رمضان المبارک اور اہم ہدایات
دنیا کا یہ اصول ہے اگر مہمان اپنے آنے سے قبل آمد کی اطلاع دے دے تو سنجیدہ معاشرہ اس کا دل وجان سے استقبال کرتا ہے۔رمضان المبارک بھی الله کا مہمان ہے جو اپنے آمد کی خبر ماہ رجب سے ہی دینا شروع کر دیتا ہے۔ماہ رمضان اخروی مہمان ہے۔دنیوی مہمان کی آمد پر اگر بروقت تیاری نہ کی جائے تو جس قدر سبکی و شرمندگی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ رب کے مہمان کی آمد پر اگر کماحقہ تیاری نہ کی جائے تو کس قدر افسوس اور خسارے کی بات ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے استقبال اور طلب کے لیے دل سے آمادہ ہوکر ذوق و شوق کے ساتھ رمضان کے احکام ومسائل کا علم حاصل کرنے کا اہتمام کریں۔
ماہ رمضان المبارک آنے سے پہلے اس کی تیاری اور استقبال خود حضور نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑی گرم جوشی سے اس ماہ کا استقبال کیا ہے۔بایں طور دیگر مہینوں کے مقابل اس ماہ میں زیادہ عبادت وریاضت کے لئے مستعدی کا اظہار فرمایا ہے اور اپنے اہل خانہ کو بھی اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار فرمایا کرتے تھے۔حضور صلی الله علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے؛،،اے الله!ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرما۔(مجمع الزوائد)حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:،،رمضان کے مہینے میں میری امت کو پانچ ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔اول:رمضان کی پہلی رات میں الله تعالیٰ ان پر نظرِ کرم کرتا ہے اور جس پر الله نظر کرم کرتا ہے اسے کبھی عذاب سے دو چار نہیں کرتا۔دوم:فرشتے ہر رات و دن اس کے لیے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔سوم:الله اس کے لئے جنت واجب کر دیتا ہے اور جنت کو حکم دیا جاتا ہے:روزہ دار بندے کی خاطر خوب آراستہ و پیراستہ ہو جاﺅ تاکہ دنیا کی مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد میرے گھر اور میری مہمان نوازی میں آرام ملے۔چہارم:روزہ دار کے منہ کی بو الله کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔پنجم:رمضان کی آخری رات روزہ دار کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔فرمانِ رسول اکرم ﷺ: جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں ایک د روازہ کا نام ریّان ہے۔ اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔ایک جگہ فرمایا:جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہئے اس سے بچا تو جو پہلے کر چکا ہے اس کا کفارہ ہوگیا۔(حدیث شریف)
استقبالِ رمضان کے کچھ اہم ہدایات:
رمضان المبارک میں راتوں کی عبادت(تراویح تہجد وغیرہ)کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔اس لئے ان عبادات کو اچھے انداز میں بلا تھکاوٹ سر انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ ابھی سے شب بیداری اور نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے بدن کو عبادات کی کثرت کا عادی بنائیں تاکہ رمضان کی راتوں میں مشکل پیش نہ آئے۔رمضان المبارک میں اوقات کی قدردانی بڑی اہم ہے۔آج کل انٹرنیٹ وسوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہے ہیں۔لہٰذا!رمضان المبارک سے قبل ان کے استعمال کو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کریں۔رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔لہذا!ابھی سے اپنے آپ کو دعائیں مانگنے کا عادی بنائیں نیز یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک سے قبل نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کو زبانی یاد کیا جائے۔کیونکہ مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے اور قبولیت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔خوش نصیب لوگ اس ماہ میں تلاوت کی کثرت کا معمول بناتے ہیں۔لہٰذا!ابھی سے تلاوتِ قرآن کو زیادہ وقت دینا شروع کردیں۔رمضان المبارک سے پہلے ایک اور اہم بلکہ سب سے اہم کام رمضان المبارک کے احکام ومسائل سیکھنا ہے۔یعنی رمضان المبارک کی تمام عبادات کے فضائل واحکام،روزہ رکھنے کے لیے کون سی چیزیں ضروری ہیں؟روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے مکروہ ہو جاتاہے؟تراویح کا کیا حکم ہے اور تراویح کی ادائیگی کا صحیح طریقہ کیا ہے،تراویح میں ختم قرآن کی کیا اہمیت وفضیلت ہے اور تراویح میں کل کتنی رکعتیں ہیں؟اعتکاف کا طریقہ کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں؟اعتکاف کے دوران مسجد سے نکلنا کن حالات میں جائز ہے؟اعتکاف کب اور کیسے فاسد ہو جاتاہے؟ان کے علاوہ اور بھی رمضان المبارک کے بہت سے ایسے احکام ومسائل ہیں جن کا علم نہایت ہی ضروری ہے۔کیونکہ بہت سارے حضرات وہ چیزیں کر گزرتے ہیں جن سے روزہ،تراویح یا اعتکاف فاسد ہو جاتاہے اور پھر مسئلہ معلوم کرتے ہیں حالانکہ اب اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔عقلمندی تو یہ ہے کہ ان عبادات کے آنے سے پہلے ان کے احکام ومسائل سیکھیں۔میں ایک گزارش کروں گا کہ ضروری قسم کی شاپنگ وخریداری رمضان سے پہلے ہی کرلیا کریں اور کوشش کریں کے رمضان میں آپ کو بازار جانا ہی نہ پڑے۔اس طرح کرنے سے آپ گھریلو اور خصوصاً نماز ،روزہ،ذکر اذکار،اور تلاوتِ قرآن اور دیگر عبادات کے لئے یکسو ہو جائیں گے۔دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک کے بابرکت اور پُر رحمت لمحات بازار میں یا بازار جانے کے پروگرام میں ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔کیونکہ روزہ رکھ کر بازار جانے سے ممکن ہی نہیں کہ آپ روزہ کا صحیح حق ادا کرسکیں۔ویسے بھی زمین کے مختلف مقامات میں سے بازار الله کے نزدیک ناپسندیدہ ترین مقامات ہیں۔جبکہ روزے دار الله کے ہاں سب سے پسندیدہ ہوتا ہے۔لہٰذا!سب سے بہترین چیز کا ناپسندیدہ مقام پر ہونا اُس کی اہمیت کو گرا دیتا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟اگر خوشبو کی شیشی کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر رکھ دیا جائے۔میرے خیال میں تو یہ عقلمندی بالکل نہیں ہے۔
اللہ رب العزت کا بنایا ہوا نظام ہے کہ ہرسال رمضان بھی آتا ہے اور پُورا ہوکر ختم بھی ہوتا ہے۔رمضان کی آمد پر اہل ایمان دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔جبکہ حیوانات کی زندگی گزارنے والے جو کھانے پینے کے لئے زندہ ہیں۔آمدِ رمضان پر مشروب وطعام کے نئے طریقے نئی جگہیں ڈھونڈتے ہیں اور اختتام رمضان پر اہل ایمان خصوصی برکات سے محرومی پر کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں لیکن اُنہیں بہت ساری خوشیاں بھی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے رب سے اپنی محنت وکوشش کی قبولیت کی اُمید لگائے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ پیٹو ٹولہ جن کی نگاہ کھانے پینے اور پہننے سے آگے نہیں جاتی وہ چاند رات کی خوشیوں کے نام پر رمضان کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ موٹر سائیکل بھگانا وہ بھی سلنسر نکال کر ایک دوسرے پر آوازے کسنا،ڈیک لگاکر فحش گانے چلا دینا، آتش بازی کرنا،فائرنگ کرنا،شراب نوشی کی محفل سجانا،بلکہ عید کے لئے بھی خصوصی بکنگ کروانا،عورتوں کا ایک دم گھر سے نکل کر تازہ ترین فیشن کی جستجو میں بیوٹی پارلر چلے جانا اور دیگر اس طرح کے فضول ہی نہیں بلکہ الله و رسول کی نافرمانی والے عمل کرنا آخر چاند رات کی خوشی میں شرعاً کیسے جائز ہیں؟یہ تو رمضان کی توہین ہے۔عید کی خوشی کے نام پر کی جانے والی یہ تمام خوشیاں وبال جان ہیں۔نیکیوں کو ختم کردینے کا سبب ہیں۔
اب ذرا دل دماغ کو حاضر کریں اور ٹھنڈے دل سے بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔یقیناً عید کا مطلب خوشی ہی ہے۔مگر کس بات کی خوشی مسلسل توبہ واستغفار کرکے اپنے گناہ معاف کروا لینے کی خوشی ہی اصل عید کی خوشی ہے۔جس خوش نصیب نے اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے آنسو گرا کر اپنے الله کو راضی کرلیا یا رمضان میں بھی کمی کوتاہی کا شکار رہا،مگر چاند رات میں ہی توبہ کرلی عید کی نماز میں رو کر ہی رب کو راضی کرلیا اپنے ایمان کو تازہ کرلیا تو ایسے شخص کو اصل عید کی خوشی حاصل ہوگئی۔اگرچہ اُس کے کپڑے پُرانے ہی ہوں بیشک اُس گھر میں مختلف کھانے نہ پکتے ہوں لیکن جس بدنصیب کی نگاہ فقط کپڑے جوتے کھانے پینے اور ظاہری بناوٹ پر ہی رہی جبکہ الله کے سامنے حضورِ دل سے عید کی نماز پڑھنے اور خطبہ سننے کے بھی توفیق نہ ہوئی تو بھلا اُس کی کیا عید ہے؟اگرچہ وہ سارا دن دوستوں کے پاس ملنے ملانے کے چکر میں خوب گھومتا پھرتا رہے۔یا اُس کے پاس آنے جانے والوں کا خوب تانتا بندھا رہے اور مختلف انواع و اقسام کے ماکولات ومشروبات کے دور چلتے رہیں۔یہ تو جزوی چیزیں ہیں جنھیں ہم نے اصل مقصد سمجھ لیا ہے۔نہیں میرے بھائیو اور بہنوں اور نوجوان دوستو!عید کا مقصد پارکوں میں جانا،چڑیا گھروں کی سیر کرنا،دیگر مقامات پر جاکر آوارگی کرنا،فضول خرچیاں کرکے گل چھرے اُڑانا بالکل عید کا مقصد نہیں،نہ ہی ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے نہ صحابہ کرام نے اس طرح کوئی عید منائی ہے۔چنانچہ اگر الله نے دیا ہے تو ضرور پہنیں اور کھائیں مگر دکھلاوے کے لئے اور دوسروں پر اپنے لباس کی برتری ظاہر کرنے کے لئے نہ پہنیں۔ضرور کھائیں مگر کھاتے کھاتے یاد الٰہی سے غافل ہوکر اپنی فرض نمازوں سے غافل نہ ہو جائیں۔بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے:الله تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو بار بار ماہ رمضان المبارک نصیب کرے اور اس کے فیضان سے مستفیض فرمائے۔آمین۔نوٹ:ایک مسٸلہ غور سے پڑھیں۔افطار میں جلدی کرنا سنت ہے مگر افطار اس وقت کرے جب سورج ڈوب جانے کا اطمینان ہو جائے اذان سن کر ہی افطار کرنا ضروری نہیں۔ بادل کے دن افطار میں جلدی نہ کرے۔