مذہبی جنونیت اور عدلیہ کے وقار کا سوال

بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ہی تہذیبی تنوع، مذہبی ہم آہنگی اور رواداری پر رکھی گئی تھی۔ اس سر زمین پر صدیوں سے مختلف مذاہب، زبانیں اور ثقافتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی بسر کرتی آئی ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں میں جس تیزی سے فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور شدت پسندی کا زہر سماج میں گھولا گیا ہے وہ صرف فکرمندی کی بات نہیں بلکہ ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ عقیدت اور مذہب سے لگاؤ بلاشبہ انسان کی فطری جبلت ہے لیکن جب یہی عقیدہ شدت پسندی کا روپ اختیار کر لے اور دوسروں کے مذہبی نظریات، عقائد یا شعائر کو روندنے لگے تو وہ عقیدہ نہیں بلکہ ایک بیمار ذہنیت کی علامت بن جاتا ہے۔ تشدد کے ذریعے مذہبی جذبات کے اظہار کی اجازت نہ کوئی مہذب سماج دیتا ہے اور نہ ہی کوئی مذہب بلکہ دنیا کے تمام مذاہب تحمل، صبر اور دوسروں کے عقائد کے احترام کا درس دیتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ملک میں ایک ایسا مزاج پروان چڑھ رہا ہے جو مذہب کے نام پر دوسروں کو نیچا دکھانے، انہیں خوفزدہ کرنے اور یہاں تک کہ جسمانی حملوں پر آمادہ ہو جانے کو حق سمجھتا ہے۔ سناتن دھرم جو درحقیقت ایک قدیم فلسفہ اور روحانی نظام ہے اس وقت کچھ شدت پسند عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا گیا ہے۔ وہی سناتن دھرم جس کی جڑیں عدم تشدد، تسامح اور باہمی احترام میں پیوست ہیں آج بعض مخصوص نظریاتی گروہوں کی جانب سے نفرت اور تشدد کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی انتہا پسندی اب ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے دروازے پر بھی دستک دے چکی ہے۔

  حالیہ واقعہ کہ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوائی کو دوران سماعت ایک وکیل نے نشانہ بنانے کی کوشش کی یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی جنون نے اب ان سرحدوں کو بھی پار کر لیا ہے جنہیں مقدس اور محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ ملزم نے جو عدالت میں موجود تھا نہ صرف چیف جسٹس پر جوتا اچھالنے کی کوشش کی بلکہ اس کے بعد دیے گئے بیان میں یہ بھی کہا کہ "ہم سناتن کی توہین برداشت نہیں کریں گے" اس جملے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک وقتی ردِعمل نہیں تھا بلکہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی حرکت تھی، جس کا مقصد سپریم کورٹ کے وقار کو مجروح کرنا اور ملک میں ایک خوفناک پیغام دینا تھا: "جو بھی سناتن دھرم پر سوال اٹھائے گا وہ نشانہ بنے گا"۔ یہ حرکت محض ایک انفرادی شخص کی جانب سے کی گئی شرارت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک مخصوص نظریاتی ذہنیت کار فرما دکھائی دیتی ہے۔ اس ذہنیت کو ہوا دینے والی بھگوا تنظیمیں جن کے بیانات اور حرکات آئے روز خبروں کی زینت بنتے ہیں ملک میں ایسا ماحول بنا چکی ہیں جہاں اختلافِ رائے کو غداری، تنقید کو توہین اور عدالتی تبصرے کو مذہبی گستاخی قرار دے دیا جاتا ہے۔

  چیف جسٹس بی آر گوائی کا جس معاملے میں تبصرہ تھا وہ دراصل ایک قدیم مندر کی مورتی کی بحالی سے متعلق تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا کہ چونکہ مذکورہ مقام آثارِ قدیمہ کے دائرے میں آتا ہے اس لئے بغیر متعلقہ ادارے کی منظوری کے کوئی بھی بحالی کا کام ممکن نہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے مبینہ طور پر کہا کہ اگر تم واقعی بھگوان وشنو کے بھکت ہو، تو پوجا کرو بھگوان خود راستہ نکالیں گے۔ اس جملے کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک ایسے انداز میں پیش کیا گیا جیسے وہ مذہب کی توہین ہو، حالانکہ خود چیف جسٹس نے اس پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کے دل میں تمام مذاہب کے لیے برابر احترام ہے اور ان کی نیت کسی بھی مذہب کی دل آزاری نہیں تھی۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر زہریلی مہم چلائی گئی، انہیں نشانہ بنایا گیا اور بالآخر ایک وکیل کی جانب سے جسمانی حملے کی کوشش کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ملک کا اعلیٰ ترین جج بھی محفوظ نہیں؟ اور اگر چیف جسٹس کو بھی نظریاتی ہجوم کا سامنا ہے تو پھر عام شہری کے لیے کیا بچتا ہے؟ اس واقعے نے ملک کے باشعور حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سینئر وکلاء نے کھل کر اس کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہو اور ملزم کے ساتھ سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ بعض قانونی ماہرین نے تو یہاں تک کہا کہ یہ محض عدالت پر حملہ نہیں بلکہ پورے عدالتی نظام، اس کی غیر جانبداری اور وقار پر ایک سوچا سمجھا حملہ ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے واضح پیغام دینا چاہیے کہ عدلیہ کو کسی بھی قسم کی نظریاتی یا مذہبی بلیک میلنگ کے آگے جھکنے نہیں دیا جائے گا۔ دوسری جانب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ واقعہ صرف عدلیہ کے خلاف تھا یا اس کے پیچھے ذات پات، نظریاتی بالادستی اور سیاسی مقاصد بھی کار فرما تھے؟ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ چیف جسٹس بی آر گوائی چونکہ ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کے خلاف یہ حرکت ایک خاص ذات پات کے زعم میں مبتلا طبقے کی تنگ نظری کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔

   آج ملک کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی، نفرت انگیزی اور عدم برداشت کے اس سرطان کا علاج کرے جو بتدریج پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ اگر عدلیہ جیسا ادارہ بھی اس زہر سے متاثر ہو گیا یا اسے کمزور کرنے کی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک کے جمہوری ڈھانچے کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ یہی وقت ہے کہ معاشرہ، حکومت، میڈیا اور خاص طور پر عدلیہ ان عناصر کے خلاف متحد ہو جائیں جو مذہب کے نام پر نفرت کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی، عدلیہ کی خودمختاری اور مذاہب کا باہمی احترام یہی وہ ستون ہیں جن پر ہندوستان جیسا عظیم ملک کھڑا ہے۔ اگر یہ ستون ہلنے لگے تو پھر نہ قانون بچے گا، نہ انصاف، نہ جمہوریت اور نہ وہ مشترکہ تہذیبی ورثہ جس پر ہم ناز کرتے ہیں۔ کیونکہ سڑک پر چلتے عام آدمی سے شروع ہونے والی نفرت کی آگ جو کبھی صرف کچھ مخصوص علاقوں تک محدود تھی اب اس کا دھواں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اداروں تک جا پہنچا ہے۔ وہی سپریم کورٹ جسے آئین کا محافظ سمجھا جاتا ہے، وہی چیف جسٹس جو عام آدمی کی آخری امید ہوتے ہیں آج خود اس زہر آلود فضا کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ ایک وکیل کا ایک عمل جو شاید اس کے نزدیک محض ایک احتجاج، ایک اختلافِ رائے یا ایک "سیاسی اسٹینڈ" ہو دراصل وہ طمانچہ بن گیا ہے جو صرف کسی فردِ واحد کے چہرے پر نہیں بلکہ پورے عدالتی نظام، انصاف کے توازن اور آئینی وقار پر مارا گیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ وکیل کس مکتبِ فکر سے تھا یا اس کے نظریات کیا تھے سوال یہ ہے کہ کیا اب عدالتی ایوان بھی اس زہر سے محفوظ نہیں رہے جس نے گلیوں، کوچوں، اسکولوں اور بازاروں میں پہلے ہی عام مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے؟

   ہم نے وہ دن دیکھے ہیں جب کسی غریب، مظلوم یا اقلیتی شہری کو جب کوئی اور ادارہ انصاف نہ دے پاتا تو لوگ امید سے سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے تھے۔ وہاں کا ہر ستون، ہر جج کی کرسی اور ہر لفظ جو کورٹ روم میں گونجتا تھا ایک اعتماد دیتا تھا کہ "اب انصاف ملے گا" لیکن آج جب خود چیف جسٹس کی سلامتی اور ان کے سفر میں ہونے والی ایک مبینہ سازش پر سوال اٹھنے لگیں تو سوچنے کی بات ہے کہ یہ آگ اب کہاں جا کر رکے گی؟ اور سب سے بڑا سوال اب عام آدمی کہاں جائے گا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نفرت کا یہ زہر ہمیشہ ایک ہی سمت بہتا ہے؟ کبھی کسی مسلمان طالب علم کی داڑھی نشانہ بنائی جاتی ہے، تو کبھی کسی لڑکی کے حجاب پر انگلی اٹھتی ہے۔ کبھی کسی معصوم کو گائے کے نام پر پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے، تو کبھی کسی کے کاروبار کو صرف اس کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور اب؟ اب وہ ادارہ جس کے دروازے ہر مظلوم کے لیے کھلے تھے، وہاں تک یہ نفرت اپنی چاپ چھوڑنے لگی ہے۔ یقیناً جو کچھ ہوا وہ صرف ایک واقعہ نہیں ایک علامت ہے۔ ایک علامت اس گھٹن کی جو برسوں سے پیدا کی جا رہی ہے۔ ایک علامت اس سچ کی، جسے بار بار جھٹلایا گیا اور ایک علامت اس اندھیرے کی جو اب آئینی ستونوں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا صرف مسلمانوں کو نہیں ہر اُس شخص کو جو اس ملک کے آئین پر یقین رکھتا ہے، جو قانون کی بالادستی میں ایمان رکھتا ہے اور جو عدل و انصاف کو کسی مخصوص مذہب، فرقے یا طبقے کی میراث نہیں بلکہ سب کی امانت سمجھتا ہے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے اس ایک عمل کو معمولی جانا، تو کل کو وہ وقت دور نہیں جب عدالتوں میں فیصلے نہیں، نظریے بیٹھا کریں گے۔ جب جج صاحبان کی حفاظت پر بحث نہیں ان کے نظریاتی رجحانات پر حملے ہوں گے۔ جب سچ بولنے والا محض وکیل یا صحافی نہیں، خود جج بھی خوف کی گرفت میں ہوگا۔ آج یہ صرف چیف جسٹس کا معاملہ نہیں بلکہ پوری عدلیہ کی آزادی، غیر جانبداری اور وقار کا معاملہ ہے۔ یہ اس اعتماد کا مسئلہ ہے جو کروڑوں ہندوستانی دلوں میں سپریم کورٹ کے لیے بسایا گیا ہے۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب اس پر بھی خاموشی اختیار کریں گے؟ یا اب  ہم بھی آواز اٹھائیں گے اس انصاف کے لیے جو صرف کتابوں میں نہ رہے بلکہ عدالتوں میں زندہ ہو؟ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے ایک شہری کی حیثیت سے، ایک انسان کی حیثیت سے اور سب سے بڑھ کر ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter