تحسین میاں واقعی تحسین میاں ہیں:حضرت صدرالعلما علامہ تحسین رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول

میرے استاذ، میرے مر شد ، میرے آقا ، میرے ہادی حضرت صدرالعلما تحسین رضا خاں بریلوی عشق رسول کی دولتوں سے خوب مالا مال تھے ۔۱۹۹۴ ء میں [راقم الحروف ] جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف میں زیر تعلیم تھا اور حضرت صدرالعلما جامعہ کے شیخ الحدیث کے منصب پر فا ئز تھے ۔اس وجہ سے فقیر کو حضرت سے درس حدیث کا شرف حاصل رہا ،طالب علمی کا زمانہ بھی بڑا پرکیف ہوتا ہے ۔شخصیت شنا سی کی صلاحیت سے آشنائی نہیں ہوتی ۔
 یقین جا نئیے !علم و عمل ، تقویٰ و طہارت ، ذکاوت وفراست ، تبلیغ و دعوت اور اتباع رسول میں حضرت صدرالعلما اپنے سابقہ محدثین کی یاد گار تھے ۔حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی لکھتے ہیں :’’ آپ معمولات کے بے انتہا پابند تھے ،سنتوں کا اہتمام اور عشق رسول کا جذبۂ شوق آپ کو وراثت میں ملا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند کے زیر سایہ آپ نے فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دیا ، مگر افسوس وہ علمی اور فقہی ذخیرہ محفوظ نہ رہ سکا ۔ شہرت پسندی اور جاہ طلبی سے آپ زندگی بھر کنارہ کش رہے ،ملکی سیاست سے بھی عملا آپ کا کبھی کوئی تعلق نہ رہا ۔ کم گو اور تخلیہ پسند تھے ،نماز با جما عت کے سخت پابند تھے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں شریعت مصطفیٰ کی عملی تصویر تھے ۔‘‘   
  [ تجلیات رضا بریلی کا ، صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ، ص۲۵۹ ]
 مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظا می رضوی مہتمم کتب خا نہ جامعہ نظامیہ حیدرآبادی لکھتے ہیں :
 جن کی تمام تر زندگی عشق شۂ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے علم و عمل اور شر یعت وطر یقت کے فروغ میں گزری اور متاع حیات کی آخری سانسیں بھی اسی میدان کی لالا زاری کی شاہد عدل بن گئیں اسم تحسین ، جسم تحسین ، قال تحسین ،حال تحسین ،فکر تحسین ، اقدار تحسین ، اذکار تحسین ، اعمال تحسین ، افعال تحسین ، اقوال تحسین ، تزکیہ تحسین ، تصفیہ تحسین ، تحقیق تحسین ، تدقیق تحسین ، تفسیر تحسین ، تحدیث تحسین ، اخلا ق تحسین ، اشفا ق تحسین ،حضر تحسین ، سفر تحسین ، حیات تحسین ، ممات تحسین الغرض! امام عشق و محبت کی نسبت نے ہر زاویۂ حیات کو لباس حسن میں ملبوس کر کے جگمگ جگمگ روشن روشن بنادیا تھا ، بریلی سے طلوع ہونے والے اس سورج کا غروب ناگپور میں ہوا لیکن ڈوبتے ڈوبتے بھی یہ سورج اپنے پیچھے ہزارہا ستاروں کی انجمن کو منور و تاباں کر گیا جو کرۂ ارضی پر مختلف اسالیب و اشکال میں ضیاپاشی کررہے ہیں ۔ 
   (سالنامہ تجلیات رضا ، شما رہ ۶، صدرالعلما محد ث بر یلوی نمبر ،ص، ۴ ۳۲؍۳۲۵،امام احمد رضا اکیڈمی بریلی )
 حضرت صدرالعلما علیہ الرحمہ کی اتباع سنت اور اسوۂ رسول پر عمل کا آنکھو دیکھا حال مولانا غلام شرف الدین رضوی مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ نائے گاؤں ناندیڑ مہاراشٹرا لکھتے ہیں :
 حضور صدرالعلما سے ملا قات کی چہرۂ پر انور کی زیارت سے ہم لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اتنے میں میزبان نے دستر خوان بچھا دیا صدرالعلما دستر خوان پر تشریف لائے اور چار زانو بیٹھ گئے راقم الحروف حضور والا کے بغل میں بیٹھا تھا دستر خوان پر موجودہ حضرات صدر العلما کے چہرۂ پر انوار سے شرفیاب ہورہے تھے سب کی نگاہیں نبیرۂ اعلیٰ حضرت ہم شبیہ مفتی اعظم حضور صدرالعلما پر جمی ہوئی تھی جب میزبان نے روٹی اور سالن دستر خوان پر لا کر رکھا تو اس وقت بھی صدر العلما چار زانو ہی بیٹھے رہے میں اپنے تئیں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ حضور کمزور ہیں ، ضعیف ہیں لگتا ہے کھا نا چار زانو ہی بیٹھ کر تناول فرمائیں گے ، لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب صدرالعلما علیہ الرحمہ کے ہا تھ میں روٹی پہنچی تو آپ نے فوراً داہنے پیر کو کھڑا کر دیا اور اس طر یقے پر بیٹھ گئے جس طرح اللہ کے حبیب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر کھانا تناول فرما تے تھے ، اتبا ع سنت مصطفیٰ کا یہ حال دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس پیرانہ سالی اور کمزوری کے عالم میں بھی گوارا نہیں کہ سنت مصطفیٰ چھوٹ جائے ۔ اب ہر باشعور انسان یہ اندزاہ لگا سکتا ہے کہ جن کی اتباع سنت کا یہ حال ہے تو فرائض و واجبات پر پابندی کا کیا عالم ہوگا ۔    
                (ایضاً، ص ۳۲۹؍۳۳۰)      
        حضرت صدرالعلما کے عشق رسول کے حوالے سے حضرت مو لا نا شکور احمد رضوی لکھتے ہیں : افعال واقوال بلکہ جمیع احوال میں مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا مظہر تھے ۔ ساری زندگی پا بندی شریعت اور اتباع رسول میں گزری ۔ سادگی ان کا شعار سنجیدگی اور متانت ان کا شیوہ تھا ۔حسن اخلاق ان کا زیور ۔اور حلم و بردباری ان کا طرۂ امتیاز ۔آپ کی تمام تر ادائیں سنت رسول ﷺ کی آئینہ دار تھی ۔ نماز باجماعت کی پا بندی آپ کی طبیعت میں داخل تھی ۔سوائے کسی شرعی عذر کبھی جما عت تر ک نہ فر ما تے ۔جب با ہر تشریف لے جاتے تو وہاں جلسے کی قیادت و سرپرستی فرماتے ۔مگر نماز فجر با جماعت چھو ٹتی نہ دیکھی گئی ۔جہاں قیام فرماتے مسجد جا کر باجماعت نماز ادا فرماتے ۔آپ کی یہ استقامت اور شریعت کی اطاعت ہزاروں کرامتوں پر بھاری ہے در اصل اتباع رسول ہی ایک بندۂ مومن کی معراج اور قرب خدا کا ذریعہ ہے ۔


بمصطفیٰ بر ساں خو یش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبی ست 
  [تجلیات رضا ،بریلی کا ’ صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ‘‘ص ۲۳۷]


 مولانا محمد مظاہر الاسلام رضوی مدرس دارالعلوم حنفیہ سنیہ اسلام پورہ مالیگاؤں لکھتے ہیں :
        آپ کبھی ایسا کام نہیں کر تے تھے جو شریعت و طریقت کے خلا ف ہوتے ، رہبرشریعت پیر طریقت حضور صدرالعلما محدث بریلوی علیہ الرحمہ کو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی ، جن کی پوری زندگی اتباع رسول میں گزری ، حضور صدرالعلما ہر وقت ہر لمحہ قرآن و حد یث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا تھے ، چو نکہ سچے عاشق رسول وہی ہوتے ہیں جن کی توجہات اپنے آقا و مولیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے مبذول ہو ۔
                  (ایضاً ،ص ۳۳۵؍۳۳۶)
        ڈاکٹر محمد صدر عالم صدیقی دربھنگا بہار لکھتے ہیں :
         مختصر یہ کہ آپ نے اپنی زندگی کی ساری توانائی حق اور عدل کے قیام ، بھٹکے ہوئے لوگوں کوصراط مستقیم پر گامزن کرنے اور انسانیت سازی کے لئے صرف کردی آپ کا ماننا تھا کہ 


دشمنوں کو بھی بڑھ کر لگاؤ گلے 
مصطفیٰ کی طرح سب کی خدمت کرو 


 آپ ایک سچے عاشق رسول تھے سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور ایسا کیوں نہ ہو بلکہ یہ حقیقت ہے کہ محبت رسول ہی جان ایمان ہے اور ان کی اتباع کے بغیر کوئی بھی اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔ بقول شاعر 


اپنی دولت عشق محمد دنیا کو دکھلانا کیا 
سارے جہاں کے راز ہیں دل میں ناداں کو بتلانا کیا 
پیا رے نبی کی موہنی صورت پر مرمٹنا جیون ہے 
عشق محمد بن دنیا میں جینا اور مر جانا کیا
              (ایضاً ، ص ۴۵ ۳)


ترسیل: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری پپرادادنوی
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
وطن مالوف: پپرادادن ، سیتامڑھی ، بہار
21/ جمادی الاول 1444ھ
16/ دسمبر 2022 ء)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter