روزے کا مقصد تقوی کی آبیاری ہے

 

رمضان المبارک کا مقدس وپاکیزہ مہینہ جلوہ بار ہے۔مسلم محلے اور مساجد قمقموں سے جگمگا رہے ہیں۔ نمازو تراویح اور تلاوتِ کلام پاک کی دلآویز نغموں سے مسجدیں گونج رہی ہیں۔ مصلیوں سے مسجدیں آباد ہیں۔ کاش یہی منظر سال بھر برقرار رہتا تو امت مسلمہ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ لیکن افسوس اس بات کا کہ یہ روح پرور منظر کچھ دنوں کا بہار ہے۔ یہ نوپید نمازی بھی چند دن کے مہمان ہیں۔ اگر میں یوں کہوں کہ یہ پہلے عشرہ کے مہمان ہیں تو جھوٹ نہ ہو گا۔ اکثر یہی دیکھنے کو بھی ملتا ہے کہ رمضان کے اوائل دنوں میں پرانے نمازیوں کو نماز پڑھنے کی جگہ میسر نہیں آتی۔ خدا خدا کرکے وہ بڑی مشکلات کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ بالخصوص مغرب کی نماز میں۔ باقی نمازوں کی حالت زار نہ پوچھیں تو بہتر ہے۔یہ تو نماز کی بات تھی۔ اگر ہم رمضان کے روزوں کی بات کریں تو کچھ یہی حالت روزوں کی بھی ہے۔ اوائل دنوں میں روزے رکھنے میں بڑا اہتمام رہتا ہے۔ جیسا دن گزرتا گیا وہ شوق وذوق بھی مدھم پڑھ جاتا ہے ۔ پھر کیا وہی بات ہوئی جس کی عکاسی قلندر لاہوری علامہ اقبال نے کچھ اس طرح کی۔ 


کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمھیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمَضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو، یہی آئینِ وفاداری ہے؟


 امت مسلمہ کی اسی غفلت کو جھنجھوڑتے ہوئے فاضل بریلوی فرماتے ہیں


دن لَہَو میں کھونا تجھے ، شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رزقِ خدا کھایا کِیا ، فرمانِ حق ٹالا کِیا
شکرِ کرم ترسِ سزا ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں


الله تبارک وتعالی نے جہاں روزے کی فرضیت کی بات کی وہاں اختتام پر تقوی پر مہر لگا کر یہ بتا دیا کہ روزے کا کلیدی مقصد حصول تقوی،خوف خدا اور انسانیت کا ہمدردی ہے۔اللہ تعالی روزے میں انسان کو بھوک و پیاس کے کرب سے اس لئے گذار  رہا ہے تاکہ اس کے قلب میں ایثار و قربانی کا جذبہ قوی ہو۔ اسے ان لوگوں کے کرب و تکلیف کا احساس ہو جائے جن کے پاس نہ کچھ کھانے کے لئے ہو ہے ، نہ پہننے کو، نہ سر پر کوئی سایہ ہے۔ نہ بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام ہے نہ علاج معالجے کاکوئی بندوبست۔ روزے کے ذریعے انسانوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ ان میں دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایسا معاشرہ وجود میں آئے جس کی بنیاد باہمی محبت، انسان دوستی، مروت، دردمندی اور غم خواری پر ہو۔ یہی احساس پیدا کرنا روزے کی اصل روح ہے۔ اگر یہ احساس فروغ نہیں پاتا تو بقول علامہ اقبال:


روح چوں رفت از صلوٰة و ازصیام
فرد ناہموار، ملت بے امام


ترجمہ : جب نماز و روزے سے روح نکل جاتی ہے تو فرد نالائق و ناشائستہ اور قوم بے امام ورہنما ہو جاتی ہے۔“
گویا روزہ محض بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ تقوی پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ غریبوں کی ہمدردی وغمخواری کا نام ہے ۔ اور یہی مذکورہ بالا اشیاء روزے کی جان اور روح ہیں۔ اس کے بغیر روزہ محض پیاس اور بھوک ہے۔
اب ذرا روزے کی فرضیت والی آیت بھی پڑھ لیتے ہیں۔ تاکہ بات عیاں وبیاں ہوجائیں۔ پروردگار عالم کہتا ہے۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ:ترجمہ؛اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے (سورۃ البقرۃ :183 ) اس آیت میں صاف لفظوں میں بیان کردیاگیا کہ روزہ کا مقصد کیا ہے؟ تو سنئے روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ جب وہ اپنے نفس اور اس کے بے جا خواہشات وشہوات پر قابو پالیں تو گویا اس نے جنت حاصل کرلیا کیونکہ جس نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکا اس کے بابت قرآن کہتا ہے۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔(سورۃ النازعات :41-42)
اب ذرا تقوی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بات مزید واضح ہوجائیں۔ تقوی کی مختلف علماء کرام نے الگ الگ تعریفیں کی ہیں۔ جن میں چند پیش خدمت ہیں۔ تقوی کہتے ہیں : اللہ تعالی کے اوامر کے امتثال کوبقدر استطاعت ہر حکم کی بجاآوری کے ذریعہ  اور اللہ کے نواہی سے اجتناب کو بقدر استطاعت ہر اس چیز کو ترک کرکے جس سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے ۔ پس جس نے ایسا کیا وہ متقین میں سے ہے۔(دلیل الفالحین لطریق ریاض الصالحین:۱/۲۵۰)
   حضرت عمر بن عبد العزیزؒنے فرمایا: اللہ کاتقوی دن میں روزہ رکھنے، رات میں عبادت کرنے اور رات و دن ریاضت ومجاہدہ کرنے سے نہیں ہے؛ بلکہ اللہ کا تقوی اس چیز کو چھوڑنا ہے جو اللہ نے حرام کیا ہے اور اس چیز کو ادا کرنا ہے جس کو اللہ نے فرض کیا ہے  اور جس شخص کو اس کے بعد خیر اور بھلائی کی توفیق ملی تو وہ خیر ہی خیر ہے۔(الدر المنثور:۱/۶۳۔ جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلیؒ:۴۰۰)   
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: تقوی یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو کسی سے بہتر اور افضل مت سمجھو۔  ( تفسیر مظہری: ۱/۲۴) مذکورہ بالا تعریفات سے تقوی کی وضاحت ہوگئی۔ اب ذرا متقی کون ہے۔ اور متقی کو کیسے پہچانیں۔ اس کی بھی چند علامتیں ہیں۔ وہی علامتیں تقوی کا معیار بھی ہیں۔تو سنئے دو عظیم بزرگانِ دین کے قول کو ہم تفسیر در منثور سے نقل کرتے ہیں تاکہ بات اظہر من الشمس وامس ہوجائیں۔ تو سنئے اہل تقوی کی علامت کیا ہیں؟؟ حضرت مالک بن انسؒ، وہب بن کیسان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو نصیحت لکھ کر بھیجی،جس کا مضمون یہ تھا:بعد حمد و صلاۃ! بے شک اہلِ تقوی کی کچھ علامتیں اور نشانیاں ہیں ، جن کے ذریعہ وہ پہچانے جاتے ہیں ، اور جن کے ذریعہ خود اہلِ تقوی اپنے اندر تقوی کو پہچان پائیں گے۔ (۱) جو شخص بلا اور مصیبت پر صبر کرے (۲) اللہ کا فیصلہ اور نوشتۂ تقدیر پر راضی رہے (۳) نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے (۴)  اورقرآن کے حکم کے سامنے سرنگوں ہو جائے اور اس پر عمل کرے (الدر المنثور: ۱/۶۲)
حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سے مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! آدمی کے تقوی پر تین چیزوں کے ذریعہ استدلال کیا جاتا ہے یعنی جس آدمی میں تین علامتیں پائی جائیں اس کو متقی کہا جائے گا: (۱)جو چیز (یعنی حادثات اور واقعات ) اس کو پیش آئے اس بارے میں اللہ پر اچھی طرح توکل کرے (۲)اللہ نے جو کچھ اس کو عطا کیا ہے اس پر اچھی طرح راضی رہے (۳) اور جو چیز اس سے فوت ہوجائے اس میں اچھی طرح زہد اختیار کرے، اس سے بے رغبتی ظاہر کرے (الدر المنثور: ۱/۶۲)
ہم نے آپ کے مطالعے کی میز پر تقوی کی تعریف اور متقی کی علامتیں بیان کی تاکہ آپ کو تقوی کی مکمل بآسانی شناسائی ہوجائیں۔ اب ہم تقوی کے تین اہم درجات بھی بیان کرکے اس عنوان کو اختتام کی طرف لے جاتے ہیں۔ تو سنئے علامہ قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمہ اللہ تقوی کے درجات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تقوی کے تین درجے اورقسمیں ہیں : (۱)شرک سے برأت ظاہر کرکے دائمی عذاب سے بچنا اور نجات پانا۔اللہ تعالی کا قول: ’’وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی‘‘ اور اللہ نے ان مومنوں کو پرہیزگاری کی بات یعنی تقوی پر قائم رکھا۔ اسی معنی پر محمول ہے۔ (۲) ہر قسم کے گناہ سے بچنا یہاں تک کہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق صغائر سے بھی احتراز کرنا، چاہے ان کا تعلق عمل سے ہو(جیسے شارب پینا، سود کھانا) یا ترکِ عمل سے ہو(جیسے غیبت نہ کرنا، رشوت نہ لینا)۔ اور عرف میں اسی کو تقوی کہتے ہیں اور یہی معنی ہیں اللہ تعالی کے اس قول کے: ’’وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی آمَنُوْا وَاتَّقَوْا‘‘۔ اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیز گار ہوجاتے (۳) اور تیسرے درجے کا تقوی یہ ہے کہ بچے اس چیز سے جو اس کے باطن کو حق (اللہ) سے غافل کردے اور اپنے نفس اور پورے جسم کے ساتھ دنیا سے بے رغبت وبے تعلق ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ اور یہی حقیقی تقوی ہے، جو اللہ تعالی کے اس قول سے مطلوب ہے:  ’’ یَا أُیُّہَا الْذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ‘‘۔  یعنی اے مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔(تفسیر بیضاوی۱/ ۳۶)
ان تمام باتوں کو بیان کرنے کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ آپ تقوی کو سمجھیں اور اس کے حصول یابی کے لیے تگ ودو ل میں لگے رہیں۔ اور ضروری اس لیے بھی تھا کہ آج ریاکاری ودکھاوے کا زمانہ ہے تو کوئی ڈھونگ وڈرامہ بازی کو تقوی نہ سمجھ بیٹھیں۔ اس لیے ہم نے تفسیر کی ضخیم کتابیں گھنگال کر آپ کے سامنے اس کا خلاصہ پیش کیا۔ تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ روزہ کا کلیدی مقصد تقوی اور انسانی ہمدردی وغمخواری کی آبیاری ہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے روزے کی فرضیت کے ساتھ تقوی کو جوڑ کر بیان کیا۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم روزے کے اہتمام کے ساتھ تقوی سے اپنے دل کو منور کرنے کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہمیں اس کا خوف اور خشیت ربانی سے مالا کرے۔ روزے کے صحیح مقصد تک ہمیں رسائی عطا فرمائے آمین

 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter