تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟
عنوان سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ کس بے باک صحافی کا سوال ہے۔ کیونکہ اس سوال پر مشتمل ایک فلسطینی نونہال ومعصوم بچے کی ویڈیو خوب وائرل ہوئی جس کی کوئی حد نہیں۔ جب وہ دلخراش ویڈیو گھومتے گھومتے میرے واٹسپ پر بھی پہنچی۔اور جب اس دل سوز ویڈیو پر نگاہیں جم گئیں تو بے تحاشہ زار وقطار اشک کی لڑیاں موسلادھار بارش کی طرح برسنے لگیں۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نم دیدہ نم دیدہ سسکیوں کے ساتھ دعائیہ کلمات نکلنے لگے۔ خدایا رحم فرما۔ معصوم بچوں کی حفاظت فرما۔ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا۔ مولی ارض مقدس کی پاسبانی فرما۔ لشکر ابابیل کو بھیج کر صیہونی قوتوں کو تخت و تاراج فرما۔ یہ محض دعائیہ کلمات نہیں بلکہ میرے دل کی اضطرابی کیفیت کی عکاسی ہے۔ یہ صرف میری کیفیت ہی نہیں بلکہ پورے سنسار کے انسانیت پسند وہمدرد لوگوں کا اظہار خیال ہے۔
تقریباً ایک مہینے سے قلم کی زبان بھی خاموش ہے۔ نوک قلم بھی شرمسار ہے کہ یہ انسانی بھیس میں درندے معصوم بچوں کی معصوم جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ انکے ہاتھ ان مظلوم بچوں کے خون کی سرخیوں سے رنگ ریز ہو نے باوجود وہ درندے اپنے سفاکانہ قتل وغارت گری سے باز نہیں آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے سفاک وجابر اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم جاری کرنے کے باوجود وہ جنگ بندی پر راضی نہیں۔ 75 سال سے مظلوم فلسطینی ان درندوں کی بربریت وسفاکیت برداشت کر رہے ہیں۔ پوری اسلامی دنیا اور حکمران چپی سادھے ہوئے ہیں۔ ابھی چند دن سے امارت اور دیگر چند اسلامی ممالک سے اسرائیل پر دباؤ کی باتیں آرہی ہیں۔ جب حماس نے اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا تو پوری دنیا سے علم احتجاج بلند ہونے لگے۔ ہمارے وزیراعظم مسٹر مودی جی نے بھی اسرائیل کے چند مقتولین پر غم وہمدردی کا اظہار کرنے میں پیش پیش رہے۔ جب اسرائیل نے جواباً غزہ کے ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کردیا۔ آٹھ ہزار سے زائد معصوم وبے گناہوں کو موت کی آخری نیند سلادے۔ بیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو زندگی و موت کے دلدل میں ڈھکیل دیا گیا۔ نہ ان کے بارے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ یا وہ شہید ہوچکے ہیں۔ زخموں میں چور درد سے کراہ رہے ہیں۔
اگر میں غزہ میں جو جارحانہ ظلم و ستم ہورہا ہے اس کی ایک جھلک بھی بیان کردوں تو آپ کا کلیجہ منہ کو آجائے گا۔ یہ مضمون لکھتے وقت بھی اسرائیلی درندے فوج کی ایک سفاکانہ ظلم کی ویڈیو دیکھ کر دل پارہ پارہ ہوگیا۔سننا چاہیں گے وہ کیا ہورہا تھا تو دل تھام کر سنئے ایک درندہ صفت جابر وظالم فوجی مظلوم قیدی فلسطینیوں کی آنکھ پر پٹی باندھ کر انہیں ایک کھائی میں لات مار کے ڈھکیل دیتا ہے اور پھر ان پر گولی جلاکر بے دردی سے قتل کردیتا ہے۔ کہاں گئے انسانیت کی بات کرنے والے؟؟ کہاں گئے وشواگرو کا رٹ لگانے والے؟؟ کہاں گئے حقوق انسانی کی حفاظت کی راگ الاپنے والے؟؟؟ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ میں شدت کے ساتھ تباہی مچانے کا موقف اختیار کرکے عالمی امن و سلامتی کے قوانین وضوابط کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ ان سنگین حالات میں ہندوستان کے وزیراعظم جنگ بندی کے سلسلے میں خاموشی کا موقف اختیار کرکے پورے اقوام متحدہ کے سامنے بھارت کی عزت کو تار تار کردیا ہے۔ مجھے مسٹر مودی سے یہی امید بھی تھی کیونکہ وہ اس کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے اسرائیل کے ہی نقش قدم پر چلتے ہوئے گجرات میں بے گناہوں کے جانوں سے ہولی کھیلی۔ پھر ایسے وزیراعظم سے یہی امید کی جاسکتی ہے اس سے زیادہ اور کیا۔
چلئے خدا ان ظالموں کے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔ جیسے کہ قرآن کہتا ہے ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں ۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔( سورۃ ابراہیم :42)
خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔ یہ یہودی شیطانوں کا فلسطین سے صفایا ہو گا۔ اور عدل وانصاف کی حکومت قائم ہوگی۔
اب وہ دل خراش واقعہ بھی سن لیجئے جس کو ہم نے عنوان بنایا ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک فلسطینی صحافی نے ایک معصوم فلسطینی بچے سے سوال کرتا ہے کہ بتاؤ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے؟ تو وہ فلسطینی بچہ آہیں بھرتے ہوئے جواب میں سوالیہ انداز میں کہتا ہے کہ ہم بڑے کہاں ہوں گے؟؟ بڑے ہونے سے پہلے یہ اسرائیلی درندے ہمیں موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ اور ہم ان کے ہاتھوں بے دردی سے مارے جائیں گے۔ تو پھر بڑے ہونے کا سوال ہی نہیں۔ یہ کسی ایک مظلوم بچے کی درد بھری داستان نہیں بلکہ ہزاروں نہتے فلسطینی مسلم بچوں کی درد بھری آہ و فغاں ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان قیامت خیز حالات میں سعودی حکومت اکتوبر 28 سے فیسٹیول کے نام سے عریانیت وفحاشیت کو عام کر رہی ہے اور ریاض میں رقص و سرود کی محفلیں سجارہی ہے۔ نہ ان مغرب زدہ سعودیوں کو فلسطینی بچوں کی سسکیاں سنا دے رہی ہیں نہ وہاں کی انسانیت سوز واقعات۔ پتہ نہیں توحید کی رٹ لگانے والے ان لال رومال والے حکمرانوں کو کیا ہوگیا۔ مغربیت ان کے رگ وخون میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ انہیں کسی مسلم ملک کی تباہی کی فکر نہیں نہ ہی بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اس کی فکر۔ کیا خوب کہا علامہ اقبال نے
کیا خوب امیر ِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تونام ونسب کاحجازی ہے پردل کاحجازی بن نہ سکا
یہ وہی امیر فیصل بن فہد بن عبد العزیز آل سعود ہے جس نے حجاز میں عریانیت اور مغربیت کو فروغ دیا۔ آج کے سعودی فرمانروا بھی اسی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
ان سنگین حالات میں جہاں سعودی حکومت کا رویہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ قابل ننگ وعار بھی ہے وہیں امریکا سے ایک خوش آئند خبر یہ آرہی ہے کہ امریکا کے مسلم رہنماؤں نے کہا ہے کہ اگر صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقدامات نہیں کیے تو وہ ملک کے لاکھوں مسلمان ووٹرز کو جو بائیڈن کے لیے ووٹ یا فنڈنگ روکنے کے لیے مہم کا آغاز کریں گے۔یہ اعلان ڈیمو کریٹک پارٹی کے مسلم حامیوں پر مشتمل نیشنل مسلم ڈیمو کریٹک کونسل کی جانب سے آرہا ہے۔ ان امریکی مسلمانوں کے حوصلہ وہمت اور انسانیت پسندی کو سلام کرتے ہیں۔ انہیں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا
آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی
کاش سعودی حکومت اور حکمرانوں کو اگر ذرا برابر فلسطینی مسلمانوں کا محبت وہمدردی ہوتی تو وہ ضرور مظلوم و بھوکے فلسطینی قیدیوں کے لئے خورد ونوش کے سامان ارسال کرکے ایک مثال قائم کرتے لیکن اس کے بجائے فیسٹیول کے نام پر ننگا ناچ کھیلا جارہا۔ الله انہیں ہدایت دے۔الحمدللہ کیرلا کے مسلمانوں نے فلسطینی مسلمانوں کے لئے دعائیں بھی کئیں اور خورد ونوش کے ساتھ سامان راحت بھی ارسال کرکے پوری مسلم قوم کے لئے ایک آئیڈیل اور مثال قائم کردیا۔ بالخصوص میں سمستا کیرالا جمعیت العلماء ای کے گروپ اور ایسے ہی انڈین نیشنل مسلم لیگ کے تمام رہنماؤں کو تہہ دل شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ ہمیں بھی ایسی نیک اور صالح قیادتیں عطا فرمائے۔
آخر میں ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار عالم جس طرح تو نے لشکر ابابیل کو بھیج کر ابرھہ کے فوج کو تہس نہس کیا ایسے ہی ایک لشکر بھیج کر ان درندوں کو غارت کر۔ ان کے منحوس وجود سے ارض مقدس کو پاک کر۔ قبلۂ اول کی حفاظت کر۔ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو ان ظالموں سے چھٹکارا عطا فرما۔ جو شہید ہوگئے ان کے درجات بلند فرما۔ جو بے گھر ہوگئے انہیں غیب سے اسباب مہیا فرما۔ بچوں، عورتوں اور معمرین کی حفاظت فرما۔ جو زندہ ہیں انہیں صبر وشکیب کے ساتھ قوت وطاقت عطا فرما۔اے اللہ ہماری دعاؤں کو قبول فرما ہماری صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا فرما۔