بلقیس بانو کیس میں سزا یافتہ مجرمین کی رہائی جمہوریت کو پامال کرنے جیسا ہے

جمہوریت کا یہی تقاضا ہے کہ حکمراں اپنے ہر ایک رعایا کے ساتھ منصفانہ طریقہ اختیار کرے ، ذاتی فیصلے کرنا یہ ڈکٹیٹر شپ کہلاتا ہے ، ایسی حکومت کی عمر بہت کم ہوتی ہے ، جب سے ملک میں آر ایس ، ایس نظریہ والی سرکار آئی ہے بیرون ملک ملک کی شبیہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ابتک ہم دنیا میں اپنی جمہوریت کی بالادستی کی وجہ سے انتہائی مقدس نگاہوں سے دیکھے جارہے تھے مگر موجودہ حکمراں کی ناپاک پالیسیوں کی بنیاد پر ہمیں بہت سے مواقع پر شرمندگی اٹھانی پڑی ہے جو لائق مذمت ہے ۔

ملک پندرہویں اگست کو جب یوم آزادی کا جشن منارہاتھا ، ادھر لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم عورتوں کے حقوق پر بڑی بڑی باتیں کررہے تھے اور اسی سرکار کی ریاستی حکومت گجرات میں زنا بالجبر کے خونخوار مجرمین کو رہا کرکے وزیر اعظم کی حقوق نسواں پر زوردار بیان کا مزاق بنانے میں مصروف تھی یعنی گجراتی حکومت وزیراعظم کو کھلا چیلنج دےرہی تھی کہ آپ حقوق نسواں پر کچھ بھی صفائی دے لیں ہم وہی کریں گے جو ہمیں کرناہے خواہ اس سے جمہوریت کی دیوار ہی کیوں نہ منہدم ہوجاۓ یہ صرف بلقیس بانو کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کی تمام عورتوں کے ساتھ ایک بھدا مزاق ہے جس کے خلاف ملک کو سخت احتجاج کی ضرورت ہے ورنہ یہ حکومت آئیندہ بھی ہمارے حقوق کے ساتھ کھیلواڑ کرتی رہے گی ۔

خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی

اس دور میں جیناہے تو کہرام مچادو

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter