سرکار غوث اعظم بحیثیت فقیہ !!
یہ بات متفق علیہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک فہرستِ اولیاء اللہ میں اپنا نام درج نہیں کرا سکتا جب تک کہ قرآن و سنت کا عالم نہ ہو۔ بغیر واقفیتِ علومِ شرعیہ اگر کوئی خود کو ولی کامل کہتا ہے تو یقیناً وہ جھوٹا ہے، کیوں کہ علومِ اسلامیہ کے بغیر کوئی سالک منازلِ معرفتِ خدا عبور ہی نہیں کر سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ راہیں کس قدر پرخطر ہیں نہ جانے کتنے اس راہ میں گم ہو گئے اور ان کا پتہ ہی نہیں چلا۔ شیطانی وسوسوں اور شاطرانہ چالوں میں پھنس کر اپنا ایمان کھو بیٹھے۔ اور جو محبوبانِ خدا علم کے بیش قیمتی خزانے سے آراستہ و پیراستہ تھے وہ ابلیسِ لعین کے نرغوں کو پہچان گئے اور خدائے وحدہ لاشریک کی مدد اور اپنے علم کی بنیاد پر اُن سازشوں اور چالبازیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے آگے بڑھتے چلے گئے۔
آج ہمارے معاشرے میں دو خرابیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، پہلی یہ کہ نام نہاد جعلی پیروں کی اس قدر کثرت ہے کہ گلی گلی یہ لٹیرے مع ساز و سامان اپنے بیوقوف مریدوں کے یہاں ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں اور بھولی بھالی عوام ان کے دام تزویر میں پھنس جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ جو حقیقی محبوبانِ خدا ہیں اُن کی ذات بابرکات کو صرف کرامات سے گھیر دیا ہے۔
جیسے فی زمانہ جب ہمارے ذہن میں پیر پیراں، شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نام نامی زبان پر آتا ہے تو عوام الناس کے ذہن و فکر میں آپ کی کرامتیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ بچہ بچہ بڑے پیر صاحب کے نام سے آپ کو یاد کرتا ہے، کاش ہم نے کرامات کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی علمی و فقہی حیات بھی پڑھ کر سنائی ہوتی تو یقیناً معاشرہ علمِ دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سیکھنے اور پڑھنے کا شوقین ہوتا۔
سیدنا غوث اعظم کا علمی مقام:_____
ولی الاولیاء ،امام الاصفیاء، قطب الاقطاب، غوث الاغواث، تاج الاوتاد، مرجع الابدال، غوثِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ جس طرح طریقت و معرفت کے امام ہیں اسی طرح انہیںمسائلِ شرعیہ، اور علومِ قرآن و سنت میں بھی کمال کی دسترس حاصل ہے۔ آپ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ ایک عظیم فقیہ، مفسر، مدقق، محدث و مفکر ہیں، آپ نے پوری زندگی علمِ فقہ اور فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دینے میں گزار دی، آپ کی بارگاہ میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ علمِ فقہ سیکھنے آتے۔ امامِ اہل سنت، سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک شعر سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتنے بڑے فقیہ ہیں۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
مفتی شرع بھی ہے قاضی مِلت بھی ہے
علم اَسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں بے شمار استفتے آیا کرتے تھے اور آپ بنا وقت ضایع کیے سخت سے سخت سوالات بنفس نفیس حل فرماتے۔ جیسا کہ بہجۃ الاثرار میں ہے کہ امام ابو الفرج عبد الرحمن بن امام ابو العلی نجم الدین بن حنبلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والدِ ماجد کویہ کہتے ہوئے سُنا کہ:”کان الشیخ محیی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ عنہ، ممن سلم الیہ علم الفتاوی بالعراق فی وقتہ“۔ یعنی شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن افراد میں سے تھے کہ عراق میں جن کی طرف علمِ فتاویٰ ان کے وقت میں سپرد کردیا گیا تھا۔ (بہجۃ الاسرار)
سیدی اعلیٰ حضرت، امام اہلِ سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ آپ کے علمی مقام و مرتبے کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ”الشیخ عبد القادر بحرُ الشریعۃ عن یمینہ و بحرُ الحقیقۃ عن یسارہ ، مِنْ اَیِّھِما شاء اغترف السید عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنہ“۔ ”شیخ عبدالقادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے دہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں۔ اس ہمارے وقت میں سیِّد عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔" (فتاویٰ رضویہ شریف)
اسی طرح بہجۃ الاسرار میں ہے: ”کانت الفتاوی تأتی الشیخ محیی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ عنہ، من بلاد العراق، وغیریہ، وما ر أیناہ یبیت عندہ فتوی لیطالع علیھا، أو یفکر فیھا، بل یکتب علیھا عقیب قراءتھا، وکان یفتی علی مذھبی الشافعی، و أحمد، وکانت فتاواہ تعرض علی علماء العراق، فما کان یعجبھم صوابہ فیھا أشد من تعجبھم من سرعۃ جوابہ عنھا۔“ یعنی: سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں بلادِ عراق وغیرہ سے فتاویٰ آیا کرتے تھے ۔ ہم نے کبھی نہ دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس رات کو فتویٰ رہتا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے متعلق مطالعہ فرمائیں یا کچھ غور و فکر کریں، بلکہ اسے پڑھنے کے فوراً بعد اس کا جواب تحریر فرما دیا کرتے تھے۔ اور سیِّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیِّدنا امام شافعی اور حضرت سیِّدنا امام اَحمد رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے مذہب کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاویٰ عراق کے علماء کے سامنے پیش کیے جاتے تو انہیں حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے درست جوابات دینے سے اتنا تعجب نہیں ہوتا تھا، جس قدر کہ اس بات سے تعجب ہوتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنا جلد جوابات عطا فرما دیا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار)
ذرا اندازہ لگائیں سیدنا غوثِ اعظم کی فقہی بصیرت کا، کہ کس قدر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فقہ و افتاء میں مہارت عطا فرمائی کہ کیسا بھی مسئلہ ہوتا آپ فی الفور اس کا جواب قلمبند فرمایا کرتے۔ صبح سے شام تک درس و تدریس کے علاوہ فتویٰ نویسی کے امور انجام دیتے تھے، اور آج ہم نے حضور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کرامات کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا۔ معاشرے میں سخت ضرورت ہے کہ سیدنا غوثِ اعظم کی علمی و تحقیقی خدمات کو اجاگر کیا جائے، تاکہ طلبہ آپ کی سیرت پر عمل کر سکیں۔ دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو آپ کے فیوض و برکات سے مستفید و مستنیر فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ