،نہیں۔ہمیں ہر کسی کے ساتھ بھلائی کرنے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔خیرخواہی کے حوالے نبی کریم ﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں: 
 

عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:”الدِّینُ النَّصِیحَۃ“.قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ:”لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ“(صحیح مسلم،حدیث:۵۵)
 حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ہم نے کہا: یارسول اللہ کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے،اس کے رسول کے لیے،ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کے لیے۔

 ایک دوسری روایت میں ہے کہ خیرخواہی کا لفظ تین بارارشاد فرمایاہے۔حدیث پاک میں اس کو دین کہا گیا ہے یعنی لوگوں کے ساتھ بہتر معاملہ کرنا،ان کی بھلائی چاہنا،ان کی اچھی رہنمائی کرنا،ان کو فائدہ پہنچانا اور ان کے کام آنا بھی دین ہے۔اس سے خیرخواہی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔صحابہ کرام کی مبارک زندگیوں سے بھی اس کا درس ملتا ہے۔اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:

 عن جریر بن عبداللّٰہ،قال: بایَعْتُ النبیَّ ﷺ علی النُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر:۶۵)
 حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺسے اس بات پر بیعت کی کہ میں ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کروں گا۔(صحیح مسلم)
 

اب ہم پر ضروری ہو گیا کہ ہم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ خیرخواہی کا معاملہ کریں،چاہیے وہ اس دنیا میں ہوں یا نہیں اورجو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے لیے تو ضرورایصال ثواب کا اہتمام کریں۔اس تحریر کا خاص مقصد بھی اپنے مرحومین کے ساتھ خیرخواہی کرنا ہے۔جب آپ تک کسی ایمان والے کی موت کی خبرپہنچے تو یہ نہ دیکھیں کہ وہ ہمارے علاقے کے ہیں یا نہیں، ہمارے رشتے دار ہیں یا نہیں، ہمارے دوست ہیں یا نہیں، وہ ہمارے قرآنی بھائی تو ہیں نا؟ میت کو ایصال ثواب کی بڑی ضرورت ہوتی ہے،قبر میں میت کی حالت کیا ہوتی ہے نبی کریم ﷺ کے اس فرمان اس کا اندازہ لگایا جا سکتا:
 

عن عبداللّٰہ بن عباس قال:قال النبی ﷺ ما المیِّتُ فی قبرِہ إلّا کالغریقِ المُتغوِّثِ ینتظِرُ دعوۃً تلحَقُہ من أبیہ أو أخیہ أو صدیقٍ لہ فإذا لحِقتہ کانت أحبَّ إلیہ من الدُّنیا وما فیہا وإنَّ ہدایا الأحیاءِ للأمواتِ الدُّعاءُ والاستغفارُ (أخرجہ البیہقی فی شعب الإیمان: ۵۰۹۷)

حضرت عبدا للہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قبر میں میت کی مثال پانی میں ڈوبنے والے کی طرح ہے۔وہ اپنے باپ،بھائی اور دوست کی دعاوں کے انتظار میں ہوتا ہے، جب ان میں سے کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو وہ دعا اس کے لیے دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہوتی ہے۔بیشک زندوں کا مُردوں کے لیے سب سے بہترین تحفہ ان کے لیے دعااور استغفار ہے۔(بیہقی)

 اس حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ میت کو خاص طور سے ہماری دعاوں کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ انتظار کرتی ہے کہ کوئی ہمیں دعا اور استغفارکا تحفہ بھیجے۔اب ہمیں چاہیے کہ ان کے لیے قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کریں،زیادہ نہ ہو سکے تو تھوڑا ہی پڑھیں لیکن پڑھ کرثواب پہنچائیں۔ اللہ کی رحمت پر قربان جاؤں کہ ایک چھوٹی سی سورت ”سورہ اخلاص“کے تین بار پڑھنے کا ثواب ایک قرآن پاک کے برابر کر دیا۔اللہ رحمٰن و رحیم کی اس رحمت و بخشش پر ہی پڑھ لیا جائے تو اس سے اس کے بندے کو کتنی خوشی ہوگی؟ خیرخواہی کی نیت سے پڑھا جائے تو زیادہ بہتر۔اگر ہم نے اپنے اسلامی بھائیوں کے ساتھ ایصال ثواب کرکے خیرخواہی کی تو اللہ پاک کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ہماری خیر خواہی کا انتظام کردے گا۔

 قرآن مقدس میں مومنین ومومنات کے لیے متعدد دعاوں کا ذکر ہے۔دو قرآنی دعا یہاں پیش کی جاتی ہے،اسے اپنی نمازوں میں شامل رکھیں تو بہت برکتیں حاصل ہوں گی۔
 

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ  (سورہ حشر ۹۵،آیت ۰۱)
 ترجمہ: اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ،اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔

 رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ  یَوْمَ  یَقُوْمُ الْحِسَابُ (سورہ مریم ۴۱،آیت:۱۴)
 ترجمہ: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔

اس آیت کی تفسیر میں بخشش کی دعاکے حوالے سے صدرالافاضل علامہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ”بشرط ایمان یا ماں باپ سے حضرت آدم و حوا مراد ہیں۔“یعنی اگر والدین مومن ہیں تبھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے،ورنہ اس دعا میں والدین سے مراد حضرت آدم و حوَّا کولیا جائے گا۔

اس گفتگو سے واضح ہوا کہ خیرخواہی ایک بہترین عمل ہے،اس سے بڑھ کر اس کی بہتری اور کیا ہو سکتی کہ اسے دین کا کہا گیا ہے۔زندوں کے ساتھ بھی خیرخواہی کریں اورمُردوں کے ساتھ بھی۔یقین مانیں خیرخواہی رشتوں کی مضبوطی کا بھی اہم ذریعہ ہے اس لییخیر خواہی کو اپنادوست بنا لیں توآپ  اسے ایسا دوست پائیں گے جو دونوں جہان میں سرخروئی کا سبب بنے گا۔


از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر: پیام برکات،علی گڑھ
رابطہ نمبر:7860561136

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter