معرکۂ بدر!

 اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اپنا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم بھیج کر بابِ رسالت مکمل کر دیا۔ بہاروں کی زمیں پر انبیا کی آمد ہوتی رہی۔ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھروں کی زمیں پر بھیجا۔ ریگ زارِ عرب میں بھیجا۔ اہلِ باطل کے معبودانِ باطلہ بھی پتھر کے تھے۔ سچائی کا آوازہ بلند ہوا۔ حرا کی وادیوں سے علم ویقیں کا اُجالا پھیلا۔ وادیِ مکہ مکرمہ نغماتِ توحید سے گونج گونج اُٹھی۔ سردارانِ قریش، آقایانِ کفر لرزہ بر اندام ہو گئے۔ اُنھیں پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ فطرت ایک آنکھ نہ بھائی۔ جور وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ایذا دی گئی۔ سَتایا گیا۔ سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ ظلم شباب کو پہنچا۔ ہجرت کا عظیم مرحلہ پیش آیا۔ اوّل جانبِ حبشہ ہجرت کی گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرما ہوئے۔ جو ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اہلِ مدینہ مسرور ہو اُٹھے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ وادیِ طیبہ -طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا- کے والہانہ نغموں سے گونج گونج اُٹھی۔ اور یہ نغمۂ مدحت بھی بچیوں کی زباں پر جاری تھا  ؎
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَّنِیْ النَّجَّارٖ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارٖ

    "ہم خاندانِ بنو النجار کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے۔"

    ابھی ہجرت کا مرحلۂ شوق جاری تھا۔ اصحابِ رسول کی املاک کو کفار نے ضبط کرنا شروع کیا۔ اسلام کے خلاف ان کی ریشہ دوانیاں حدیں پار کر گئیں۔ رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جرأت کی جا رہی تھی۔ دوسری سَمت زنگ آلود دل مائل بہ اسلام تھے۔ قبولِ اسلام کا کارواں تیزگام ہو رہا تھا۔ خطۂ عرب ایسے انقلاب سے گزر رہا تھا جس کے خوش گوار اثرات جلد ہی پوری کائنات پر رونما ہونے والے تھے۔ کفار نے ٹھان لیا تھا کہ اسلام کی روشنی بُجھا دیں گے۔ ناموسِ رسالت کے جتنے دُشمن تھے سب ایک تھے۔ اُن کی نگاہیں جانبِ طیبہ لگی ہوئی تھیں۔ وہ اِس وَہم میں تھے کہ چراغِ مصطفوی بُجھ جائے گا۔ 
عہدِ وفا:

    اہلِ مدینہ نازاں تھے کہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گر ہیں۔ اصحاب و انصار محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے جان نچھاور کرنے کو آمادہ تھے۔ گرچہ اب تک جور و زیادتی اور ظلم و ستم پرصبر ہی کیا گیا تھا۔ لیکن اب تقاضا تھا کہ باطل کو سرنگوں کیا جائے اور ظلم کے پنجوں کو مروڑ دیا جائے۔ ۲؍ ہجری میں حکم الٰہی نازل ہوا کہ ’’خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔‘‘ اس لیے جہاد کے لیے قصد فرمایا گیا۔صحابۂ کرام و انصار نے جاں نثاری کا عہدِ وفا کیا۔ بخاری شریف کی روایت میں یہ الفاظ محفوظ ہیں: ’’ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں؛ جنھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا، ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے۔‘‘ راویِ حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس وقت دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور فرطِ مسرت سے چمک اُٹھا ۔ (بخاری شریف، جلد۲،صفحہ۵۶۴)

    انصار کی نیابت میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے وہ اس طرح ہیں:

  ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی اطاعت کا عہد کر رکھا ہے، جو حکم ہو گا اسے بجالائیں گے۔ آپ بلا تامل اپنا ارادہ پورا فرمائیں۔ ہم دل و جان سے آپ کا ساتھ دیں گے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سارے سمندر میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔‘‘

    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے یہ جاں نثارانہ جوابات سن کر مسرور ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ کے نام پر چلو، تمہیں خوش خبری ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابوسفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطا کروں گا۔‘‘ (زرقانی، جلد۱، صفحہ۶۱۶)

    کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو زیارتِ کعبہ سے روکا، املاکِ مومنین ضبط کیں، مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی تیاری کی، اسلام کے خلاف ماحول سازی کی، رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے، اہلِ ایماں پر ستم ڈھائے کہ وہ دین سے باز آجائیں۔ اسی کے نتیجے میں اسلام کی پہلی جنگ ’’بدر‘‘ کے میدان میں ہوئی۔

معرکۂ بدر:

    مدینہ منورہ سے ۸۰؍ میل کی دوری پر بدر واقع ہے۔ جہاں ۱۷؍ رمضان کو اسلام و کفر کے درمیان عظیم معرکہ ہوا۔ جس میں کفر کو شکست ہوئی۔ فتح اسلامی کا یہ عظیم دن ’’یوم الفرقان‘‘ کہلایا۔ اسلامی فوج ۳۱۳؍ افراد پر مشتمل تھی۔ جن میں ۶۰؍ انصار بقیہ مہاجرین تھے۔ جب کہ کفار ایک ہزار سے کم نہ تھے۔ جن کے پاس بیش قیمت تلواریں، ہتھیار اور اونٹ وغیرہ سامانِ جنگ کثیر تھے۔ مسلمان فرسودہ ہتھیار، قلیل سامانِ جنگ کے باوجود اللہ کی مدد پر مکمل یقین کے ساتھ محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں باطل سے نبرد آزمائی کو تیار تھے۔ 

    میدان میں زبردست حکمت کے ساتھ محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیں آراستہ کروائیں۔ محل وقوع و ماحول کے پیشِ نظر انتظامات فرمائے۔ قریبی ٹیلے پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عریش (سایہ) بنوایا گیا تا کہ میدانِ جنگ کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ اسی مقام پر آج مسجد عریش ہے۔ جہاں پہنچ کر روحانی سکون ملتا ہے۔ ماضی میں ہم نے ۱۷؍ رمضان (٢٠١٦ء) کی دوپہر اصحابِ بدر کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کیا اور محفلِ ذکر سجائی، مسجد عریش کی بہاروں میں کئی ساعتیں گزاریں۔ ؎

جاں نثارانِ بدر و اُحد پر درود
حق گزارانِ بیعت پہ لاکھوں سلام
(اعلیٰ حضرت)

    تین سو تیرہ جاں نثارانِ اسلام ایک ہزار سپاہ سے لڑنے کے لیے پُر عزم تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھڑی ہاتھ میں لیے میدان میں آئے، صفوں کو درست فرمایا۔ سردارانِ کفار کے مرنے کی جگہ نشانات لگائے۔ میمنہ اور میسرہ پر سالار تعینات فرمائے۔ جنگی اُصول دیے۔ ہدایات دیں۔
حق غالب آیا:

    جنگ ہوئی۔ کثیر پر قلیل غالب آئے۔ کفر نے وہ زخم کھائے جس کے نتیجے میں اسلام کا قصرِ رفیع مستحکم ہوا۔ جنگ کا غبار چھٹا تو دیکھا گیا کہ جس مقام پر جس سردارِ قریش کی موت کا فرمایا گیا تھا وہیں وہ قتل ہوا۔ علمِ غیبِ نبوی کی وسعت کا نظارہ دُنیا نے دیکھا۔ اللہ نے فرشتوں کی سپاہ بھیج کر کفر کو مغلوب کیا۔ جو سازشوں کے خوگر تھے ان کی موت اسلام کی شوکت کا پیغام بن گئی۔ ان کی نسلوں نے اسلام قبول کیا۔ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں نچھاور کیں۔ آج بھی معرکۂ بدر عزم و یقیں کے اَن گنت چراغ نصب کر رہا ہے، جن سے روشنی لے کر یہود و نصاریٰ اور فرقہ پرستوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، اور اسلام کے قصرِ رفیع کی حفاظت کی جا سکتی ہے، آج پھر درجنوں طوفان درپیش ہیں۔ ہر روز نئے فتنے ہیں۔ شام و عراق، یمن و فلسطین کی تاراجی کے بعد ایوانِ کفر سربراہانِ مملکتِ اسلامیہ سے متحد ہو کر مزید اسلامی مملکتوں کی تاراجی کو آمادہ ہے۔ آج پھر حرمین کی مقدس زمیں پر مغربیت کا زور ہے- اسیرانِ یہود، یہودی ریاست اسرائیل کے استحکام کا اعلان کر رہے ہیں۔ بیداری کے ساتھ تگ و دَو کی ضرورت ہے۔

جس کا نتیجہ یقیناً اُمید افزا اور عزم کا اشاریہ ثابت ہوگا،  ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نُصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

٭٭٭
یہ مضمون ٢٠١٩ء میں لکھا گیا، حال کے شامیانے میں جزوی ترمیم کے ساتھ پیش کیا گیا- (رمضان المبارک ١٤٤٣ھ)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter