رمضان المبارک اور نظام زندگی
بہاروں کی صبحِ تازہ پیش نظر ہے۔موسمِ بہار ’رمضان‘ ہم میں موجود ہے۔ ماہِ رمضان المبارک ہر سال آتا ہے۔ایمان کو تازگی عطا کرتا ہے۔قلب کو نور اور نگاہ کو سُرور عطا کرتا ہے۔ اسلام سے رشتہ و تعلق- پختہ کرتا ہے۔ نعمتوں سے دامنِ اُمید بھر دیتا ہے۔ غریب و امیر ہر ایک کو- ایک دوسرے سے قریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اپنی تمام تر رحمتیں لُٹاتا ہوا رُخصت ہو جاتا ہے۔ اِس طرح تربیت کا مکمل نظام ہے ’ماہِ صیام‘، جس کا مقصد بقیہ سال کے گیارہ ماہ کے لیے بنیاد فراہم کرنا ہے۔اور یوں پورے سال اسلامی طرزِ عمل اختیار کرنے کا ذہن ملتا ہے۔
ہم اسلام کے ماننے والے ہیں۔ لیکن ہمارے عادات، اطوار، طریقے، لباس، بود و باش، طرزِ حیات، تمدن سب اغیار کی طرح ہوتے چلے جا رہے ہیں، الا ماشاء اللہ- اس سلسلے میں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ:
[۱] کیا ہم اپنے شان دار ماضی کی روایات کے مطابق چل رہے ہیں؟ جو ہماری سوسائٹی کی پہچان تھی۔ جن روایات نے ہمیں سارے جہان میں دیانت دار، ایمان دار، با اُصول، انسانیت نواز، نجات دہندہ اور اعلیٰ اخلاق کے حامل کے بطور متعارف کرایا تھا۔جہاں بانی کا منصب اسلامی طرزِ حیات سے ملا۔
[۲] ہم اسلامی احکام پر جب تک عمل پیرا تھے؛ ہمارا تبلیغی مشن اغیار میں کامیاب تھا۔ مشرک و کافر داخلِ اسلام ہو جاتے تھے۔ افسوس! آج ایسے کردار دکھائی نہیں دیتے۔ گرچہ بعض مثالی شخصیات ایسی گزری ہیں جن کے نقوش آج بھی تازہ ہیں۔ ان میں حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نمایاں ہیں؛ جن کے دستِ مبارک پر جہان بھر میں کثرت سے حاملینِ شرک و کفر توبہ کرتے تھے اور داخلِ اسلام ہو جایا کرتے تھے۔ ہمیں اس ماہِ صیام میں ایسے ہی کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ جس سے ہمارے ماضی کی شان دار یادیں تازہ ہو جائیں۔اور مستقبل کی تاباں لکیریں کھینچی جا سکے۔
[۳] حقوق کی پاس داری کے ضمن میں بھی ہم بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ان سے غافل ہیں۔ غور کریں! کہ کیا ہم نے کسی سے قرض لیا ہے، کسی کا مالِ ناحق کھایا ہے؟ اگر ہاں تو اسے لوٹا دیں، کسی کا ترکہ ذمہ ہو تو اس کی شرعی طریقے سے ادائیگی کریں۔ کسی کا کچھ مال ذمہ ہو تو اسے بھی دے دیں۔
[۴] ہر یتیم کو اپنا سمجھیں، ہر بیوہ سے ہمدردی کریں، ہر مصیبت زدہ مسلمان کو اپنا بھائی سمجھیں، ہر گرفتارِ رنج و اَلم کی ڈھارس بندھائیں۔ جو قیدو بند کی صعوبتوں میں بلا وجہ مبتلا ہیں ان کی رہائی کی دُعائیں کریں۔
[۵] اپنے معاشرے میں ایسے افراد تلاش کریں؛ جو مفلوک الحال و بے روزگار ہیں؛ انھیں زکوٰۃ کی مد میں رزقِ حلال سے منسلک کریں اس طرح دو فائدہ ہوگا : زکوٰۃ کی ادائیگی ہو جائے گی اور بے روزگار کی کفالت بھی ہو گی۔
[۶] نمازوں کی پابندی کا مزاج بعد کو بھی قائم رکھیں تا کہ موسمِ تربیت کا تربیتی تسلسل باقی رہے۔
[۷] مغربی کلچر کے زیر اثر ایک بڑاطبقہ علما سے دور ہے؛ ماہِ رمضان میں دین سے قربت کا نتیجہ ہے کہ لوگ علما و ائمہ سے قریب ہوجاتے ہیں اس قربت کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی زندگی کو علما کی صحبت میں رہ کر گزاریں۔ ان کی رہنمائی حاصل کریں، ان کی رہبری میں زندگی بسر کریں۔
[۸] دین کے فیصلوں کو دنیوی مفادات پر ترجیح دیں،شریعت کے مطابق زندگی گزاریں۔
[۹] ایسے معاملات جن میں خاص طور پر لادینی حکومت دخل انداز ہوتی ہے؛ ان پر توجہ کے ساتھ شرعی فیصلوں کے مطابق عمل کا ماحول بنائیں۔ بلکہ ہر معاملہ شرعی دائرہ میں قبول و حل کریں تا کہ کورٹوں میں جو رقم برباد ہوئی جاتی ہے وہ بچ سکے اور معاشی ترقی کی راہ ہم وار ہو۔
[۱۰] عمائدین، علما و داعیانِ کرام کی ذمہ داری ہے کہ اچھے برے حالات میں صبر و شکر سے چلنے کا پیغام دیں۔ اس لیے کہ دن بہ دن خودکشی کے رُجحان نے زندگیوں کو مایوسیوں کی نذر کرنا شروع کیا ہے؛ اس سے بچنے کا واحد حل اسلامی زندگی اپنانا ہے۔ اور مایوسی کے اندھیروں سے نکل کر اُمیدوں کے اُجالے میں آنا ہے۔خودکشی کی وجہ بھی دین سے دوری ہی ہے۔
یہ چند پہلو قلم برداشتہ ذکر کیے گئے جن پر عمل کر کے ہم اپنے ماحول کو خوش گوار بنا سکتے ہیں اور ماہِ رمضان المبارک کے برکات و ثمرات سے پورے سال فیض یاب ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزہ، نماز، عبادات، تراویح، سحر و افطار کے فیضان سے مالا مال فرمائے۔عقائد کی درستی کی توفیق دے اور نئی راہوں سے بچائے۔ اسلافِ کرام و اولیاے کرام کی راہ چلائے۔ تربیتی لمحوں کے فیض کو بقیہ دنوں میں بھی عمل کی بزم میں سجانے کی توفیق بخشے۔ اعمالِ صالح کی دعوت اور فکرِ نافع کی ترسیل کی سعادت دے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم