صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے چند رہنما خطوط (چوتھی قسط)
کس سے پردہ ہے کس سے نہیں ہے؟ اس کی صراحت اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن پاک کی اس آیتِ مبارکہ میں کی ہے ؛ جس میں اصول و فروع سب داخل ہیں۔
"وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ " (النور ۳۱)
اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (کنز الایمان)
اس آیت مبارکہ میں ان افراد کو بیان کیا گیا ہے جنھیں عورت کے اس حصہ بدن کو دیکھنا جاٸز ہے جو شرم گاہ میں داخل نہیں ہیں یا جن کے سامنے عورت اس حصہ بدن کو کھلا رکھ سکتی ہے جنھیں کھولے بغیر وہ اپنا گھریلو کام انجام نہیں دے سکتی۔ مثلا آٹا گوندھنے کے لیے آستین کا اوپر چڑھا لینا مکان کا فرش دھلنے کے لیے شلوار کے پائنچوں کو کچھ اوپر کرلینا۔
(1)شوہر : اس فہرست میں سب سے اوپر شوہر ہے عورت کے لیے شوہر سے کوٸی پردہ اور حجاب نہیں ہے۔
(2) باپ: اس میں اصول بھی داخل ہیں مثلا دادا,پردادا, نانااور پرنانا اس لیے کہ یہ سب باپ کے زمرے میں ہیں اس میں چچا اور ماموں بھی ہیں۔
(3) شوہر کا باپ: یعنی عورت کا خسر، شوہر کے دادا، پردادا، نانا اور پرنانا بھی اس میں داخل ہیں۔
(4) بیٹے: اس میں فروع بھی داخل ہیں مثلا پوتے، پرپوتے اسی طرح بیٹی کی اولاد اور اس کے فروع مثلا نواسے، پرنواسے۔
(5) بھاٸی: عورت اپنے بھاٸی کے سامنے اس حصہ بدن کو کھلا رکھ سکتی ہے جو شرم گاہ میں داخل نہیں ہے ؛ خواہ دونوں ایک ہی ماں باپ سے ہوں یا دونوں کی ماں الگ الگ اور باپ ایک ہو یا باپ الگ الگ اور ماں ایک ہو یعنی دونوں حقیقی بھائی بہن ہوں یا سوتیلے ہوں یا ان میں رضاعت ہو۔
(6) بھتیجے: عورت اپنے بھتیجے کے سامنے آسکتی ہے خواہ دونوں سگے ہوں یا سوتیلے یا رضاعی (دودھ شریک) ہوں۔
(7) بھانجے: عورت بھانجے کے سامنے بھی آسکتی ہے خواہ حقیقی بھانجا ہو یا سوتیلا یا دودھ شریک ہو اسی طرح اس کی اولاد کے سامنے بھی آ سکتی ہے۔
(8) اپنی ہم مذہب خواتین: اس کا مطلب یہ ہےکہ کافرہ عورت اسلام میں اجنبی مرد کے حکم میں ہے، لھذا مومنہ عورت کو جیسے اجنبی مرد سے پردہ کرنا واجب ہے ویسے ہی اسے کافرہ عورت سے بھی پردہ کرنا واجب ہے۔ بلکہ فقہا نے یہاں تک فرمایا ہے کہ فاحشہ اور بدکار عورت اگر چہ وہ مسلمان ہو پارسا مسلم عورتوں کے پاس نہ آنے پاے اس لیے کہ اس کی آمد و رفت سے فتنے کا اندیشہ ہے ظاہر ہے سنگت اثر کرتی ہے۔
(9) کنیز اور نوکر: نوکر سے وہ لوگ مراد ہیں جو دو وقت کی روٹی کے لیے گھروں میں کام کرتے ہیں ان کے سامنے بھی عورت آسکتی ہے ؛ لیکن شرط یہ ہے کہ اب ان میں اعصابی قوت جواب دے گٸی ہو اور وہ بوڑهے ہو چلے ہوں جنسی میلان اور عورت کی طرف ان کی رغبت ختم ہو چکی ہو اور وہ کسی قابل نہ رہ گئے ہوں اسی کے ساتھ وہ صالح اور نیک طبیعت کے ہوں، لھذا اس میں وہ جوان لڑکے داخل نہیں ہوں گے جو نوکری کے نام پر دھڑلے سے گھروں میں آتے جاتے ہیں اور بدکاری کا باعث بنتے ہیں۔
(10) بچے: اس سے کمسن اور نادان بچے مراد ہیں جو جنسیات اور عورتوں کے خفیہ معاملات سے واقف نہیں ہوتے اور شہوانیت سے نابلد ہوتے ہیں۔
عورت اور ستر عورت کی مقدار اور احکام
عورت : وہ حصہ بدن ہے جس کا چھپانا مرد و عورت کے لیے ضروری ہے۔ مرأة: کو عورت اسی لیے کہتے ہیں کہ اسے بھی چھپ چھپا کر پردے میں رہنا لازم ہے۔
مرد کی شرم گاہ کی حد اور اس کا حکم:
احناف کے نزدیک مرد کا وہ حصہ بدن جو اس کی ناف کے نیچے اور گھٹنوں کے اوپر ہے وہ شرم گاہ میں داخل ہے۔ احناف کے نزدیک ناف شرم گاہ میں داخل نہیں ہے اور گھٹنا داخل ہے اور شوافع کے نزدیک اس کے برعکس ہے یعنی ان کے نزدیک گھٹنا شرم گاہ میں داخل نہیں ہے اور ناف اس میں داخل ہے احناف نے گھٹنوں کے شرم گاہ میں داخل ہونے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے حجت قاٸم کی ہے "الرکبة من العورة" حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ کے نزدیک مرد کے پاٸخانہ اور پیشاب کا مقام عورت ہے باقی اس کا کوٸی حصہ بدن عورت نہیں ہے۔[رد المحتار مع الدر المختار ج:1، 297 /ھدایہ اولین ج: 1، ص: 76]
آزاد عورت کی شرم گاہ کی حد اور اس کاحکم:
آزاد عورت اور خنثی مشکل کا جمیع بدن شرم گاہ میں داخل ہے صرف اس کا چہرہ، دونوں ہتھیلیاں اور اس کے پیر کے دونوں تلوے شرم گاہ میں داخل نہیں ہیں یعنی اس کا سارا بدن عورت ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے لٹکے ہوئے بال اور دونوں ہاتھوں کی کلاٸیاں بھی شرم گاہ میں داخل ہیں آزاد عورت کو ان کا بھی چھپانا ضروری ہے۔ در مختار میں ہے
"(وللحرة) و لو خنثی (جمیع بدنھا) حتی شعرھا النازل فی الاصح (خلا الوجہ و الکفین) و القدمین علی المعقد"[الدر المختار مع رد المحتار ،ج: 1،ص: 298]
احکام
(1) غیر محرم اور غیر محرمہ مرد و عورت میں سے ہر ایک کو دوسرے کے اس حصۂ بدن کو دیکھنا جو عورت میں داخل ہیں ؛ بالاجماع حرام ہے۔
(2) محرم اور محرمہ مرد و عورت میں سے ایک کو دوسرے کے دیکھنے کے بارے میں درج ذیل دو قول ہیں:
(1) ناف کے اوپر اور گھٹنوں کے نیچے دیکھنا مباح ہے۔ یہی قول صحیح ہے اس لیے کہ محرمہ کا یہ حصہ بدن محرم مرد کے لیے عورت نہیں ہے لھذا محرم کو اس کا دیکھنا جاٸز ہے۔رد المحتار میں ہے۔
"ولا شبھة انہ یجوز النظر الی صدر محرمة و ثدیھا فلا یکون عورة منھا" [الدر المختار مع رد المحتار ،ج: 1،ص:298]خدمت اور کام کے وقت جو حصہ بدن نظر آتا ہے صرف اس کا دیکھنا جاٸز ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔