اعراس کا بوجھ

دن بدن ہم پر اعراس کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔۔شخصیتیں اٹھتی جارہی ہیں  اور اعراس بزرگان کی فہرست لمبی ہوتی جارہی ہے۔ایک وقت آئے گا کہ سال کے365  دن اسی مصروفیت میں گزریں گے۔۔کس کس کا عرس منانا ہے اگر چودہ صدیوں میں سے شخصیات کا انتخاب کریں تو 365 ایام بھی ناکافی ہوجائیں ۔۔اگر ماضی کی شخصیات کے عرس کا سلسلہ  نہ بھی شروع کریں توموجودہ زمانے کی شخصیات کا سلسلہ بہت طویل اور نا ختم ہونے والا ہے ہر وصال ایک عرس کا بوجھ بڑھاتا چلا جائے گا۔۔پھر ایک مشکل یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی اصول بھی متعین نہیں ہےکہ کس کا عرس منایا جائے اور کس کا نہیں۔ہر اہل نا اہل کا عرس شروع کیا جارہاہے معلوم ہوتا ہے شرط صرف انتقال پر ملال ہے۔۔علم و فضل۔تقوی و پرہیزگاری۔تصنیف و تالیف۔دینی خدمات۔امت کی رہنمائی کا فریضہ۔ وغیرہ  کا کوئی ریکارڈ نہ ہو تو بھی عقیدت مندعرس کا مستحق سمجھتے ہوئے عرس شروع کردیتے ہیں 

اب یہ جو یوم ولادت کی  سعادت حاصل کرنے کا رجحان فروغ پارہاہے اس سے ہم پر بوجھ دہرا ہوجائےگا ہر شخصیت کے لئے سال میں دو روز صرف ہونگے ایک یوم ولادت دوسرا یوم وصال۔۔اب آپ ہی انصاف سے بتائیےجب ہمارا سارا سرمایہ اعراس اور یوم ولادت ہی پر صرف ہوجائے گا تو ہم دین وسنیت کا بنیادی کام کیسے کریں گے۔۔

بہت عرصہ ہوا ایک دیوبندی سے میری کسی موضوع پر بحث ہورہی تھی تو اس نے دوران گفتگومجھ سے یہی کہا تھا  کہ مولانا آپ لوگ ہمارا مقابلہ کھی نہی کرسکتے۔۔میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آپ کو تو عرس بھی منانا ہے گیارہویں بھی کرنی ہے چھٹی بھی کرنی آپ لوگوں کا سارا سرمایہ تو اسی میں صرف ہوجاتا ہے اور ہم لوگ تو صرف تبلیغ پر صرف کرتے ہیں یا دارالعلوم دیوبند میں دے دیتے ہیں اور کوئی مصرف ہمارا نہیں ہے  ۔۔تو آپ ہم سے مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔اس کی اس بات سے مجھ پر تھوڑی دیر کے لئیے سکتے کی کیفیت طاری ہوگئ  تھی

ابھی رمضان مہینے میں ہماری جماعت کے بزرگ عالم دین حضرت علامہ مفتی عبد الحلیم صاحب کا وصال ہوا۔۔ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ حضرت نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرا مروجہ عرس وغیرہ ہرگز نہ منایا جائے تو یہ سن کر مجھے پے پناہ مسرت ہوئی اور میرے دل میں جہاں حضرت کی عقیدت میں اضافہ ہوا وہیں حضرت کے اخلاص اور ان کی دور اندیشی کا بھی دل قائل ہوگیا۔۔یہی وصیت موجودہ دور کے ہمارے بزرگ کرجائیں تو اہلسنت پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔
ایک بہت بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ یہی ہماری وہ تقریب ہے جسے جاہل عوام اس طرح سے مناتےہیں کہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہورہاہے۔وہ اپنی جہالت کی بنیاد پراسے ایک انتہائی خرافاتی تقریب بناڈالتے ہیں جس سے سنجیدہ طبقہ سنیت سے ازخود بدظن ہوجاتا ہے۔مردوزن کا اختلاط۔ناچ گانا۔باجہ گاجہ۔وغیرہ ۔خاص طور پرصندل میں جو کچھ نوجوان کررہے ہیں اسے دیکھ کر بے شمار لوگ بدمذہبیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں  
ایک بار ممبئ میں بھنڈی بازار سے ایک ایسا ہی صندل گزرہاتھا جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک لاری میں بہت بڑا ڈی جے سسٹم لگا تھا اس میں قوالی بج رہی تھی اور آواز اس قدر بلند اورشدید تھی کہ جب ہم اسکے قریب سے گزرے تو پیٹ میں ارتعاش محسوس ہورہا تھا اور اسی لاری پر بڑے بڑے فوکس لگے تھے اور نوجوان باقاعدہ اس میں رقص کررہے تھے اسے دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔میں کسی صاحب کے یہاں ملنے جارہا تھاجب ان کے  یہاں پہنچا تو سلام کلام کے بعد انھوں نے اسی صندل کا ذکر مجھ سے کیا اور سوال کیا کہ مولانا کیایہ سب جائز ہے؟ صحیح ہے۔؟ میں سمجھ گیا کہ یہ صاحب بھی اسی صندل کی زیارت سے تکلیف زدہ ہیں ۔۔حالانکہ کہ وہ سنی ہیں حضور تاج الشریعہ کے مرید ہیں مگر خرافات ایک ایسی شئ جو سلیم الطبع افرادکے حلق کے نیجے کبھی نہیں اترتی

میں نے ان کو مطمئن کرنے کے لئے کہا کہ بھائی دراصل تقریبات منانے کے سلسلے میں ہمارے یہاں دو گروہ ہیں ایک وہ جو دیندار ہے اور ایک وہ جو دین سے بہت دوراور جاہل ہے ۔۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ شادی بھی ہمارے یہاں دو طرح سے ہوتی ہے جو دیندار ہیں وہ سنت کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں اور شادیوں میں خرافات سے پرہیز کرتے ہیں اور دوسرا گروہ وہ ہے جسے شریعت کے اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور وہ جائز ناجائز سب کچھ کرتا ہے ۔۔اسی طرح عرس منانے والوں کا حال ہے کہ جو دیندار ہیں وہ تو شریعت کے مطابق مناتے ہیں اور جو جاہل ہیں وہ خرافات کا شکار ہوجاتے ہیں۔تو جس طرح سے ہمیں شادیوں میں خرافات اور ناجائز کام کرنے والوں کی اصلاح کی ضرورت ہے ویسے ہی عرس بھی غیر شرعی طور پر منانے والوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔۔
میرے اس جواب سے وہ بہت مطمئن ہوئے ۔۔دراصل ایسے دانشور اور تعلیم یافتہ افرادجب سنیوں کی ایسی حرکتوں کا دفاع نہیں کرپاتے اور دوسروں کے سامنے انھیں ذلت محسوس ہوتی ہے تو وہ بڑی کوفت محسوس کرتے ہیں ۔لیکن جب میں نے خرافات کے خاتمے کی بات شادی کے حوالے سے کی تو وہ مسکرانے لگے کہ اب میں غیروں کو بھی جواب دے سکوں گا اس لئے کہ شادیوں میں جہاں تک خرافات کا تعلق ہے اس میں بد مذہب بھی مبتلا ہیں۔ممبئ میں بدمذہبوں کی شادیاں بھی خرافات سے خالی نہیں ہوتیں۔۔ہاں شرعی اصولوں کا لحاظ رکھنے والے افراد ہر دوطبقے میں اس سے مستثی ہیں 

بہرحال قاضی حبیب الرحمن صاحب نے جو فرمایا اتفاق سے میرا رجحان بھی یہی ہے کہ ہمیں یوم ولادت صرف اور صرف رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا منانا چاہئے وہی ذات اس کی مستحق ہے کہ ان کا یوم ولادت منایاجائے ان کے صدقے میں ہمیں ایمان ملا ۔ایقان ملا۔ رحمن ملا۔ قران ملا ۔دستور حیات ملا۔تہذیب ملی ۔تمدن ملا ۔جہنم سے بچنے کا حتمی راستہ ملا


لہذا یوم ولادت کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مختص کردیاجائے۔
جس طرح سے ہم نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر جان مال اولاد عزت آبرو سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اسی طرح اپنا برتھ ڈے بھی ان پر قربان کردیں
موجودہ شخصیتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی موجودگی میں ہی اپنے برتھ ڈے سے لوگوں کو منع کریں اوراپنا مروجہ عرس بھی  منعقدنہ کرنے کی وصیت کرجائیں تو یہ اہلسنت پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا

یہ موضوع بہت حساس اور نازک ہے اس لئے اگر میری اس تحریر سے مجھ پر توبہ لازم آتی ہو تو میں پیشگی توبہ کرتا ہوں ۔۔۔اور اگر رجوع کرنا ضروری ہوتو ارباب علم وفضل اور ہمارے بزرگ مجھے حکم دیں میں بلا ردوکد اپنی اس تحریر سے رجوع کرلوں گا۔۔۔ان شاءاللہ

Related Posts

Leave A Comment

1 Comments

Voting Poll

Get Newsletter