تحفہ!ایک انمول جذبہ - قسط 1
انسانی زندگی میں تحائف کے لین دین یا تبادلے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔آج کے تیز رفتار دور میں جہاں انسانی جذبات کو مادیت پر فوقیت دی جاتی ہے، تحفہ واحد ایسی چیز ہے جو نہ صرف آپکے جذبات کی بھرپورعکاسی کر تاہے بلکہ تحفہ وصول کرنے والے کو بھی آپکے احساسات کی قدر ہوتی۔تحفہ خوشی کا احساس دلاتا ہے۔لینے والے اور دینے والے دونوں کے ما بین محبت بڑھاتا ہے۔تحائف کا تبادلہ دوستی، تعلق اور رشتے کو مضبوط و مستحکم رکھتا ہے۔
تحفہ کیا ہے؟
تحفہ سے مراد کوئی بہت عمدہ اور اعلیٰ چیز ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز تحفہ ہے جو خلوص ومحبت کے ساتھ کسی کو پیش کی جائے چاہے وہ کوئی معمولی چیز ہی کیو ں نہ ہو۔ دیکھنے میں شاید وہ چیز چھوٹی، حقیراور معمولی محسوس ہواگر وہ تحفہ میں دی گئی تو وہ ہر گز حقیر نہیں ہو سکتی۔ تحفہ ہر گز حقیر نہیں ہو سکتا، وہ اسلئے کہ جس آدمی نے آپکو تحفہ دیا ہے یہ آپ کے تئیں اسکے خیال اور تعلق کی علامت ہے، آپکے تئیں اسکے جذبات کا اظہار ہے۔ یہ تحفہ دینے والے اور لینے والے کے آپسی یگانگی اور لگاؤکی یادگار ہے۔ تحفہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو یاد رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ تحفہ خود تحفہ دینے والے کی محبت کو اور تحفہ قبول کرنا قبول کرنے والے کی خوشی کو ظاہر کرتا ہے۔ امام بیھقی کی سنن الکبریٰ میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” تھادوا تحابوا“آپس میں تحفہ دو اور محبت عام کرو (سنن کبریٰ ومسند ابی یعلیٰ وشعب الایمان) ۔
ایک دفعہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انکی کنیزنے ایک پھول پیش کیا آپ نے اسے سونگھا اور پھر کہا ”اے کنیزآج میں نے تجھے آزاد کردیا“اس وقت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپکے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے عرض کیا:آپ نے اس کنیز کو خریدتے وقت کافی رقم خرچ کی ہوگی اور صرف ایک پھول کے بدلے میں اسے آزاد کر دیا؟آپ نے فرمایا میرے نانانبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:”جو شخص تمہیں تحفہ دے اسے اس سے بہتر تحفہ دو ورنہ اسکا تحفہ واپس لو ٹادو“چنانچہ میں نے اس کنیز کو اس تحفہ سے بڑھکر تحفہ دیا۔اور ایک کنیزکیلئے ”آزادی“سے بڑھکر بڑا تحفہ کچھ نہیں ہوسکتا۔
تحفہ تعلق ومحبت،عقیدت و احترام اور اعزاز و اکرام کے اظہار کا انتھائی لطیف و حسین ذریعہ ہے۔تعلقات کے استحکام اور رشتوں،ناتوں کو تقویت دینے میں اس کا کوئی جواب نہیں۔یہ دلوں میں پیار والفت کو پیدا کرتا اور رنجش وغلط فہمی کے دبیز چادر کو بآسانی چاک کر دیتا ہے۔اسکے علاوہ حوصلہ و عزائم میں نئی روح پھونک کر اسے شکست و ریخت سے بچاتا ہے۔حضور ﷺ نے تحفہ کی اپنے قول وفعل سے حوصلہ افزائی کی ہے۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے: ”تصافحوا یذہب الغل وتہادواتحابوا وتذہب الشحناء“ ترجمہ: مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ دور ہوگا،ہدیہ کا تبادلہ کرو اس سے آپس میں محبت بڑھیگی اوربغض کا خاتمہ ہوگا(موطأ امام مالک)۔ اور دوسری جگہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”تھادوا فانہ تذھب وغر الصدر“ترجمہ: آپس میں ہدیہ کا لین دین کرو کیونکہ اس سے دل کا بغض وکینہ دور ہوتا ہے(مسند احمد بن حنبل)۔ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: ”تھادوا فانہ تذھب وحر الصدر ولا تحقرن جارۃ لجارتھا ولو فرسن شاۃ“ترجمہ: ہدیہ کے لین دین سے عداوت دور ہوتی ہے ا ور اپنے پڑوسی کوکوئی چھوٹی چیز دینے کو بھی حقیر نہ سمجھے(صحیح البخاری،جامع ترمذی)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”کان رسول اللہ ﷺیقبل الہدیۃ ویثیب علیہا“ ترجمہ: رسول ﷺہدیہ قبول کرتے تھے اور اس پر بہتر جائزہ بھی دیتے تھے(صحیح البخاری)۔اور دوسری جگہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ”لودعیت الی کراع او ذراع لاجبت ولو اہدی الی ذراع اوکراع لقبلت“ ترجمہ: اگر مجھے مرغی یا بکری کے بازو کی طرف یا پائے کی طرف دعوت دی جاتی تو میں اس کا جواب دیتا اور اگر ہدیہ کی جاتیں تو میں اسے قبول کرتا۔اس سے معلوم ہوا کہ تحفہ قبول کرنا یا کسی کی دعوت کا جواب دینا دونوں سنت نبویہ مطہرہ سے ہے اور اسی طرح تحفہ دینا یادعوت دینا بھی سنت ہے۔توپھر کیوں نہ ہم اس پیاری سنت پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں” جو کوئی تمہارے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو تم بھی ا سے بھلائی سے جواب دو اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کیلئے دعا کرتے رہویہا ں تک کہ تمہیں لگے کہ تم نے صحیح طور پر اسکا جواب دیا ہے“(ابو داؤد،سنن نسائی)۔ یہاں پربھلائی کرنے سے مراد قول و فعل یا کوئی تمہیں تحفہ دے تو تم بھی ا سے اس سے اچھا تحفہ دوجیسا کہ اس نے تمہیں دیاتھا،اور اگر تمہارے پاس اتنی استطاعت نہ ہوتو اس کیلئے دعا کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں لگے کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ جب کوئی تمہیں کچھ دے یاتمہارا کوئی کام کردے تو تم اسے”جزاک اللہ خیراً“کہہ کردعا دو،جیسا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جس کے ساتھ اچھا معاملہ کیا گیا ہو اور وہ اسکے بدلے میں جزاک اللہ خیراًبولے تو اس نے اسکا شکریہ ادا کرنے کی کافی کوشش کی ہے“(جامع ترمذی)۔
در اصل تحفہ کسی چیز کا نام نہیں بلکہ تحفہ ایک انسانی عمل ہے۔ تحفہ اس جذبہ کا نام ہے جو ہم ایک دوسرے کیلئے رکھتے ہیں۔جب ہم کسی کو تحفہ پیش کرتے ہیں تو اصل میں ہم اس سے اپنے خلوص کے جذبے کا اظہار کرتے ہیں۔ تحفہ ایک ایسے پودے کا پھول ہے جو محبت کی زمین میں اگتا ہے اور خلوص کی فضا میں پھلتا پھولتا ہے۔ خوشی بانٹنے سے اس طرح بڑھتی ہے جس طرح زمیں میں بویا ہوا بیج فصل بنتا ہے اوریہی خوشی بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے ”تحفہ“۔ ہر انسان تحفہ لینا اور دینا پسند کرتا ہے۔ ہمارامذہب اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں اسکے ماننے والوں کے لئے ہر چیز، ہر شیء کا طریقہ واضح طورپربتایا گیا ہے۔ اسلام نے ہمیں تحفہ سے متعلق امورمیں بھی رہنمائی کی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ہمیں ہر ایک کام کرنے کا طریقہ بتایا ہے اور ہر ایک چیز کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ہدیہ دینے کی حکمت کے بارے میں ارشاد فرمایاکہ اس سے محبت بڑھتی ہے ویسے ہی ہدیہ قبول کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔آپ ﷺ خود شخصی طور پر ہدیہ قبول فرماتے تھے اور دوسروں کو ہدیہ دیتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہىں کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور ہدیہ دیتے بھی تھے(صحیح البخاری)۔ تحفہ قبول کرنا اور دینا اسلام کی تعلیمات کا ایک اہم جزء ہے کہ اس سے آپس میں بھائی چارہ اورمحبت پیدا ہوتی ہے۔
آج کل کے اس بارونق و مصروف دنیا میں جہاں ہر انسان اپنے کام میں منہمک رہتا ہے اور بہت ہی دباؤ میں رہتا ہے ایسے انسان کا اپنے رشتہ دار، دوست واحباب سے تعلقات،رشتے ناطے کو مضبوط و پختہ رکھنے کا ایک آسان طریقہ تحفہ ہی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں تعلیم فرمایا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”تھادوا فان الھدیۃ تذھب وغر الصدر وفی روایۃ ”وحر الصدر“ ترجمہ: آپس میں تحفہ دو کیونکہ بے شک تحفہ آپس کے رنجش،بغض و کینہ کو دور کرتا ہے (مؤطاامام مالک،مسند احمد بن حنبل)۔اور دوسری جگہ ام حکیم بنت وداع الخزاعیہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :میں نے رسول اللہ ﷺکو کہتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے ہیں: ”تھادوا فان الھدیۃ تضعف الحب وتذھب بغوائل الصدور“ ترجمہ: آپس میں تحفہ دو کیونکہ تحفہ محبت کو دو بالا کرتا ہے اور دل سے بغض وکینہ کو دور کرتا ہے۔(معجم الکبیر للطبرانی)
تحفہ کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ اسے قبول کیا جانا چاہئے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ دعوت قبول کرو اور تحفہ مت لوٹاؤ (الادب المفرد للامام البخاری)۔اسی طرح کسی کو تحفہ دینے کے بعداسے واپس طلب کرنا برا فعل ہے۔تحفہ واپس لینے کی بہت سی وعیدیں آئی ہىں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺسے یہ بات نقل کرتے ہىں کہ: ”العائد فی ھبتہ کالعائد فی قیۂ“ ترجمہ: اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینے والا اپنی قئ کو چاٹنے والے کی طرح ہے (صحیح البخاری)۔اسی طرح دوسری جگہ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”العائد فی ھبتہ کالکلب یقئ ثم یعود فی قیۂ“ترجمہ: کہ اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کوواپس لینے والا اس کتے کی مانند ہے جو ایک بار قئ کرے پھر اسی کو دوبارہ چاٹ لے(صحیح مسلم)۔
جارى ...