تحفہ!ایک انمول جذبہ - قسط 2
تحفے میں کیا دیں؟ تحفے کا انتخاب کیسے کریں؟
تحفہ محبت کے اظہار کا ایک خوبصورت اور بہترین ذریعہ ہے۔اس لئے تحفہ لینا اور دینا ہماری زندگی کا لازمی جزء ہونا چاہئے۔تحفہ پسند کرنا یا دینا ایک فن ہے۔کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا کہ کونسی شئ بطور تحفہ منتخب کی جائے جو دوسروں کی تحائف کی موجودگی میں بالکل الگ نظر آئے۔اسی طرح خوشی کا موقع فراہم ہوتے ہی ہم اپنے پیاروں سے یہ توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ اس بار انکی جانب سے ہمیں کیا تحفہ ملنے والا ہے۔جیسے بچوں کا والدین سے ضد کر کے چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر تحفہ مانگنا اور اسی طرح والدین کا تحفہ دیتے وقت بچوں کی پسند کو مد نظر رکھنا،انکی معصوم خواہشات کو پورا کرنا اور بچوں کی کامیابی پر ان کی پسند کے مطابق انعام یا تحفے سے نوازنا اولادو والدین کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے۔
تحفے کا انتخاب کرتے وقت لوگوں کی دلچسپیوں کا ضرور خیال رکھیں،تحفہ عمر کے مطابق دیں تا کہ تحفہ سے استفادہ کیا جاسکے۔تحفہ مسکراہٹ اور خوشی کے ساتھ وصول کریں اور شکریہ یا جزاک اللہ خیراًکہنا ہر گزنہ بھولیں۔تحفہ اگر دینے والے کے سامنے کھولا جارہا ہے تو بھر پور انداز میں اسکی تعریف کرے۔اگرچہ سب کی موجودگی میں تحفوں کو کھولنا تہذیب کے خلاف ہے۔کیونکہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق تحفوں کا انتخاب کرتا ہے۔ہوسکتا ہے کسی نے بہت زیادہ مہنگی شئ نہ دی ہو مگر پورے خلوص سے دی ہو،ایسی صورت میں دوسروں کی نظر میں اسے شرمندہ ہونے سے بچانا آپکا کام ہے۔اگر آپ صاحب حیثیت ہیں اورآپ کے کسی قریبی عزیز یا دوست کے گھر خوشی کا موقع ہے تو اس موقع کی مناسبت سے سب سے پہلے ایک نگا ہ ان اشیاء پر ڈال لیں جس کو خرید نے کی وہ قوت نہیں رکھتے۔اس طرح اگر وہ شئ اسکو تحفے کی صورت میں مل جائے گی تو نہ صرف اسکی ضرورت پوری ہوگی بلکہ خوشی بھی ہوگی۔ہدیہ کے طور پر کسی کو کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے، البتہ ہدیہ کے انتخاب میں موقع ومحل اور اس شخص کو ملحوظ رکھاجائے جسے ہدیہ دیا جارہا ہے تو اس سے اسکی معنویت مزید بڑھ جاتی ہے۔ہدیہ کے سلسلے میں اسکی مادی قدرت و قیمت یا کمیت و کیفیت کااعتبار نہیں، بلکہ اہمیت اس جذبہ وخلوص کی ہے جو اسکے پس پردہ کار فرما ہوتا ہے۔
آج کل ایک رواج عام ہے کہ کسی کو تحفہ دیتے وقت اسکی شخصیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور اپنی حیثیت کو نہیں دیکھا جاتا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں قیمتی نہیں بلکہ خوبصورت تحائف یادگار ہوتے ہیں۔اگر آپکا خریدا ہوا تحفہ دیکھنے میں نفیس اور خوبصورت نہ ہو تو وہ بیکارہے پھر چاہے وہ کتنا بھی مہنگا کیوں نہ ہو۔ایک آدمی اپنے کسی دوست کو اسکے حیثیت کے لائق چیز نہیں دے سکتا تو کیا ہوا جو اپنے حیثیت کے مطابق ہے وہ دے دے۔وصول کرنے والے کو چاہئے کہ وہ تحفہ کو نہ دیکھے بلکہ تحفہ دینے والے کی محبت کو سمجھے اور خوشی کا اظہار کرے جس طرح وہ قیمتی سے قیمتی ملنے پر کرتا ہے۔آپ ﷺقلیل و معمولی ہدیہ کو بھی قبول کرتے تھے،اور ہدیہ کو معمولی اور حقیر سمجھنے سے منع فرماتے تھے۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ”معمولی سے معمولی چیز کیلئے بھی اگر مجھے دعوت دی جاتی یا بطور ہدیہ دی جاتی تو میں اسے قبول کرتا“ (صحیح ا لبخاری)۔اور اسی طرح دوسری جگہ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”تھادوافان الھدیۃ تذھب وحر الصدر ولا تحقرنّ جارۃ لجارۃ ولو بشق فرسن شاۃٍ“ ترجمہ: آپس میں ہدیہ دو کہ بے شک ہدیہ دل سے کینہ دور کرتا ہے اور اپنی پڑوسن کو کوئی معمولی چیزبھی بطور ہدیہ دینے کو حقیر نہ سمجھو(صحیح البخاری،جامع ترمذی)۔ آپ کا منشأ یہ ہے کہ کسی بھی معمولی چیزکو تحفہ کے قابل نہ سمجھ کر رک نہیں جانا چاہئے کیونکہ معمولی چیز بھی اگر تحفہ کی صورت میں عطا کی جائے تو اسکی اہمیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
تحفہ کا انتخاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں تحفہ دینے والے کی لطیف جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔اگر آپ کسی بچے کیلئے گفٹ (تحفہ) پسند کرتے ہیں تو وہ یقینا کھلونا یا ویڈیو گیم توقع کر رہا ہوگا،اگر آپ اسے کوئی کپڑے یا پرفیوم وغیرہ گفٹ کرینگے تو اسے بالکل اچھا نہیں لگے گا کہ وہ تحائف تو نوجوانوں کودئے جا تے ہیں۔اسی طرح بڑی عمر کے افراد کو گفٹ دیتے وقت بھی انکے پسند کے مطابق گفٹ خریدے۔اگر کسی کو پہلی دفعہ تحفہ دینا ہو تو ضروری ہے کہ کسی طریقے سے انکی پسندیا نا پسند کا جائزہ لیا جائے پھر اسے مد نظر رکھتے ہوئے کوئی تحفہ خریدا جائے۔لڑکے عام طور پر ایسی اشیاء پسند کرتے ہيں جنہیں وہ روزمرہ کى زندگی میں بھی استعمال کر سکیں جیسے موبائیل،گھڑی،ڈائری،شرٹس،کپڑے،پرفیوم اور عطر وغیرہ،جبکہ لڑکیاں اکثر ایسے تحائف پسند کرتی ہیں جنہیں وہ سہیج سنبھال کر رکھ سکیں۔اس لئے مختلف اوقات اور واقعات کے حوالے سے کارڈز لڑکوں کی بنسبت لڑکیوں کوزیادہ پسند ہوتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ:”اچھے اور خوبصورت تحائف دینے والے کی ذوق کا عکاسی کرتے ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں آپ جسے گفٹ دے رہے ہیں آپ اسکو کس حد تک جانتے ہیں“۔
البتہ ہدیہ کے طور پر اگر کوئی ایسی چیز دی جائے جو حرام ہو یا ہدیہ کا مقصد کوئی ناجائز کام لینا ہو یا موقع کی نزاکت کی وجہ سے وہ رشوت کے ضمن میں آتا ہو تو ایسی صورتوں میں اسے رد کیا جانا چاہئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے شراب کا مٹکہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں پیش کیا۔اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ کیا تم تک یہ بات نہیں پہنچی کہ شراب حرام ہو چکی ہے (صحیح مسلم)۔حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک جنگلی زیبرا رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ دیا۔آپ ﷺ نے اسے اس وضاحت کے ساتھ واپس کر دیا کہ آپ حالت احرام میں ہیں (صحیح البخاری)۔
تحفہ کے طور پر دیئے جانے کیلئے بہترین چیزوں میں سے عمدہ عطر اور کتابیں ہیں۔رسول اللہ ﷺکواگر عطرہدیہ کیا جاتا تو آپ اسے رد نہیں فرماتے تھے بلکہ جلد قبول کر کے اپنے استعمال میں لاتے تھے۔آپ ﷺکو طیب(عطر) بہت پسند تھی۔اسی لئے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہے ”ان رسول اللہ ﷺکان لا یرد الطیب“(صحیح البخاری)۔پھولوں کا تحفہ بھی گلدستے کی صورت میں یا کسی اور صورت میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔تحفہ خود ایک پھول ہے جس سے دوستی اور ملاپ کی خوشبو پھیلتی ہے۔آج کے دور میں کتابیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں کہ اس نے انسان اور دنیاکوپر پیچ و پر خوارراہوں سے نجات دلا کر سہل اور آسان راہ پر گامزن کردیا۔ پھر کیوں نہ کتابیں تحفہ میں دی جائیں۔یونانی فلسفی اور افلاطون کا استاد سقراط کہتا ہے کہ:”جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے“۔
تحفہ کسے دیا جائے؟
تحفہ اپنے ماں،باپ،بیوی،بھائی،بہن،بچے سے لیکر رشتے دار خویش واقارب دوست واحباب سب کو دے سکتے ہیں۔جیسے والدین اپنے بچے کو دیتے ہیں،بچہ اپنے والدین کودیتاہے،ایک بھائی اپنے بہن یا بھائی کو دیتا ہے اور ایک بہن اپنے بھائی یا بہن کو دیتی ہے،ویسے ہی ایک انسان اپنے رشتہ دار و دوست واحباب کو دیتا ہے،اور ایک شاگر د اپنے استاذکو دیتا ہے،ایک نوکر اپنے مالک کو دیتا ہے،ایک شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے او ربیوی اپنے شوہر کو دیتی ہے۔لیکن اگرتحفہ دینا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اپنے سے قریب جو ہے اسے دو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ”ان لی جارین فالی ایھما اھدی؟قال: الی اقربھما منک بابا“ترجمہ: میرے پاس دو باندیاں ہیں میں ان دونوں میں کس کو ہدیہ دوں؟تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جو تمہارے دروازے کے سب سے قریب ہے اسے دو (صحیح البخاری)۔ اسی طرح اگر رسول اللہ ﷺکوئی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور کوئی شخص آپ کی بارگاہ میں کھجور يا شربت لاتا آپ اسے قبول کرتے اور آپ کے قریب جواصحاب بیٹھے ہوتے انہیں عنایت فرماتے۔اسی طرح پڑوسیوں کو بھی ہدیہ دینا سنت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”یا نساء المسلمات لا تحقرن جارۃ لجارتها ولو فرسن شاۃً۔یعنی کہ اے مسلمان عورتوں تم میں سے کوئی بھی اپنے پڑوسن کومعمولی چیز بھی ہدیہ کے طور پر دینے کو حقیر نہ سمجھیں (صحیح البخاری)۔