حضور حافظ ملت: بے مثال مبلغ اسلام
جلالتہ العلم استاذ العلماء حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدثِ مرادآبادی علیہ الرحمہ نے ایک ایسے دور میں آنکھیں کھولیں جب دنیا کا سب سے عظیم مذہب، واحد دین الٰہی، دین فطرت، مذہب اسلام سب سے مظلوم مذہب بنا دیا گیا تھا اور دنیا کی سب سے عظیم قوم، قوم مسلم جس نے حق و صداقت کا پرچم بلند کیا، زمانے کو علم وہنر سکھائے، جہانگیری و جہانبانی کے آداب بتائے، اپنی عظمت کردار، اخلاق عالیہ اور مومنانہ فراست و بصیرت سے اس دنیا کو امن وآشتی کا گہوارہ بنایا، شرافت و انسانیت اور تہذیب کی روشنی پھیلائی، وہی قوم مسلم مسلسل شکستوں اور پیم ہزیمتوں سے عاجز آکر حالات کے رحم و کرم پر ٹک کر رہ گئی تھی۔ مسلمانوں کے سیاسی زوال نے نہ صرف یہ کہ اس قوم سے قوت عمل چھین لی بلکہ مذہب اسلام نے جو اسے عزم و حوصلہ اور احساس برتری دی تھی وہ پست ہمتی اور احساس کمتری میں تبدیل ہوچکی تھی۔ انہیں حالات میں برصغیر ہند و پاک میں کچھ مصلحین اٹھے مگر چوں کہ وہ خود فریب خوردہ حالات تھے اس لئے بجائے اسلام کی طرف دعوت دینے کے مغربیت کی طرف دعوت دینے لگے۔ان مصلحین اور ریفارمرس کی تمام تر جد و جہد اور مساعی کا مقصد مسلمانوں کو اسلام سے دور کر کے مغرب کی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کے لئے تیار کرنا تھا۔ مسلمان اپنے دین اور علم و عمل سے دور، دنیا طلبی، عیاشی و فحاشی، خرافات و خرابات، بدعات و منکرات اور بھانت بھانت کی برائیوں، آپسی رسہ کشی، مقدمہ بازی، تجارت سے بے رغبتی، نا اتفاقی وغیرہ کا شکار تھا۔ حضور حافظ علیہ الرحمہ کی مومنانہ بصیرت نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ قوم و ملت کو سب سے زیادہ نقصان تعلیم و تربیت کی راہ سے پہنچایا جارہا ہے۔ اب باطل کے حملوں کا زاویہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب شمشیر بکف مجاہدین سے زیادہ قوم کو ضرورت ہے ایسے بیدار مغز اور پختہ کار علماء، دانشوران اور مصلحین کی جو اسلام کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کر سکیں۔ اس لئے کہ باطل اب زیور فکر و فن سے آراستہ ہوکر نظریات اسلامی کی سرحدوں پر تاخت و تاراج کے لئے بڑھ رہا ہے۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ایک ایسا عظیم اصلاحی منصوبہ بنایا کہ اسلامی نظریات پر حملہ خواہ سوشلزم اور کمیونزم کی جانب سے ہو خواہ الحاد و بے دینی کی سمت سے ہو خواہ مادہ پرستوں کی طرف سے ہو خواہ مغربی تہذیب کی طرف سے ہو، حملہ داخلی ہو یا خارجی ہر محاذ پر باطل سے نبرد آزمائی کر کے نظریات اسلامی کا نہ صرف تحفظ کیا جائے بلکہ غلبہ اسلام کا رنگ عام کیا جائے۔ یہی سبب تھا کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کو پورے عالم اسلام کی ایک مثالی درس گاہ بنانے کے لئے اپنی پوری زندگی وقف فرما دی۔ لیکن!ایسا نہیں کہ صرف الجامعۃ الاشرفیہ ہی کے توسط سے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دیا ہو بلکہ آپ نے تعلیم و تربیت، پند و نصائح، وعظ تقریر، تصنیف و تالیف اور بیعت و ارشاد وغیرہ کے ذریعہ بھی اصلاح معاشرہ کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور زمانہ پر آپ کے مصلحانہ کردار کی عظمت آشکارا ہوگئی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ وہ خیر امت جس کے لئے رب کائنات نے فرمایا: ’’كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَت للناس‘‘ الآيه (آل عمران: ۱۱۰)
تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ (کنز الایمان)
وہ خود خیر سے دور ہوچکی تھی۔ ایک حقیقی نائبِ رسول ﷺ و عالم ربانی نیز ایک قومی و ملی قائد ہونے کی حیثیت سے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے مختلف طریقوں سے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ نے پہلے شریعت و سنت پر عمل پیرا ہو کر خود کو ایک مثالی مصلح و قائد اور مبلغ و معلم و مرشد کے پیکر میں ڈھالا اور پھر اصلاح معاشرہ کے لئے میدان عمل میں اترے۔
امت مسلمہ عام طور سے دین سے دوری اور بے راہ روی میں مبتلا تھی۔ ایسے عالم میں اصلاح معاشرہ کا فریضہ سخت دشوار مسئلہ تھا۔ دراصل فرد واحد کی بیماری کا علاج بڑا آسان ہوتا ہے جبکہ معاشرہ سماج میں سلامت روی، اصلاح حال، اصلاح باطن، فلاح آخرت اور مقاصدِ حیات کی طرف گامزن ہونے کی لگن پائی جاتی ہو، کیوں کہ ماحول خود اس کو صحیح راستے پر چلنے کے لئے مجبور کر دیتا ہے لیکن اگر قوموں اور جماعتوں میں اخلاقی گراوٹ، طبیعت کی گندگی، بغض و عناد، حسد و کینہ پروری، بے حیائی، بے شرمی کذب و افترا، افتراق و اختلاف جیسے صفات ذمیمہ وبائے عام کی شکل اختیار کرلیں تو ان کی اصلاح و تدارک میں بڑی دماغ سوزی و جگر کی ضرورت پڑتی ہے۔ حضور حافظ ملت طبیب روحانی اور معالج خصائل تھے۔ وہ ملت مسلمہ کی اخلاقی پستی، اس کی بیماریوں اور مفسدات سے بخوبی واقف تھے۔ اس لئے آپ کی تحریر و تقریر اور مجلسی گفتگو میں وقت اور حالات و ضرورت کے لحاظ سے تعمیر اخلاقی پر پورا پورا زور ملتا ہے۔ آپ مسلم معاشرہ کو اس کی بیماریوں سے الگ کر کے اس میں صحت بخش عادات و اطوار کا رواج چاہتے تھے۔کذب، کینہ، بغض، حسد، غیبت، چغلی، بدظنی، عیب جوئی اور ان جیسی سینکڑوں مہلک عادتیں ہیں جو مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں ان عیوب کے ہوتے ہوئے کوئی شخص نہ عبادتوں کی چاشنی حاصل کر پاتا ہے اور نہ اسے ایمانی حلاوتوں سے آشنائی ہو پاتی ہے بلکہ اس کی ساری مثبت توانائیاں ضائع ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ مسلمانوں کے معاشرہ سے ایسی تمام برائیوں کا قلع قمع کرکے ان میں صدق بیانی، محنت، جفاکشی، بهادری، شجاعت و دلیری، حسن ظن، عدل ومساوات، باہمی تعاون اور ہمدردی کے جوہر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جہالت جو تمام عیبوں کی بنیاد ہے اس کا خاتمہ کرکے انوار علم سے مسلمانوں کے دل و دماغ کو منور کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے جب ہم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا اس نہج سے مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے دور اور ماحول میں ایک عظیم مصلح امت نظر آتے ہیں۔
اوصاف ذمیمہ اپنے اندر ایسے جراثیم رکھتے ہیں جو اس کی راست مساعی کے برکات کو ضائع کر دیتے ہیں یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج اطباء اور ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں بلکہ اخلاق حسنہ کی تعلیم کے لئے رب کائنات نے انبیاء و مرسلین علیہم الصلوات و التسلیمات کو مبعوث فرمایا اور انسانی معاشرہ کی اصلاح باطن میں فلاح آخرت کا شعور پیدا کرنے، سلامت روی سکھانے اور صالح مقاصد حیات کے زینے طے کرانے کے لئے رب کریم کی جانب سے معصوم جماعت انبیاء و مرسلین کا سلسلہ ابتدائے انسانیت سے دور اخیر تک قائم کر رہا حتیٰ کہ حضور اقدس ﷺ اس اہم فریضہ کے مہتم بن کر مبعوث ہوئے اور اب رہتی دنیا تک حضور اقدس ﷺ کے سچے نائبین اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرتے رہیں گے۔
دور حاضر میں مسلمان قوم و ملت جن عیبوں کا شکار ہیں ان میں پستی اخلاق، بغض وعناد، حسد وکینه، کذب وافتراء، اختلاف وافتراق، بے حیائی و بے شرمی ہیں۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے زندگی بھر ان برائیوں کے خلاف زبان و قلم نیز اپنی عملی زندگی سے جہاد کیا۔ وہ اپنے دلنشیں اور من موہنے انداز میں نہایت سادہ وپر اثر الفاظ کا سہارا لے کر لوگوں کے قلوب میں اخلاق عالیہ کی عظمت، بزرگی اور فوائد کے نقوش بھی مرتسم کرتے تھے اور چھوٹی چھوٹی مثالوں، عام فہم جملوں اور حکمت موعظت سے بری عادات کی قباحتوں اور مہلکات سے نفرت بھی دلاتے تھے۔ اس مضمون میں قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بروں سے برائیاں دور کرنے کے لئے کون سے انداز اختیار کرتے تھے۔ معاشرہ کی شیرازہ بندی کے ماتحت آپ فرماتے ہیں: اسلامی اصول کے ماتحت ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں سے دلی ہمدردی، امداد و اعانت اور اس کی پردہ پوشی مسلمان کا فریضہ ہے۔اگر مسلمان اس کے عامل ہوجائیں تو ان کی ساری مصیبتیں ختم ہو جائیں۔ تمام تر پراگندگی کا خاتمہ ہو جائے اور اتفاق و اتحاد سے قوم مسلم کی شیرازہ بندی ہوکر وہ طاقت پیدا ہوجائے کہ قوم مسلم کی عظمت رفتہ واپس آجائے۔ (معارف حدیث:۸۵)
اتفاق و اتحاد: مسلمانوں کے باہمی اختلاف و نزاع اور ان کی نااتفاقی سے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سخت کبیدہ خاطر رہتے تھے۔ اس کا اندازہ آپ کے اس حکیمانہ قول سے کیا جاسکتا ہے کہ اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب تک جسم کے ساتھ روح کا تعلق قائم رہتا ہے یا یوں کہیے کہ روح اور بدن میں اتفاق رہتا ہے آدمی زندہ رہتا ہے اور جب یہ تعلق ختم ہو جاتا ہے، ساتھ چھوٹ جاتا ہے، جسم وروح الگ الگ ہو جاتے ہیں اور دونوں میں اختلاف ہو جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ آدمی مر گیا۔ پس کیا یہ حقیقت نہ ہوئی کہ جسم و روح کا اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت ہے۔ اسی طرح دنیا کی ہر چیز میں اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت ہے۔ جس گھر کے سب افراد باہم متحد ہوں تو وہ گھر زندہ ہے۔ اگر ایک محلہ کے لوگ باہم اتحاد و اتفاق سے رہ رہے ہیں تو وہ محلہ زندہ ہے اور اگر اختلاف ہو کہ یہ اس کی پگڑی اچھال رہا ہے وہ اس کی ٹانگ گھسیٹ رہا ہے تو یہ اختلاف ہی اس محلہ کی موت ہے۔ یہی حال شہر کا اور ملک کا ہے اور قوم وملت کا ہے۔ وہ قوم زندہ قوم ہے جس کے افراد میں باہم ہمدردی، غمگساری اور اتحاد آراء کا خیال ہے اور وہ قوم زندہ رہ کر مردوں سے بدتر ہے جس کے افراد میں خود غرضی، نفس پرستی اور دوسرے بھائی کی ترقی دیکھ کر بغض و حسد کی آگ میں جلنا پایا جائے۔ (حافظ ملت نمبر؛۱۴۷ تا ۱۴۸)
غیبت سے باز آؤ: غیبت کی مذمت میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اس زمانے میں چغلی غیبت مسلمانوں میں عام ہوگئی ہے۔ یہ مرض اس درجہ ترقی کر گیا ہے گویا وبائی صورت اختیار کرگیا ہے۔ عام طور پر مسلمان اس مرض میں مبتلاء ہیں۔ چغلی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے آدمی نہ بیچ سکے۔ اس بری لت کو نہ چھوڑ سکے۔ چغلی ہے تو بہت معمولی سی چیز مگر اس کے اثرات بڑے ہی زہریلے اور تباہ کن ہیں۔ چغل خوری دنیا میں بے عزت کرتی ہے، بے اعتبار بناتی ہے، اس سے اپنے غیر ہو جاتے ہیں، چغلی عذاب قبر کا سبب ہے۔ عذاب آخرت کا موجب ہے۔ اسی لئے شریعت مطہرہ نے اسے حرام کیا ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے
"أَيُحِبُّ أَحَدَكُم أَن يَّاكُلَ لَحْمَ آخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوه" (الحجرات:۱۲)
تم میں کا کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے۔اگر ایسا نہیں تو چغلی کو برا جانو اور اس سے بچو۔
معلوم ہوا جس طرح اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا حرام ہے چغلی بھی حرام ہے۔ مسلمانوں کو چغلی سے نفرت لازم ہے۔ (معارف حدیث:۴۳ ۴۴)
عیب جوئی اور حسد سے بچو: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے قلم سے بدظنی، عیب جوئی اور بغض و حسد کے مفسدات، ان کی برائیوں اور مہلکات کے بارے میں نہایت حکیمانہ اور پر زور بیان ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں: حسد، غیبت اور چغلی یہ وہ امراض ہیں جن کے مریض ہمیشہ حیران و پریشان اور سرگرداں رہتے ہیں اور ذلیل و خوار ہوا کرتے ہیں۔ اللہ کے حبیب محمد رسول ﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ ان برائیوں سے دور رہیں اور ان بری عادتوں سے بچیں اور آپس میں متفق و متحد رہ کر اخوت اسلامی کے تحت زندگی گزاریں۔ بدظنی کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔جب کسی سے بدظنی ہوتی ہے تو اس کی اچھی بات بھی بری معلوم ہوتی ہے۔ اچھا فعل بھی برا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے دل میں ہر وقت ایک خلش رہتی ہے۔ خواہ مخواہ خوف و ہراس رہتا ہے کہ وہ کہیں کوئی خلاف کارروائی نہ کرے، کوئی نقصان نہ پہنچا دے، حالانکہ نفس الامر میں کوئی بات نہیں، یہ سب اسی کے سینہ کی کدورت، اس کے قلب کی ظلمت و تاریکی کا اندھیرا ہے۔ اگر بدظنی نہ ہوتی اس کا سینہ صاف ہوتا تو ہرگز ایسا نہ ہوتا۔اس سے خود اس کو تکلیف ہوتی ہے اور بلاوجہ تکلیف اس نے خود اپنی بدظنی کی وجہ سے اپنے خیال میں سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ خیالی عمارت تعمیر کی ہے اور واقعہ کچھ نہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس بدظنی کے تحت اس سے ایسی حرکتیں صادر ہوتی ہیں جو اس شخص کی بدظنی اور عداوت کا سبب بن جاتی ہیں۔ بالآخر دونوں میں پوری عداوت ہوجاتی ہے اور ایک دوسرے کا دشمن ہو جاتا ہے۔ اگر بدظنی نہ ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اس لئے حضور اقدس ﷺ نے بدظنی سے ڈرایا اور بچایا ارشاد فرمایا۔ مسلمانو! بدظنی سے دور رہو یہ بڑی خطرناک ہے، بڑی بری بات ہے، دل میں جو باتیں پیدا ہوتی ہیں ان میں مسلمانوں سے بدظنی بہت ہی بری بات ہے۔ اس کو دل سے دور کر دو ورنہ خود تمھیں تکلیف اٹھانی پڑے گی، انجام یہ ہوگا کہ تمھارے دوست دشمن ہو جائیں گے، تمھاری زندگی تلخ ہوجائے گی۔ اسی طرح مسلمانوں کی عیب جوئی، مسلمانوں کی برائی تلاش کرنا، یہ بھی بڑا عیب ہے، بے ضرورت کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا لا حاصل ہی نہیں بلکہ سخت مضر ہے۔جب اس کا اظہار ہوتا ہے تو عیب جو بہت ذلیل ہوتا ہے اور جس کی عیب جوئی کرتا ہے وہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے، اس کے دل سے اس کی وقعت نکل جاتی ہے۔ وہ بھی اس کی تذلیل و تحقیر کے لئے تیار ہو جاتا ہے جس کے نتائج دونوں کے لئے مضر ہو جاتے ہیں۔ اس لئے حضور اقدس ﷺ نے مسلمانوں کو اس برائی سے روکا اور منع فرمایا کہ مسلمانو! مسلمانوں کے عیب نہ تلاش کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمھارے ہی لئے سخت مضر ہوگا۔ جس کا انجام تمہاری عزت ریزی ہے۔ تمھارے دوست دشمن بن جائیں گے، آپس میں نفاق پیدا ہوگا۔ تمھاری طاقت ختم ہو جائے گی۔ لہذا! اس برائی سے باز آؤ اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو۔ البتہ اگر بغیر تلاش کے کسی کے عیب پر مطلع ہو جاؤ تو سلامت روی کے ساتھ اس کی فہمائش کرو اور اس کو اس عیب سے روکنے کی سعی کرو یہ اسلامی ہمدردی ہے۔ (معارف حدیث؛۱۰۳، ۱۰۵)
حسن سلوک: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ خود حسن اخلاق کے پیکر تھے۔ آپ اپنے پڑوسیوں اور اہل محلہ پر تو خصوصی توجہ دیتے ہی تھے۔ اپنے تلاندہ، مریدین اور غربا پر حد درجہ مہربان تھے، کرم فرماتے تھے ہر مسلمان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا برتاو کرتے تھے۔
پڑوسی کے ساتھ سلوک: مقتضائے ایمان یہی ہے کہ مومن کا کردار اور اس کا اخلاق اس بلندی پر ہو کہ سب کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا برتاؤ کرے۔ یوں تو تمام دنیا کے مسلمان اس میں شریک ہیں، سبھی کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنا ہے، سبھی کے ساتھ نیک کردار کے ساتھ پیش آتا ہے، مگر پڑوسی چوں کہ اس کے قریب ہے، نزدیک ہے، دن رات اس کے ساتھ رہتا ہے اس لئے نسبتاً اس کا حق زیادہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کا پڑوسی پر خاص طور پر حق مقرر فرمایا ہے۔(معارف حدیث:۹۸)
مسلمانو!اپنی صلاح و فلاح کے لئے اپنے نبی کریم ﷺ کی تعلیم پر عمل کرو اور اس اصول کے پابند ہوجاؤ، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک کرو، ان کی خبر گیری رکھو، ان کی امداد و اعانت کرو، مولاے قدیر تمھاری مدد فرمائے گا۔(معارف حدیث:۹۹)
مذہب اسلام ہر بھلائی کا ضامن اور ہر چیز کا جامع ہے۔ بھلائی خواہ ظاہری ہو یا باطنی، دنیوی ہو یا اخروی، اسلام نے ساری بھلائیوں کا احاطہ کر لیا ہے۔ (معارف حدیث:۱۰۰)
محارم و معصیت سے اجتناب: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ حدیث مصطفوی کے حوالہ سے فرماتے ہیں: اصل مقصود عبادت میں محارم و معصیت سے بچنا ہے اگرچہ احکام و فرائض خداوندی پر عمل اشد ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص محرمات و مکروہات سے پر ہیز کرتا ہے اگرچہ عبادات نافلہ، صدقات، خیرات وغیرہ میں مبالغہ نہیں کرتا وہ اس شخص سے افضل ہے جو باوجود ادائے فرائض کے عبادات نافلہ میں تو بڑا غلو کرتا ہے مگر معاصی سے بچنے کی فکر کم کرتا ہے۔ لہٰذا!معلوم ہوا کہ عابد کو پہلے محارم سے بچنا ضروری ہے۔ معصیت سے تائب ہوکر عبادت الٰہی میں مصروف ہو تو نور عبادت حاصل ہوگا اور یہ عابد بہترین عابد ہوگا، مقبول بارگاہ ہوگا۔ صراط مستقیم کی یہی تعلیم ہے۔ (معارف حدیث:۶۶)
مزید ارشاد فرماتے ہیں: حضورِ اقدس ﷺ کی حدیث پاک کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان خدائے تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچیں، عبادت الٰہی میں مصروف رہیں،۔تقدیر الٰہی پر راضی رہیں، صبر و قناعت اپنا شیوہ بنائیں، پڑوسیوں کے ساتھ احسان کریں، دوسرے مسلمانوں کی بھلائی کے خواہاں رہیں، لغو گوئی، فضول ہنسی مذاق سے پر ہیز کریں، قلب کو خوف الٰہی کا نشیمن بنائیں، ذکر الٰہی سے قلب کو منور کریں۔(معارف حدیث:۶۷)
زبان اور شرم گاہ پر قابو: ایک حدیث پاک کی تشریح میں زبان اور شرم گاہ کی بے احتیاطیوں کے تباہ کن اور جہنم رساں نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: سرکار دوعالم ﷺ نے انسان کو زیادہ تر دوزخ میں لے جانے والی دو چیزیں بیان فرمائیں۔ انسان کا منہ اور شرم گاہ یہ اس لئے کہ دونوں سے معصیت زیادہ ہوتی ہے، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، چغلی کرنا، گالی بکنا، حرام پینا، حرام کھانا، یہ تمام منہ سے ہوتی ہیں۔ شرم گاہ کی شہوت تمام شہوتوں پر غالب ہے۔ بسا اوقات عقل کو زائل کر دیتی ہے۔ اگر انسان اپنی زبان اور شرم گاہ پر قابو پا جائے تو پھر انشاء الله تعالیٰ وہ برائی سے بچ سکتا ہے اور تمام خطرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔اسی لئے حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
،،من يضمن لي ما بين لحييه ورجليه اضمن له الجنة،، ( كنز العمال،حدیث:۷۸۷۳ الاخلاق،الترهيب في الاخلاق بحوالہ بخاری شریف)
جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی ضمانت دے میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
مسلمانو! زبان اور شرم گاہ کی معصیت زیادہ تر دوزخ میں لے جانے والی ہے۔ لہٰذا!اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ صداقت اور سچائی کا عادی بناؤ۔ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے، گالی دینے، بے ہودہ بکنے سے باز آؤ۔ شرم گاہ کو حرام سے بچاؤ۔ یاد رکھو! زبان اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت پر الله کے حبیب محمد ﷺ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (معارف حدیث:۷۷، ۷۹)
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ حقیقی معنوں میں مسلح امت تھے۔ ان کی اصلاح اور تربیت کا طریقہ فطری تھا۔ وہ جبری اصلاح پر اسے فائق جانتے تھے۔طلبہ کی عزت نفس کا انھیں بے حد خیال تھا اور تعلیم و تربیت کے دور میں وہ انھیں اسلاف کرام کے طریق پر اخلاق سے سجاتے اور سنوارتے تھے۔ ان کی شیریں گفتار، محبت اور پیار بھرا انداز اور خلوص دیکھ کر علماء طلبہ اور عوام بھی اثر قبول کرتے تھے۔ وہ کسی کی دل شکنی کرنا تو جانتے ہی نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ ان سے اپنے مزاج کے مطابق کوئی بات کہلوانا یا کوئی کام کروانا چاہتے مگر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو ایسے لوگوں کا بھی دل دکھانا گوارہ نہیں تھا اس لئے صاف انکار نہ فرماتے البتہ حکمت عملی سے انہیں ٹال دیا کرتے تھے۔ مسجد میں کسی کی اصلاح مقصود ہوتی تو نماز کے بعد عام لوگوں کو مخاطب بناکر اس بات کا ذکر کرتے غلطی جس کی ہوتی وہ سمجھ لیتا اس طرح دوسروں کی معلومات میں اضافہ ہوتا اور وہ شخص شرمندگی سے بھی بچ جاتا۔ کبھی کسی کو تنبیہ کرنی ہوتی تو تنہائی میں بلاکر خبر دار کرتے۔البتہ طلبہ کی بری عادتوں کا سخت نوٹس لیتے۔ حصور حافظ ملت علیہ الرحمہ طلبہ کو علم اور اخلاق میں بلند تر دیکھنا چاہتے تھے۔