کیا ہے غزوہ ہند کی حقیقت؟
کتاب : کیا ہے غزوہ ہند کی حقیقت؟ (علماء و اسکالرس کے تحقیقی مضامین کا مجموعہ)
مرتب : ڈاکٹر حفیظ الرحمن (کنوینر، خسرو فاؤنڈیشن)
جانرا : مذہبی لٹریچر
پیشکش : خسرو فاؤنڈیشن، نئی دہلی
طباعت : عبارت پبلیکیشنر، نئی دہلی
جب میں سولہ سترہ سال کا تھا، پہلی بار میرے کانوں نے "غزوہ ہند" کا ذکر سنا۔ بعد میں مختلف مواقع پر اس کے بارے میں پڑھا اور سنا، جس سے میرے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لینے لگے ۔ چونکہ مجھے تاریخ سے گہرا شغف ہے، میں نے محمد بن قاسم کے متعلق دو ناولز اور کافی تاریخی مواد اردو، عربی اور انگریزی میں پڑھ رکھا تھا۔ اس وقت میرا ماننا تھا کہ احادیث میں جس غزوہ ہند کا ذکر ہوا ہے، وہ سچ ہے اور اس سے مراد محمد بن قاسم کا غزوہ ہند ہے۔ جو کچھ میں یہاں لکھ رہا ہوں، وہ میرے محدود علم اور مطالعے پر مبنی ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے والے سخت گیر علماء یا شدت پسند تنظیمیں ہوتی ہیں، خاص طور پر پاکستان سے ایسے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ تاہم وہ یہ نہیں سمجھتے کہ حدیث میں آیا ہوا لفظ "ہند" اُس دور میں برصغیر کے ایک وسیع علاقے کو محیط تھا، جس میں برما، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، نیپال اور افغانستان کے بعض حصے شامل تھے۔
خسرو فاؤنڈیشن، دہلی کی جانب سے پیش کی گئی کتاب ’’کیا ہے غزوہء ہند کی حقیقت؟‘‘ میں کتب احادیث میں موجود غزوہء ہند کے تصور کی تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف مذہبی متون کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے بلکہ عوام میں پھیلی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ اس میں غزوہء ہند سے متعلق پانچ احادیث کی تحقیق کی گئی ہےاور ان کی صداقت اور تشریح پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ان روایات کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے قارئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ غزوہء ہند کا تصور محض ایک خیالی تصور ہے اور اس کا اسلامی تعلیمات میں کوئی حقیقی مقام نہیں ہے۔اس تصور کو شدت پسند تنظیموں اور شرپسند عناصر نے اپنے مفادات کے لیے فروغ دیا ہے۔ مزید برآں، کتاب میں غزوہء ہند کی روایات کا جائزہ موجودہ سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مختلف پس منظر، شعبہ ہائے زندگی اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اسکالرز اور دانشوروں کے آٹھ مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں غزوہء ہند کے موضوع کو مختلف زاویوں سے جانچا گیا ہے۔ تمام محررين نے غزوہء ہند کے تصور کو انتہاپسندانہ نظریات سے منسلک کرنے کی کوششوں پر تنقید کی ہے اور وضاحت کی ہے کہ کچھ گروہ اس تصور کا کس طرح غلط استعمال کرتے ہیں۔
پہلے مضمون میں ڈاکٹر محمد فاروق خان (تلخیص: مولانا ذکوان ندوی) نے احادیث کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے غزوہء ہند کی روایات کو کمزور اور ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ انہوں نے ان روایات کا لغوی، تاریخی، جغرافیائی اور دینی اعتبار سے جائزہ لیتے ہوئے انہیں خلاف نص اور خلاف حقیقت ثابت کیا ہے۔
دوسرے مضمون میں اعتدال پسند مفکر انجینئر اے فیض الرحمن نے وضاحت کی ہے کہ غزوہء ہند کے نام پر ہندوستانی اور پاکستانی قوم پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا، حالانکہ زیادہ تر مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے ملک سے وفاداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق صرف دفاعی جنگ ہی جائز ہے، جبکہ جبر اور اکراہ کا راستہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ مزید یہ بھی بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے جتنی بھی جنگیں لڑیں، وہ دفاعی نوعیت کی تھیں، اس لیے کسی قوم کے خلاف جنگ کی کوئی گنجائش نہیں۔
تیسرے مضمون میں ڈاکٹر وارث مظہری نے غزوہء ہند کو نام نہاد جہادی گروہوں کا خود ساختہ نظریہ قرار دیتے ہوئے اسے معصوم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا ایک حربہ بتایا ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزوہء ہند کی احادیث کمزور ہیں۔ ان کے مطابق، اگر یہ احادیث مستند ہوتیں تو اسلام کے ابتدائی دور میں محمد بن قاسم کی فتوحات کے ساتھ ہی غزوہء ہند کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان احادیث کا تعلق کسی ایک مخصوص واقعہ یا غزوہ سے ہو سکتا ہے، نہ کہ مسلسل كى جانے والی جنگوں سے۔ مزید لکھتے ہیں کہ اگر یہ احادیث واقعی قابلِ اعتماد ہوتیں تو برصغیر پر چھ سو سال حکومت کرنے والے مسلم حکمران، جیسے امیر تیمور، نادر شاہ، شہنشاہ سوری، اور مغل بادشاہ، ان جنگوں کو جائز قرار دینے کے لیے ان احادیث کا حوالہ دیتے، لیکن تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔
چوتھے مضمون میں مفتی محمد اطہر شمسی نے غزوہء ہند کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام میں جنگ ہمیشہ دفاعی مقاصد کے تحت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں جہاں بھی جہاد کا ذکر ہوا ہے، وہاں اس کا مطلب دفاعی جنگ لیا گیا ہے۔ قرآن میں کسی ایسی جنگ کا تصور نہیں ملتا جسے اقدامی یا قوم پرستانہ جنگ کہا جا سکے۔ اسی بنیاد پر وہ سوال کرتے ہیں کہ جب زمانۂ رسول میں ہند سے اسلام پر کوئی حملہ یا چڑھائی نہیں ہوئی، تو ایسی جنگ کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ مزید برآں، وہ کہتے ہیں کہ ایسی من گھڑت اور فرضی روایات کو پیش کرنے والے افراد اسلام کے مجرم ہیں، اور علماء کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو بے نقاب کریں اور مسلمانوں کو ان سے بچنے کی تلقین کریں۔
پانچویں مضمون میں شیعی عالم دین مولانا کلب رشید رضوی نے مسلمانوں کے خلاف میڈیا پر پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی من گھڑت حدیثوں کو رد کریں جو اسلام کے امن، محبت، اور سلامتی کے پیغام کے برخلاف ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام کے نام ہی میں سلامتی کا مفہوم موجود ہے، اور اگر ایسی روایات کو فروغ دیا جائے جو اس کے برعکس ہوں، تو غیر مسلم ہمارے مذہب کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ کیا وہ ہماری مذہبی تعلیمات کو ظلم و بربریت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے؟ مزید یہ کہ مولانا رضوی نے زور دیا کہ میڈیا پلیٹ فارمز پر جانے والے مسلم دانشور، سوشیل میڈیا انفلونسرز، علماء، خطباء، معلمین، اور مصنفین کو لوگوں میں پھیلی اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہیے اور غزوہ ہند کے تصور اور روایات کو مسترد کرنا چاہیے۔
چھٹے مضمون میں اسلامی اسکالر عبد المعید ازہری نے غزوہ ہند کے نظریے کو ایک سیاسی سازش قرار دیا ہے جو ہندوستان اور پاکستان میں امن کو متاثر کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے ۔ انہوں نے پاکستان کے ان افراد پر تنقید کی ہے جو اس حدیث کے مفہوم کو اپنے مفاد کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ مضمون نگار سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی مان لی جائے تو کیا دليل ہے کہ غزوہ کرنے والے گروہ سے مراد پاکستان کے نام نہاد مجاہدین ہوں گے جبکہ پاکستان کا قیام تو صرف پچھتر سال پہلے ہوا ہے، اور زمانہ نبوی میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ حدیث میں مذکور "ہند" سے مراد اس وقت کا برصغیر ہے، جس میں میانمار (برما)، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، نیپال، اور افغانستان کے بعض حصے شامل تھے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس قسم کی روایات کو ذاتی یا قوم پرستانہ مفاد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔مقالہ نگار اپنے مضمون میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”کہ اگر برصغیر کے مسلمانوں کو جہاد یا جنگ کرنا ہی ہے تو پہلے اپنی سیاسی قیادت سے جنگ کریں کہ انہوں نے ہر دور میں ان کا سیاسی فائدہ اٹھایا ہے اور دوسری لڑائی اپنی مذہبی قیادت سے کریں جنہوں نے ان کو مختلف ٹکڑوں اور فرقوں میں بانٹ دیا کہ پوری دنیا میں اتحاد کا پیغام دینے والی قوم دنیا کی سب سے بکھری ہوئی قوم بن گئی ہے“۔آگے لکھتے ہیں کہ”ہمارے صوفیانے جو راستے اختیار کیے تھے،جو طریقے بتائے تھے اور جس طرح سے بقائے باہمی کی شدید کوشش کی تھی ہمیں انہیں روایتوں کو اپنانا ہوگا۔انتشار اور نفرتوں کی روایتوں کو ترک کرنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ظالم صرف ظالم ہے اس کا کوئی مذہب نہیں۔اس کا لباس کچھ بھی ہو سکتا ہے اس کی زبان اور جگہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ زبان ،مکان یا لباس سے ظلم طے کرنا اس وقت کا سب سے بڑا ظلم ہے“۔
آخر میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ برصغیر ہندو پاک کے علاوہ دنیا کی کسی بھی مشہور اسلامی یا عصری جامعات میں غزوہ ہند کی حدیث کی حمایت کسی عالم دین نے نہیں کی اور نہ ہی اس کا چرچہ کیا ہے۔
ساتویں مضمون میں ماہر فنِ تعمیرات اسلامی، ڈاکٹر روچیکا اروڑا صاحبہ نے غزوہ ہند کو ایک جھوٹا افسانہ قرار دیا ہے، جسے انتہا پسند تنظیمیں تشدد کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔ وہ لکھتی ہیں کہ "غزوہ ہند" ایک ایسی اصطلاح ہے جسے بعض مسلمان انتہا پسندوں نے ہندوستان پر حملہ کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی ترغیب دی ۔ مرکزی اسلامی تعلیمات یا تاریخ میں اس اصطلاح کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے، ،حالانکہ اس کا تصور سینکڑوں سالوں سے موجود ہیں۔
ڈاکٹر روچیکا کے مطابق، پاکستان میں معاشی مشکلات کے پیش نظر اس حدیث کا استعمال زیادہ کیا جا رہا ہے اور وہاں کے لوگ ہی اس نظریے کی تشہیر کر رہے ہیں ۔ آخر میں لکھتی ہیں کہ”ایک دور تھا جب غزوہ ہند کو تصور کو بہت اہمیت دی جاتی تھی مگر ابھی اس کا تصور آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔ سن 1990ء کے عشرہ میں جس شدت کے ساتھ یہ ہندوستان میں رائج تھا اب اس میں خاطر خواہ انحطاط آیا ہے“۔
آٹھویں مضمون میں کتاب کے مرتب اورمعروف اسلامی اسکالر جناب ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے اپنے مضمون میں ان روایات اور اس سے متعلق مفروضے کو علمی و دینی دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، جو برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت اور جنگ وجدل کو ہوا دیتی ہے۔انہوں نے وضاحت کی ہے کہ روایتی علماء فضائل کی احادیث کو بغیر غور و فکر کے پھیلانے میں ملوث رہے ہیں، جو سیاسی اسلام کے نظریے کو تقویت دیتے ہیں اور مسلمانوں کو جہاد کے غیر حقیقی تصورات میں مبتلا کرتے ہیں ۔آپ کے مطابق غزوہ ہند کا نظریہ نہ تو اسلامی ہے نہ ہی انسانیت پسند بلکہ یہ پاکستان اور کشمیر کی بعض انتہا پسند تنظیموں اور شخصیات کا پھیلایا ہوا ایک مہلک زہر ہے ۔ مضمون نگار نے کہا ہے کہ اگر غزوہ ہند کی احادیث، جو سنن نسائی میں ملتی ہیں، کو صحیح مانا جائے تو بھی ان کا مطلب کوئی جنگ یا جہاد نہیں بلکہ برصغیر میں پہلی صدی ہجری کے دوران مسلمانوں کی پرامن آمد ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزوہ ہند سے متعلق روایات یا تو اموی دور کی اختراع ہیں یا پھر دہشت پسند تنظیموں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے انہیں غلط طور پر پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے نزدیک وہ غزوہ ہند کی حدیث کے قائل نہیں۔ کیونکہ شیعہ مکتب فکر کی کتابوں میں ان کا ذکر نہیں ملتا، اور فقہ جعفریہ سے متعلق کتب میں بھی ان کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اہل حدیث علماء ان احادیث کو ضعیف اور غیر مستند سمجھتے ہیں۔ علمائے عرب و عجم، اور علمائے مصر و ہند بھی غزوہ ہند والی حدیث کی تصدیق نہیں کرتے۔ برصغیر میں معاصر سنی اور شیعہ دونوں ہی علماء اس حدیث کو مسترد کرتے ہیں۔ حدیث کے ذخیرے میں غزوہ ہند کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو آج کل اسے دی جا رہی ہے، کیونکہ مستند کتب احادیث جیسے بخاری اور مسلم میں اس کا ذکر نہیں ہے، اور موجود روایات مختلف مکاتب فکر میں متنازع سمجھی جاتی ہیں۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، اور شیعہ مکاتب فکر کے علماء نے اس حدیث کی تحریف کو چیلنج کیا ہے۔ نتیجتاً، غزوہ ہند کو مخصوص نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، جو پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے زیادہ جڑا ہوا ہے، بجائے اس کے کہ یہ کوئی حقیقی اسلامی تعلیمات پر مبنی تحریک ہو۔
غزوہ ہند کا تصور اور پاکستان
کتاب کے مطابق، ملک کی تقسیم کے بعد غزوہ ہند جیسی روایات کوخوب فروغ ملا پاکستانی انتہا پسند تنظیموں نے اس تصور کو صرف اپنے سیاسی عزائم کے لیے بڑھاوا دیا ہے۔ کشمیر میں جہاد کے نام پر نوجوانوں کو اسی بے بنیادتصورکے تحت پر اکسایا جاتاہے۔ غزوہ ہند کی وکالت کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے ایسا کرنے سے سب سے زیادہ نقصان خود مسلمانوں کو ہی ہوا ہے۔
عالمی دہشت گرد تنظیموں جیسے القاعدہ، آئی ایس آئی ایس (دولت اسلامیہ عراق و شام) وغیرہ اور پاکستانی جہادی تنظیموں، جیسے حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، جیش محمد، حرکۃ المجاہدین، حرکت الجہاد الاسلامی، حرکۃ الانصار، اور افغان طالبان نيز ڈاکٹر اسراراحمد، حافظ سعید، سید صلاح الدین اور مسعود اظہر جیسے جہادی رہنماؤں نے اس حدیث کو ایک اہم مذہبی فریضہ کے طور پر پیش کیا، جس سے نوجوانوں کے ذہنوں میں بھارت کے خلاف جنگ کو ایمان کا حصہ بنا دیا گیا۔ خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے اس تصور کو "آخرت کی زندگی" کے ليے ایک مارکیٹنگ آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جو ان کی موجودہ زندگیوں کو تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا۔
ان کی تقاریر اور مواد نے پاکستان میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ اس کے برعکس، جاوید احمد غامدی، ذاکٹر محمد طاهر القادرى اور ہندوستانی مفکر مولانا وحید الدین خان نے اس تصور کی سخت مخالفت کی اور وضاحت کی کہ غزوہ ہند کا یہ من گھڑت تصور اسلامی اقدار اور اخلاقیات کے منافی ہے۔
اس تصورکو اسلامی نقطہ نظر سے صحیح مانتے ہوئے جو معتدل تعبیر کی گئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ غزوہ ہند کا تصور ایک حد تک روحانی و ایمانی جہاد کی علامت ہے اور اس کا سیاسی اور عسکری طور پر غلط استعمال سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
۲۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ غزوہ سے ہمیشہ خون خرابے والی جنگ ہی مراد ہو یہ ضروری نہیں ۔ مثال کے طور پر غزوہ خندق اور غزوہ تبوک ، دونوں ہی غزوات میں اسلامی لشکر کو بغیر کسی جنگ کے فتح حاصل ہوئی تھی۔لہذا غزوہ کا عربی زبان میں کئی لغوی معنی ہو تا ہے جس میں نیک تعلیمات اور تعمیری اصولوں کی نشر و اشاعت بھی شامل ہیں تو اس نکتہ نظر سے ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد پہلی صدی ہجری میں مسلم تاجروں کی ہندوستان میں وہ پر امن آمدہے جو گجرات، سندھ یا کیرالاوغیرہ کے علاقوں میں حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں ہوئی۔ انہوں نے اپنے اخلاق اور کردار سے یہاں کے باشندوں کو متاثر کیا اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔اب یہ غزوہ ہوچکی ۔
۳۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق وارد احادیث میں چندنشانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جوکہ قرب قیامت کی نشانیوں میں شامل ہے۔ اور وہ نشانیاں ابھی پائی نہیں جاتی اس صورت میں غزوہ ہند کا واقعہ قیامت کے قریب واقع ہوگا۔
اس تصور سے متعلق روایات کو اسلامی نقطہ نظر سے صحیح نہ مانتے ہوئے جو دلائل پیش کی گئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ ان احادیث میں موجود راوی یا تو مجہول الحال ہے یا تو غیر ثقہ ہے یا تو ناقابل اعتماد شخص ہے یا تو یہ محدثین کے نزدیک بدنام ہے ۔
۲۔ یہ حدیثیں ضعیف ہیں، منقطع ہیں،موضوع ہیں یاانتہائی کمزورہیں او ر ان سے دلیل پیش کرنا غلط ہے۔
۳۔ یہ روایتیں نص قرآنی و دیگر احادیث صحیحہ او ر تاریخی حقائق کے خلاف ہیں۔
۴۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیاہے کہ غزوہ کا معنی ہوتا ہے ایسی جنگ جس میں نبی اکرم ﷺ نے بنفس نفیس عملی طور پرقیادت فرمائی ہو اور اس میں مسلمانوں کوفتح حاصل ہوئی ہو۔توگویا ایسی کوئی جنگ کا حکم نبی ﷺ کیوں ہی دیں گے جن میں وہ خود شامل نہ ہوں۔اس سے غزوہ ہند کے اس تصور کی نفی ہوتی ہے۔
۵۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیاہے کہ جنگ یا جہاد شریعت کے نفاذ کے لیے ہونا چاہیے، قوم پرستانہ نظریات کے لیے نہیں، لہٰذا اس نقطہ نظر سے تو ہندوستان سمیت بنگلہ دیش پاکستان میں بھی شریعت اسلامی کے نفاذ کے لیے جنگ لازم آئے گی کہ یہ سب سیکولر ملک ہے اور ہر کوئی مکمل طور پر شریعت کی اتباع بھی نہیں کرتا۔
۶۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیاہے کہ قرآن صرف اپنے دفاع میں مسلح تصادم کی اجازت دیتا ہے قوم پرستی کے نام پریا دعوتِ دین کے نام پر جبر و اکراہ کرتے ہوئے جنگ یا غزوہ کرنا اسلامی تعلیمات سے نہیں۔
۷۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیاہے کہ غزوہ کا ایک معنیٰ ''لوٹ مار کی مہم، فتح کی مہم'' بھی ہوتا ہے، تو اگر نبی کریم ﷺ بنفس نفیس مذکورہ غزوہ میں شامل نہیں ہوسکتے تو کیونکر وہ ایسی ایک لوٹ مار کا حکم سنائیں گے۔
۸۔ ایک نظریہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ احادیث رسول ﷺ میں واردہے کہ آپ ﷺ نے ہندوستان کی تعریف کی ہے اور یہاں سے ٹھنڈی ہوائیں آنے کا ذکر کیا ہے۔ تو وہ کیونکر ہندوستان پر چڑھائی کا حکم دے سکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کہیں پر بھی ایسی جارحانہ جنگ یا درپردہ جنگ یا خودکش بمباری جیسے اقدامات کو غیر انسانی ٹھہراتی ہے۔
۹۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ زمانہء رسول ﷺ میں جب ہندوستانیوں نے مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی اور نہ ہی مسلمانوں نے ہندوستان پر کوئی جنگی حملہ کیا تو دفاع کے نام پر کیونکر غزوہ ہند کا تصور صحیح ہوسکتا ہے۔
۱۰۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبانی، یہ کہا گیا ہے کہ وہ غزوہ ہند کے لیے جانے والے لشکر اور اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کے آرزو مند تھے۔یہ آرزوہر اعتبار سے ناممکن تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول تو قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
۱۱۔ ایک نظریہ یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو علم غیب نہیں ہے تو وہ کیسے غزوہء ہند کی خبر دے سکتے ہیں۔حالانکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ صحیح احادیث میں آپ ﷺ نے مستقبل میں ہونے والے کئی واقعات اور ایسی ہی کئی ساری باتوں کا ذکر کیا ہے، جو یا تو ہوچکی ہے، یا ہورہی ہے یا ہونے والی ہے۔
۱۲۔ ایک نظریہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس پیشین گوئی کو خلفائے راشدین یا اہل بیت نے کبھی بھی اپنے تعلیمات کا کوئی جز نہیں بنایا۔خلفائے راشدین، صحابہ کرام،ابتدائی دور کے علماء و صوفیاء سے غزوہ ہند کے تعلق سے کوئی قابل اعتماد توثیق نہیں ملتی۔ ہندوستان میں علم حدیث کو متعارف کرانے والی عظیم شخصیت شیخ عبد الحق محدث دہلوی یا ان کے پیروکار علماء کی تصنیفات میں بھی غزوہ ہند کی حدیث کا کوئی ذ کر نہیں ملتا۔
الغرض! کتاب ہذا میں قرآنی آیات، احادیث، اور اسلامی تاریخ کے مستند حوالہ جات شامل کیے گئے ہیں، جو اس کی تحقیق کی سنجیدگی کو نمایاں کرتے ہیں۔ خسرو فاؤنڈیشن کی یہ پیشکش علمی اور فکری اعتبار سے قابل قدر ہے۔ یہ کتاب خاص طور پر ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو غزوہ ء ہند کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حقیقی معنوں کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ کتاب کا مقصد مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا اور پروپیگنڈے کے ذریعے پھیلائی جانے والی نفرت کا سدباب کرنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ’کیا ہے غزوہء ہند کی حقیقت؟‘ نامی یہ کتاب اگرچہ مختصر ہے، لیکن ایک جامع کتاب ہےجو غزوہ ہند کے اس تصور کو اسلامی نقطہ نظر سے نکھارنے میں معاون ثابت ہوگی۔ تاہم، ایک علمی کتاب ہونے کی وجہ سے اس کے مشمولات کو پہلی قرائت میں سمجھنے پر ایک ابتدائی قاری کو مشکل پیش آسکتی ہے۔