سلطان الاولیاء : سیّدنا محی الدین عبد القادر جیلانی غوثِ اعظم دستگیر ؒ

خدا کے فضل سے ہم پہ ہے سایہ غوث ِ اعظم کا
ہمیں دونوں جہاں میں ہے سہارا غوث ِ اعظم کا

اس حقیقت پر تمام تر علماء اہلِ سنت والجماعت متفق ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت اور مذہب ِاسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے نبی سروردوعالم ﷺ تک بیشمار انبیاء کرام اور رسولان ِ عظام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور لوگوں کی فلاح و بہنودی کا ذمہ ان کے حق میں سونپا۔ سید الثقلین رحمۃ للعالمین سروردوعالم محمد ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین ائمہ مجتہدین نے مذہب ِ اسلام کے مقدس پیغام کو ہر عام و خواص میں پھیلائے اور لوگوں کوراہ ِ حق پر گامزن کئے۔ اس طرح دین ِ متین کی ترویج و اشاعت خوب اچھی طرح ہوتی رہی۔پھر اس رب کائنات کا فضل و کرم ہواکہ اللہ رب العزت نے اپنے مقرب اور بر گزیدہ اولیاء کرام کی نورانی جماعت کو اس خاکدان ِ گیتی پر مبعوث فرماکرانسانوں کی حقوق کا ذمہ ان کے کاندھوں کے اوپر سونپ دیا تاکہ لوگ گمراہی کے دلدل میں نہ پھنسے اور ہمیشہ اللہ کے بتائے گئے راستے پر گامزن رہے۔

اس روئے زمیں پر بے شمار اولیاء اللہ اور مقرب بندے جلوہ گر ہوے اور سبھی حضرات نے اس پاکیزہ دین کی پاکیزہ پیغام کی نشرو اشاعت خوب اچھی طر ح کی مگر ان اولیاء اللہ کے ما بین ایک ایسی عظیم اور با برکت ہستی کا نام ہمیشہ ہمارے کانوں میں گونجتارہتا  ہے جس نے ایسے ایسے کارہائے خیر خدمت انجام دیئے ہے کہ وہ تا صبح قیامت سونے کے اوراق پر چاندی کے دوات سے لکھا جانے کے مترادف ہے۔وہ ذاتِ بابرکات کوئی اور ذات نہیں ہے بلکہ وہ ذات سلطان الاولیاء قدوۃ العارفین پیرانِ پیر روشن ضمیر قطب الاقطاب الشیخ محیی الدین عبد القادر جیلانی غوث اعظم دستگیر ؒکی ہے جس نے اپنے نور سے ظلم وستم کے بادل چاک کر دیا اور نور حق کا ایک ایسا مظہر بن کر چمکے کہ زمانہ آج بھی انکے خدمات کی مقروض ہے اور انکی خدمات اس امت ِمحمدیہ کے لئے نا قابل فراموش ہے۔

 ولادت با سعادت :

سلطان الاولیاء شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت بروز پیر جیلان میں شب اول ماہ رمضان کے اندر470 ء میں ہوئی۔ جب آپ اپنے ماں کے شکم میں تھے تو اس وقت آپ کی والدہ محترمہ کی عمر کچھ ساٹھ سال کی تھی۔ اس عظیم الشان ذات گرامی کی توصیف و تعریف کسی قلم کار اور کسی زبان میں نہیں ہے کہ غوث اعظم کی مکمل طور پر کر سکیں۔ لوگوں کی پکار اغثنی پر آپ غوث اعظم بن کر جلوہ گر ہوئے یعنی شان غوثیت دکھاتے رہے۔ آپ محبوب کبریا تھے۔ آگ سرکردہ اولیاء تھے اور آپ زندگی بھر مخلوق خدا کی حاجت روا نے کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔

 نسب ِ مبارک :

آپ کا شجرہ سید ابو صالح موسی جنگی دوست بن عبد اللہ الجیلی بن سید یحییٰ زاہدبن سید محمد مورث بن سید داؤد بن سید موسی ثانی بن سید موسی الجون بن سید عبد اللہ ثانی بن سیدعبداللہ المحض بن سید حسن المثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے ملتا ہے۔

 ایامِ طفولیت :

اس روئے زمین پر جتنے بھی اولیائے کرام اور علمائے کرام ہیں سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ پیدائشی ولی ہیں۔اور کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو اس وقت جتنے بھی لڑکے پیدا ہوئے وہ سب کے سب اپنی زمانے کے  ایک بڑے ولی کامل بن کر روئے زمین پر چمکے۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی اس وقت سے آپ نے رمضان المبارک کے مہینے میں طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک آپ نے اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہیں پیا جیسا کہ کہا جاتا ہے ولد الاشرف ولد ولا یرضع فی رمضان یعنی سادات کے گھرانے میں ایک ایسا پر نور بچہ پیدا ہوا جو رمضان المبارک میں دن بھر دودھ نہیں پیتا ہے۔ نیز کھیل کود سے بھی آپ کو بہت ہی زیادہ نفرت تھی۔

آپ کو معلوم ہی ہے کہ بچپن میں عام طور پر بچے کھیل کود کے بہت ہی زیادہ شوقین ہوتے ہیں مگر اللہ رب العزت کو یہ منظور نہ تھا کہ یا آسمان کا روشن اور چمکتا ہوا ستارہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرے۔ آپ بچپن کی عمر سے ہی لہو و لعب سے کوسوں دور رہے اور آپ خود ارشاد فرماتے ہیں  کہ جب کبھی بھی میں کھیلنے کودنے کا ارادہ کرتا تو غیب سے آواز آیا کرتی تھی کہ اے برکت والے میری طرف آ جا اور کھیل کود میں مشغول نہ ہو۔

 ولایت کا علم :

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ کچھ لوگ غوسے اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں آجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا اور کس طرح ہوا تو غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے ولایت کا علم 11 سال کی عمر میں ہوا مزید آپ یہ کہتے ہیں کہ جب میں مکتب جایا کرتا تھا تو غیب سے آواز آیا کرتی تھی اور تمام ہم مکتب سنا کرتے تھے کہ افسحوا الولی اللہ یعنی اللہ کے ولی کے لیے جگہ کشادہ کر دو۔

 تعلیم و تربیت :

غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کو رب العزت نے ماں کے شکم سے ہی حافظ قرآن اور تمام تر علم و فنون کا ایک بڑا اور جدید عالم بنا کر بھیجا تھا اسی وجہ سے آپ کی ولادت سے قبل آپ کے کشف و کرامات کا ظہور ہونے لگا تھا۔ایک مرتبہ ایک سائل نے دروازے پر آکر صدا لگائی وہ بدبخت آپ کی والدہ محترمہ کو گھر میں تنہا پا کر گھستا چلا آیا تو اسی وقت غیب سے ایک شیر نمودار ہوا جو اسے وہی چیر پھاڑ کر غائب ہو گیا۔

آپ سولہ سال کی عمر میں جیلان سے بغداد شریف تشریف لے گئے اور سات ہی سال کی عمر میں فضل ربی سے جملہ تمام مختلف اور متنوع قسم کے علوم و فنون سے فراغت حاصل کرکے بحر متلاطم کی طرح چمک اٹھے۔ اس وقت کے بعد آپ حضرت ابو الخیر ابو سعید کے مرید ہوگئے اور مجاہدات و عبادات میں مصروف رہنے لگے۔

 اولاد :

شیخ عبد القادر جیلانی ؒکی چار ازواج سے انچاس بچے پیدا ہوئے۔ بیس لڑکے اور باقی لڑکیاں۔
شیخ سیف الدین عبد الوہاب, شیخ تاج الدین عبد الرزاق,شیخ شرف الدین عیسیٰ,شیخ ابو اسحاق ابراہیم,شیخ ابو بکرعبد العزیز,شیخ ابوزکریا یحیٰ شیخ عبد الجبار,شیخ ابو نصر موسیٰ,شیخ ابو الفضل محمد اور شیخ عبد اللہ۔

 عبادت و ریاضت :

جب آپ ابولخیر ابو سعید کے مرید بنے تب سے لے کر لگ بھگ پچیس سال تک آپ جنگلوں میں مستانہ طور پر پھرتے رہے۔ ہوش آتا تو عبادت میں مصروف ہو جاتے۔ اس عمر میں آپ نے بڑی بڑی ریاضتیں کیں اور کئی کئی دنوں تک آپ نے پتوں اور گھاس پر اپنا گزارا کیا۔

چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز ادا فرماتے رہے اور سر تکیہ پر پر نہ رکھا۔15 سال اسی  عالم میں گزرے کہ تمام شب ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے۔ ایک ایک رکعت میں ایک ایک قرآن شریف ختم کیا کرتے تھے۔ جب پوری طرح تزکیہ باطنی ہو چکا تو آپ کو  خرقہ خلافت عطا ہو گیا۔ اور آپ جذب و سکر سے سلوک میں آگئے۔ وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔آپ کی تقاریر سننے کے لیے دور دراز سے لوگ حاضر ہوا کرتے تھے۔ ہجوم کی یہ حالت ہوتی تھی کہ کہیں بھی پاؤں رکھنے کی جگہ باقی نہیں رہتی تھی۔آپ کے ہاتھ پر بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا اور اسلام کی حقانیت سے روشناس ہوئے۔آپ کا معمول رہا کرتا تھا کہ آپ خود ہی درس دیا کرتے تھے۔اور جن طلباء کے پاس خرچہ نہیں ہوا کرتا تھا اسے علم دین طلب کرنے کے لیے آپ اپنے پاس ہی خرچہ دیا کرتے تھے۔اور تمام لوگوں کی خیر خواہی کے لیے کام کرنا شروع کر دیے۔

 حضور غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کی کشف و کرامات :

یوں تو جتنے بھی اولیائے کرام اس خاکدان گیتی پر جلوہ گر ہوئے ہیں سبھی نے اپنے کرامات سے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیے ہیں مگر جو خدمات بطور کشف و کرامات حضور غوث الاعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ نے کی کسی دوسرے ولی کے حیات میں اس کی جھلک کبھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔

میں آپ کو خود کا ذاتی تجربہ بتاتا چلتا ہوں کہ جب کبھی بھی میں کسی بھی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہوں اور مجھے کوئی چارہ نظر نہیں آتا ہے تو میں یا غوث المدد کہنے لگتا ہوں اور یہ وظیفہ اتنا زیادہ کارآمد ہے کے مجھے کبھی بھی مایوس نہیں کیا ہے۔ میں ہمیشہ اس وظیفے کی بدولت بڑے بڑے مشکلات سے باآسانی نکل گیا ہوں جہاں سے نکلنا تو دور کی بات سوچنے سے بھی روح کانپ جاتی تھی۔ مگر یا غوث المدد کے اس وظیفے نے مجھے ہر مشکلات سے نکال دیا۔ آئیے ذرا حضور غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ کشف و کرامات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت آپ کی مریدہ تھی۔ مریدہ ہونے سے پہلے اس پر ایک بدکار شخص عاشق تھا تحصیل بیعت کے بعد وہ عورت قضائے حاجت کے لیے پہاڑ کی طرف روانہ ہوتی ہے تو اس وقت بد کار شخص  کو اس کا علم ہوا تو وہ اس پاک دامن عورت کا پیچھا کیا اور اس کے دامن عصمت کو داغدار کرنا چاہا۔ جب اس عورت کو چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اس نے سرکار غوث اعظم کا نام لینا شروع کر دیا اور کہنے لگی الغیاث یاغوث اعظم دستگیر الغیاث یاشیخ محی الدین یا غیاث عبدالقادر جیلانی۔ اس وقت سرکار غوث اعظم اپنے مدرسے میں وضو فرما رہے تھے اور آپ کے پاؤں میں لکڑی کے دو نعلین تھے آپ نے اسے اتارا اور غار کی طرف پھینک دیا۔ فاسق کے مراد کے حصول کے پہلے دونوں نعلینِ پاک اس کے سر پر جا پہنچے اور اس کے سر پر مارنے لگے یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ عورت نعلین مبارک لئے غوث اعظم کی بارگاہ میں حاضر ہوتی ہے اور تمام حاضرین کے سامنے اپنی پوری کیفیت بیان کرتی ہیں۔ تو پتا چلا کے غوثِ اعظم دستگیر نے کس طریقے سے اپنے مریدہ کی امداد کی۔

عدی بن مسافر کا بیان ہے کہ ایک روز غوثِ اعظم دستگیر مدرسے کے صحن میں وعظ و نصیحت فرما رہے تھے کہ بارش ہونے لگی اور لوگ افرا تفری کا شکار ہوئے اور گھبراہٹ محسوس کرنے لگے تو آپ نے آسمان کی جانب رخ کرکے ارشاد فرمایا کہ میں لوگوں کو جمع کرتا ہوں اورتو منتشر کرتا ہے۔ آپ کا یہ کہنا تھا کہ مدرسے کے صحن میں بارش بند ہو گئی اور مدرسے کے باہر بارش بدستور جاری رہی۔

ہوا موقوف فورا ہیء برسنا اہل مجلس پر
جو پایا ابر باراں نے اشارہ غوث اعظم کا

حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت سید عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت غوث اعظم سخت علیل ہو گئے، ہم لوگ آپ کے ارد گرد آبدیدہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ”ابھی مجھے موت نہیں آئے گی۔ میری پشت میں یحییٰ نامی لڑکا ہے، جس کی ولادت ضرور ہوگی“۔ حضرت شیخ عبد الوہاب فرماتے ہیں کہ آپ کے فرمان کے مطابق صاحبزادے کی ولادت ہوئی تو آپ نے اس کا نام یحییٰ رکھا۔ اس کے بعد عرصہ123 دراز تک آپ باحیات رہے۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ”جو شخص اپنی مصیبت کو پوشیدہ رکھتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اُسے دُگنا اجر دیتا ہے، لہذا فقر کو چھپانے میں ہی بہتری ہے“۔

حضرت شیخ ابو عبد اللہ محمد بن ابی الفتح رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ 530ھ میں ایک دن میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ مجھے چھینک آئی اور بلغم منہ سے نکل پڑا۔ مجھے شرم محسوس ہوئی کہ ”شاید حضرت کو کراہت محسوس ہوئی ہو“۔ میں شرم سے سر جھکائے ہوئے تھا کہ حضرت غوث اعظم نے فرمایا: ”اے ابو عبداللہ! کوئی مضائقہ نہیں، آج کے بعد نہ تھوک اور بلغم ہوگا اور نہ رینٹھ“۔ حضرت ابوعبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں مدت مدید تک زندہ رہا، یعنی 137 سال عمر پائی، لیکن اُس دن کے بعد نہ تو کبھی تھوک نکلا اور نہ کبھی ریزش آئی۔

ایک بار سرکار بغداد حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ دریا کی طرف تشریف لے جا رہے تھے وہاں کنارے پر انہوں نے ایک نوے سال کی بڑھیا کو دیکھا انتہائی پرسوز اندازمیں زار و قطار رو تے دیکھا آپ نے اپنے ساتھ موجود ایک مرید نے پوچھا یہ بوڑھی عورت کیوں رورہی ہے اس نے بارگاہ غوثیت میں عرض کیا کہ یا حضرت! اس بوڑھی عورت کا اکلوتا خوبرو بیٹا تھا بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دولہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور دولہا اور دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی اس واقعہ کو برسوں گزر چکے مگر ماں کو اب بھی اپنے بیٹے اور بہو کا انتظار رہتاہے اس بیچاری کا غم جاتا ہی نہیں روزانہ اس دریا پر آتی ہے اور بارات کو نہ پاکر رو دھو کر چلی جاتی ہے۔ حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو اس بوڑھی عورت پر بڑا ترس آیا آپ نے وہیں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور ڈوبی ہوئی کشتی دریا سے برآمد ہونے کی التجا کی ابھی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے سجدے سے سر بھی نہ اٹھایا تھا کہ یکایک وہ کشتی دولہا دولہن اور باراتی اپنے تمام ساز و سامان سطح آب پر نمودار ہوگئی چند ہی لمحوں میں کنارے آلگی تمام باراتی سرکار بغداد سے دعائیں لیکر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے۔ اس کرامت کا چرچا چہارسو پھیل گیا کہ جسے سن کر بے شمار کفار نے آکر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے دست حق پرست پر ایمان قبول کرلیا بیشتر سے زیادہ لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ حضور غوث پاک کی دعا سے جو ڈوبی ہوئی کشتی برآمد کروائی اس کے دولہا حضرت سید کبیرالدین شاہ دولہ دریائی تھے جن کا مزار پرانوار پاکستا ن کے معروف صنعتی شہر گجرات میں مرجع خلائق ہے۔

 فرموداتِ غوثِ اعظم :

اے انسان، اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسا لے تو ربِ تعالٰی کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں، اُس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔ اہلِ دل کی صحبت اختیار کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔ میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر میں اُس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔

 وفات پر آہ ِ حسرت :

سلطان الاولیاء قدوۃ العارفین پیرانِ پیر روشن ضمیر قطب الاقطاب الشیخ محیی الدین عبد القادر جیلانی غوث اعظم دستگیر ؒ کا انتقال 1166ء کو ہفتہ کی شب 156ہجری کو 89 سال کی عمر میں ہوئی۔اور آپ کی تدفین آپ کے مدرسے کے احاطے میں ہوئی۔ آپ نے بیشمار خدمات اداکئے اور اس دارِ فانی سے دارِ آخرت کی طرف روانہ ہوے۔ 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کی سنت پر گامزن رہ کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالامال کرے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔ 

از قلم: محمد فداء  المصطفے (9037099731)
جامعہ دارالہدی اسلامیہ, ملاپرم, کیرالا
mohammedfidaulmustafa938@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter