شادی لڑکی کی، پسند اہل خانہ کی
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد
نکاح خدا تعالی کی عظیم نعمتوں سے ایک ہے۔ اس کی اہمیت اور منزلت کو سمجھنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی شروعات ابتدائے کائنات کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہوئی اور اب تک سلسلہ جاری ہے۔ بس اتنا ہی نہیں بلکہ یہ پاکیزہ عبادت دائمی جنت میں بھی باقی رہے گی اور جنتی جوڑوں کی شادیاں بھی کی جائیں گی، جہاں جنتی خوراک، جنتی پوشاک اور رب ذوالجلال کی لامتناہی رحمتوں کی بارشوں کا نزول ہوگا اور ہر کوئی خوش وخرم ہوگا۔ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے رشتے کو اپنی سنت بتایا اور کہا "نکاح میری سنت میں سے ہے، پس جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں"۔ پھر نکاح اس لیے بھی بڑی منصبت کا حامل ہے کہ اس کی وجہ سے شوہر اور بیوی اپنی نسل کو آگے بڑھاتے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کی اولادِ صالح سے خدا تعالی کے ذکر کو تسلسل ملتا ہے اور اس کی عبادت اور پرستش قائم رہتی ہے۔ اولاد کی ایک ایک نیکی کا ثواب والدین کے سر جاتا ہے۔ نکاح کا اولین مقصد یہ بھی ہے کہ عورت و آدمی اپنی پاک دامنی برقرار رکھ سکیں اور نفسیاتی خواہشات کے ہتھے چڑھ کر اپنی عزت و آبرو کو پامال نہ کردیں اور نہ ہی شیطان کے قبضے میں آ کر فعل بد کے شکنجے میں گرفتار ہو کر رہ جائیں۔
ان تمام حقیقتوں کے باوجود ایک وبائے ناسور اس دور حاضر میں یہ پھیلی ہوئی ہے کہ شادی کے وقت لوگ کاروباری ذہن کا استعمال کیا کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ہر کوئی چاہتا ہے میری بیٹی کی شادی میرے خاندان میں موجود فلاں شخص سے ہو تو وہ خوش رہے گی، یا اس امیر زادہ سے ہو جس کے گھر دولت کی فراوانی ہے تو وہ خوش رہے گی۔ والدین کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ خواہی نہ خواہی ہماری بیٹی ہاں کر ہی دے اور اپنی پسند اور آرزوؤں کا جہاں دل میں ہی سمیٹ کر رکھ لے۔ یہاں ایک بات اور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پیسوں اور روپیوں کی زیادتی اور کثرت سے سکون اور اطمینان بفرض محال ہی کسی کو مل پاتا ہے اور بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے دست کرم کے بے حجاب تماشوں سے دولت کے ساتھ عیش وآرام بھی میسر کرتا ہے، ورنہ زمانہ کی تلخیوں سے آگاہ ہر انسان کو اس بات کا پورا علم ہے کہ جتنے بھی امیر زیادہ ہوتے ہیں انہیں کبھی کاروبار کی پریشانی، کبھی صحت کی پریشانی یا کبھی خاندانی پریشانیاں جکڑی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالی سے زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اے خدا بھلے ہی میری ساری دولت واپس لے لے مگر مجھے سکون کی زندگی عنایت فرما۔
اس کے برعکس کتنے غریب ایسے ہیں جن کے پاس مال و دولت بقدر عیش ہی ہے لیکن ان کی زندگی پرسکون اور معتدل ہوا کرتی ہے اور ان کا گھر جنت کا ٹکڑا بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بات پیسوں اور روپیوں کی زیادتی کی نہیں بلکہ خداداد برکتوں کی ہے۔ مال و دولت کے ساتھ کوئی بھی سکون سے نہیں رہ سکتا کیونکہ لالچ اسے دن بدن زیادہ کی طرف آمادہ کرتی ہے اور وہ ہر وقت اس سوچ كى گرفت میں رہتا ہے کہ کس طرح میری دولت دگنی ہو جائے اور کس طرح میں اور امیر ودولت مند ہو جاؤں۔ اس کا ذکر خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے "اگر انسان کو سونے کی ایک وادی میسر ہو جائے پھر بھی وہ یہ چاہے گا کہ اسے ایک اور مل جائے"۔ بلکہ ایک دوسری روایت میں آتا ہے "اگر انسان کو مال کی دو وادیاں بھی نصیب ہو جائیں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا"۔
آج کے دور میں لڑکیوں کی شادیاں بس اس بات پر موقوف ہوتی ہیں کہ لڑکا پیسے زیادہ کماتا ہے یا نہیں اور لڑکے والے دولت مند ہیں یا نہیں۔ پھر اگر یہ خیال مثبت ثابت ہوتا ہے تو لڑکی کی شادی بغیر اس کے مشورے کے طے کر دی جاتی ہے۔ لڑکی آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر بناوٹی مسکراہٹ لیے اس مرحلے سے گزر بھی جاتی ہے۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد شوہر اور بیوی میں نااتفاقی پیدا ہو جاتی ہے اور شوہر عورت کی صورت سے بیزار ہوجاتا ہے۔ مرد تو دوسری شادی کر لے گا لیکن بیچاری عورت کیا کرے؟ اس کی تو زندگی جہنم بن کر رہ جاتی ہے اور ساتھ ہی گھر والوں کی بھی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ مسئلہ اتنا سنگین ہو جاتا ہے کہ طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور اس طرح کے مسئلوں سے ہی اسلام سے پرخاش رکھنے والوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اسلامی شریعت اور اس کے قوانین کی عزت تار تار کریں اور شریعت کو غیر مہذب قرار دے کر اسے بدلنے کی کوشش میں یک جٹ ہو جائیں۔ اگر خدا کے فضل سے یہ سب نہیں ہوتا ہے تو پھر بھی شوہر اور بیوی کے درمیان وہ محبت نہیں ہوتی جو صحیح معنوں میں ازدواجی زندگی میں ہونی چاہیے۔ معاشرہ انہیں ذلت و رسوائی کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کا برا اثر ان کی اولاد پر بھی پڑتا ہے۔ چنانچہ یہ وقت کاروباری اور خاندانی رشتہ کی پاسداری کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا ہونا چاہیے۔
یہ جدید ٹیکنالوجیوں سے لیس زمانہ ہے اور موبائل و انٹرنیٹ نے لوگوں کے ذہن و دماغ پر اپنا جادو چلا رکھا ہے۔ ہزار احتیاط کے باوجود شیطانی وسوسے دل میں کھٹک پیدا کر دیتے ہیں اور معصوم لڑکیاں سوشل سائٹس پر کسی شخص کو پسند کرنے لگتی ہیں۔ یا پھر زمانہ کے بد چلن دستوروں میں ایک دستور محبت کا بھی عام ہو چکا ہے اور لڑکیاں بھی کسی پر فریفتہ ہو جایا کرتی ہیں۔ پھر اس حالت میں جب ان کی شادی بغیر ان کی مرضی جانے کرا دی جاتی ہے اور ان کی خواہشوں کا پاس نہیں رکھا جاتا تو بعد کی ازدواجی زندگی کے حالات بد سے بدتر ہو جاتے ہیں۔ والدین کی تو حتی الامکان کوشش یہی رہتی ہے کہ ان کی بیٹی جہاں بھی رہے خوش رہے۔ پر ان کی خوشی کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھا جائے اور ان سے اصرار کر کے پوچھ لیا جائے اور اگر اللہ کے فضل سے دل میں کوئی نیک اور صالح شخص بسا ہو تو پھر اس کے بارے میں پوری چھان بین کر لینے کے بعد کوشش کریں کہ بیٹی کی پسند کو ترجیح دی جائے اور اس کی خواہش اور خوشی کو مقدم رکھا جائے تاکہ گھر سے جانے کے بعد بھی وہ سسرال میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس کا اخلاق اور جس کا دین تمہیں پسند آ جائے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دو"۔ یعنی دیکھنے والی چیزیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور اخلاق فرمائیں نہ کہ رشتہ داری، دولت اور شہرت۔ خدا تعالی سے یہ دعا ہے کہ ہر کسی کی زندگی پرسکون ہو۔ اگر آپ سرپرست ہیں اور خدا نے آپ کو بیٹی جیسا انمول تحفہ بھی دیا ہے تو ان باتوں پر ذرا غور کریں۔ یا ساری باتیں دوسروں تک پہنچائیں تاکہ شادی جیسے سنگین مسئلہ میں لوگ اندھے پن سے کام نہ لیں اور لڑکیوں کی زندگی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں۔