مولانا توقیر رضا بریلوی کی گرفتاری پر قائدینِ امت کا ردِعمل

 بریلی شریف کی روحانی و دینی فضاؤں سے تعلق رکھنے والے، عوام کے محبوب قائد اور ملی مسائل پر دوٹوک موقف رکھنے والے حضرت مولانا توقیر رضا خان بریلوی کی گرفتاری نے نہ صرف اہلِ سنت بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ میں شدید اضطراب اور بے چینی پیدا کر دی ہے۔ ان کی شخصیت برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط آواز اور جرات مندانہ قیادت کی علامت رہی ہے، جو ہر دور میں ملت کے حق میں کھڑی رہی ہے۔

مولانا توقیر رضا بریلوی ہمیشہ ظلم و ناانصافی کے خلاف اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کی صاف گوئی اور دوٹوک بیانات اکثر طاقتور حلقوں کو کھٹکتے رہے ہیں۔ حالیہ گرفتاری اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جا رہی ہے جس نے عوامی جذبات کو مجروح کیا اور ملک بھر میں مایوسی و غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔

اہلِ سنت کے مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما و مشائخ نے مولانا کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے اور اسے جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔

مفتی محمد اشرف القادری نے کہا:

"مولانا توقیر رضا کی زبان ہمیشہ حق کے لئے بولی ہے۔ ان کی گرفتاری دراصل سچائی اور عدل کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے، جسے ہرگز کامیابی نہیں مل سکتی۔"

سید مدثر حسین شاہ کا کہنا ہے:

"اگر ملت کے قائدین کو یوں گرفتار کیا جاتا رہا تو یہ جمہوری آزادیوں پر کاری ضرب ہوگی۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مولانا کو فوراً رہا کیا جائے۔"

علامہ نعیم الدین رضوی نے بیان دیا: "مولانا توقیر رضا نہ صرف اہلِ سنت بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی امت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔"

خانقاہِ اعلیٰ حضرت کے ایک بزرگ شیخ نے کہا: "بریلی شریف کی یہ خانقاہ ہمیشہ حق کی پاسبان رہی ہے۔ مولانا کی گرفتاری ہمیں مایوس نہیں کر سکتی، بلکہ یہ ملت کو مزید بیدار کرے گی۔"

مولانا توقیر رضا کی گرفتاری کے خلاف عوامی حلقوں میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ نوجوان اور کارکنان احتجاجی اجتماعات کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر حق گوئی کو دبانے کی کوشش کی گئی تو یہ ملت کبھی خاموش نہیں بیٹھے گی۔ عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا کو فوری رہا کیا جائے اور ان کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ بند ہو۔

مولانا توقیر رضا بریلوی کی گرفتاری صرف ایک فرد کی گرفتاری نہیں بلکہ ملت کے ایک جرات مند نمائندے کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ قائدینِ امت نے متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی رہائی تک یہ آواز بلند کرتے رہیں گے۔ یہ واقعہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ آج کے حالات میں ملت کو متحد ہوکر اپنے حقوق کی حفاظت اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے عملی جدوجہد کرنی ہوگی۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter