استقبال رمضان المبارک کے تقاضوں کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت
مسلمانوں کا دین اسلام کے ظاہری اعمال کو اپنانا اورعبادت کی روح وعلت غائی اور حقیقی مقاصد کو فراموش کردینا امت مسلمہ کی ہر محاذ پر تباہی و بربادی اور معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں کی اہم وجہ ہے۔جب انسان رسومات کی ادائیگی کو عبادت سمجھنے لگتا ہے تو ایسی عبادت بندے کو رب سے قریب کرنے کے بجائے مزید دور کردیتی ہے اور جو بندہ رب کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے اس کا دنیا و آخرت میں ناکام ہوجانا ہے۔ جس طرح اللہ تعالی تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے اسی طرح اللہ تعالی بندوں کی عبادت سے بھی بے نیاز ہے تو ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ دین اسلام میں عبادات کا ایک مستقل نظام موجود ہے پھر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے پیر طریقت حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی حفظہ اللہ تعالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شا ہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ قدس سرہ العزیز امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ اسلام کے نظام عبادت کا اصل مقصد تربیت اخلاق ہے جو تمام عبادات اسلامی کی روح ہے اس کے بغیر تمام عبادات بندے کے حق میں غیر نتیجہ بخش ثابت ہوں گی ۔ رب کائنات کے پاس ایسی عبادات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور نہ وہ ایسی عبادات کو شرف قبولیت عطا فرماتا ہے جو تربیت اخلاق کے پہلو سے خالی ہو‘‘۔نماز انسان کو دن میں پانچ مرتبہ خواب غفلت سے بیدار کرتی ہے، دنیا کی حقیقت بتاتی ہے اورغرور و تکبر و دیگر سیئات اور برائیوں سے بچاتی ہے۔
مسلم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بہت کم نمازی ایسے ہیں جو نماز کی ان تمام برکات و فوائد سے اپنے کردار کو سنوارنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں ورنہ اکثریت ایسے نمازیوں کی نظر آئے گی جو رسماً نماز ادا کرتے ہیں ۔ زکوٰۃکا اہم مقصد انسان کو کوتاہ نظری و خودی پرستی کی نحوستوں سے بچانا اور غربا کی عزت نفس کا تحفظ کرنا ہے۔اگر مسلم معاشرہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو حقیقت کا یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ زکوٰۃ دینے والے تو بہت ہیں لیکن ایسے صاحبان استطاعت بہت ہی کم ہیں جو غربا و مساکین اور حاجتمندوں کی فریاد کو صبر و تحمل سے سنکر ان کی دلجوئی کرتے ہیں اور مالی خوشحالی کے نشہ میں مست ہوکر ان کی شخصیت کو مجروح نہیں کرتے۔ اسی طرح حج کا مقصد انسانی مساوات کو فروغ دینا ہے لیکن کتنے حاجی صاحبان ایسے ہیں جو نفرتوں کے ماحول کو ختم کرنے اور اخوت و بھائی چارگی کے جذبات پروان چڑھانے میں کامیاب ہوپاتے ہیںمسلم معاشرے میں بہت سارے حاجی صاحبان ایسے مل جاتے ہیں جو حج جیسے نعمت عظمی پانے کے باوجود قومی، علاقائی، لسانی، علمی اور نسلی برتری کے تفاخرکے چنگل میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں۔
رسمی عبادات ادا کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اسلام کے نظام عبادت سے خاطر خواہ مستفید ہونے اور کردار میں سدھار لانے میں یکسر ناکام ثابت ہورہے ہیں بلکہ عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہم پر سرکشی کے جذبات کا غلبہ بھی نظر آرہا ہے۔ یہی حال رمضان المبارک کے روزوں کا بھی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم رمضان المبارک کے روزے اس لیے نہیں رکھ رہے ہیں کہ ہمیں نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا سلیقہ سیکھنا ہے ، تقوی و طہارت کی زندگی گزارنی ہے ، دنیاو آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنی ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ چونکہ گھر اور محلہ کے تمام لوگ روزہ رکھتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی روزہ رکھنا چاہیے ہماری اسی غلط روش کا خمیازہ ہے کہ ہم رمضان المبارک کے فوائد و برکات سے کماحقہ استفادہ نہیں کرپارہے ہیں۔ رمضان المبارک کو صبر و مواسات اور ہمدردی کا مہینہ قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود مسلم معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ عجلت پسندی، نفرتیں ، بغض و عداوتیں اپنے عروج پر ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم روزہ بھی رسماً رکھ رہے ہیںورنہ یہ ناممکن ہے کہ انسان خلوص و للہیت کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کے کردار میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو۔
رمضان المبارک کی آمدقریب تر ہے جو اپنے ساتھ عالمی پیمانہ پر خیر و برکت کی نوید و خوشخبری لاتا ہے۔ اسی مناسبت سے مختلف مساجد اور مقامات پر استقبال ماہ رمضان المبارک کے نام سے جلسے ، سمینارز وغیرہ منعقد ہورہے ہیں۔ اس سے زیادہ ہمیں قلب و نظراور فکر و عمل میں شعوری طور پر اپنے کردار کو اُن اعلی صفات سے متصف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو اس ماہ مقدس کا بنیادی تقاضہ ہے۔ استقبال ماہ رمضان المبارک کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ہم عہد کریں کہ اس مرتبہ ہم رمضان المبارک کے روزے رسمی نہیں رکھیں گے بلکہ روزوں کی روح کو سمجھنے اوراس کے مطابق اپنے کردار میں تبدیلی لانے کی حتی الوسع کوشش و سعی کریں گے۔
استقبال ماہ رمضان المبارک کا دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ ہم تقویٰ و طہارت ، اعمال صالحہ اور اور خدمت خلق کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں چونکہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمتوں کا ہے اور رب کی رحمتوں کا حقدار وہی شخص ہوتا ہے جس میں مذکورہ بالا صفات موجود ہوں چونکہ قرآن مجید نے رحمت خداوندی کے حصول کے لیے ان صفات کو شرط قرار دیا ہے۔اور قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ’’اذا فات الشرط فات المشروط‘‘ یعنی جب شرط فوت ہوجاتی ہے تو مشروط بھی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ شرائط و آداب روزہ پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے تاکہ فوائد و ثمرات صیام سے ہم کما حقہ مستفید و مستفیض ہوسکیں۔
استقبال ماہ صیام کا تیسرا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو جلا بخشنے اور عبادات کی ادائیگی میں بہت رغبت و اہمتام اور بغیر توقف نیکیوں میں سبقت لیجانے کی مسلسل کوشش کرنی چاہیے چونکہ حقیقی خیرات و سعادتمندی اسی میں مضمر ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالی ان مبارک ہستیوں کو مغفرت اور اجر عظیم کا مژدہ جانفزا سنا رہا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرتے رہے ان سے مغفرت کا اور اجرِ عظیم کا‘‘ (سورۃ الفتح آیت 29) ۔لیکن عموماً دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جیسے ہی شوال کا چاند نظر آتا ہے مسلمانوں میں نیکیوں کے جذبات آہستہ آہستہ سرد پڑنے شروع ہوجاتے ہیں اور خیرات و حسنات کی چاہت دم توڑنے لگتی ہے جبکہ قرآن مجید متقیوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے یکہ وہ ہمیشہ بھلائیوں میں سبقت لیجانے ہوتے ہیں ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’یہی لوگ جلدی کرتے ہیں بھلائیوں کرنے میں اور وہ بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں‘‘۔ (سورۃ المومنون آیت 61) اگر ہم رمضان المبارک میں انجام دینے والے اعمال صالحہ کو سال بھر جاری و ساری رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو تمام انسانوں کو سال کے بارہ مہینے رمضان المبارک کی پرنور کیفیات و لمحات سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملے گا جو تبلیغ اسلام کا ایک موثر ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
استقبال ماہ صیام کا چوتھا تقاضہ یہ ہے کہ ہم زندگی بھر ہر اس عمل سے اجتناب کریں جو جہنم میں لیجانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ چونکہ رمضان المبارک کا آخیر عشرہ جہنم سے نجات کا دہا ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمانوں آخیر عشرہ کی طاق راتوں میں عبادات کا خاص اہتمام کرتے ہیں ، رب کے حضور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور جہنم سے آزادی کے لیے گڑگڑاکر دعائیں کرتے ہیں لیکن رمضان المبارک کے وداع ہوتے ہیںوہ تمام افعال و اعمال میں مصروف ہوجاتے ہیں جو جہنم میں لے جانے والے ہوتے ہیں۔ جیسے غربا و مساکین کو کھانا نہ کھلانا، حاجتمندوں کی فریادرسی نہ کرنا، نماز نہ پڑھنا، غیبت ، تہمت ، لہو و لعب اور اہل باطل کی مجالس میں شرکت کرنا، دین اسلام کا مذاق اڑانا یا ان سرگرمیوں میں ملوث افراد کی حمایت و تائید کرنا، آخرت کے دن کو جھٹلانا وغیرہ۔ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’کہ کس جرم نے تم کو دوزخ میں داخل کیا۔ وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اور مسکین کو کھانا بھی نہیں کھلایا کرتے تھے اور ہم ہر زہ سرائی کرنے والوں کے ساتھ ہرزہ سرائی میں لگے رہتے اور ہم جھٹلایا کرتے تھے روزِ جزا کو یہاں تک کہ ہمیں موت نے آلیا‘‘ (سورۃ المدثر آیات 42-47) ۔
اگر مسلمان واقعتا جہنم میں لے جانے والے اعمال سے اجتناب کرتے ہوتے تو آج مسلم معاشرے میں امیر و غریب کا باطل امتیاز مٹ گیا ہوتا، غربا و مساکین کو کوئی حقارت کی نظر سے نہ دیکھتا، لا یعنی گفتگو میں مصروف ہوکر قیمتی اوقات ضائع کرنے کا چلن عام نہ ہوتا، مسلمان بالخصوص نوجوان نسل سوشیل میڈیا پر خود اپنے دین کا مذاق نہ بناتی۔ان تمام خرابیوں سے مسلم معاشرے کو مستقل طور پر نجات اسی وقت مل سکتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین حکمت عملی، ٹھوس پالیسی ،لائحہ عمل اور تدابیر اختیار کرے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔