مگر تم کیا ہو؟

ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:۔جب انسان اپنے آپ کو مستغنی پاتا ہے تو سرکشی پر اتر آتا ہے۔یہ انسانی نفسیات کا درست تجزیہ ہے اور کیوں نہ ہو کہ خالق سے بڑھ کر مخلوق کی نفسیات کو اور سمجھ بھی کون سکتا ہے۔ جس انجینیر نے جو مشینری بنائی ہو وہی اس کے کل پرزے جانتا ہے اور ان میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں اس کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ان پرزوں کو درست کرے اور اس کو ٹھیک سے چلانے کے قواعد وضوابط تیار کرے۔ یہ تجزیہ کہ انسان فارغ البالی کی حالت میں سرکشی پر اتر آتا ہے اس قدر صحیح ہے کہ ہم خود اپنی آنکھوں کے سامنے ایسا ہوتا دیکھتے ہیں۔ وہی لوگ جو تنگدستی کی حالت میں غرباء ومساکین دکھائی دیتے ہیں فارغ البالی کے پر لگتے ہی تخم کنجشک ختم کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور بھیڑ سے بھیڑیا بننے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ وہی لوگ جو انتخابات کے دوران ہر کس وناکس کے گھر جاکر ووٹوں کی بھیک ہاتھ جوڑ کر مانگتے پھرتے ہیں لیکن منتخب ہوتے ہی رائے دہندگان اُنہیں حشرات الارض نظر آنے لگتے ہیں۔ اپنے حلقے کے ووٹروں کی صورت سے اُنہیں گھن آنے لگتی ہے اور ان صاحبانِ اقتدار کے دماغ میں خناس سما جاتا ہے۔ دوست ودشمن، اپنے پرائے کے معیار بدل جاتے ہیں اور انتقام کی صلیب سیدھی کھڑی کر دی جاتی ہے۔یہ ڈارمہ نہ جانے کب سے رچا جارہا ہے یوں سمجھیے کہ صرف اداکار بدلتے ہیں اطوار وہی ہیں۔ ہم آج بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہیں۔
  اصل بات جو میں کہنا چاہتا تھا وہ یہ کہ استغناء کی صورت میں سرکشی کی روش کوئی مستحسن بات نہیں۔ اسلام تکبر، نخوت، غرور اور سرکشی کی روش پسند نہیں کرتا۔ اس کا لازمی نتیجہ زوال ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔لیکن افسوس! طاقت اور اقتدار کا نشہ انسان کو ایسا اندھا کرتا ہے کہ اسے اپنے سامنے کھدا ہوا گڑھا بھی نظر نہیں آتا اور ہم چوما دیگرے نیست، کا ورد کرتے کرتے اس قعر مذلت میں گرجاتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ سبھی حکمراں ایسے نہیں ہوتے۔ اسلام کی تاریخ میں ہمیں ایسے کئی درخشاں ستارے جگمگاتے نظر آتے ہیں جنہوں نے بے پناہ اقتدار میں بھی عجز وانکساری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایسے ہی درخشاں ستاروں میں سے ایک تھے۔قارئین ان کے اخلاق وعادات کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں؛
  حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تواضع اور سادگی کے موضوع پر مؤرخین نے مستقل عنوان باندھے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان کے تاج پر سادگی کا طرہ نہایت خوش نما معلوم ہوتا ہے۔آپ کی زندگی کا ایک رخ تو یہ ہے کہ روم اور شام کے لیے فوجیں روانہ کر رہے ہیں، قیصر وکسریٰ کے سفیروں سے بھی معاملہ درپیش ہے۔دوسری طرف حضرتِ خالد بن ولید اور حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہما سے بعض امور پر باز پرس بھی فرما رہے ہیں۔حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ، حضرتِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے نام احکام لکھے جارہے ہیں اور اپنی حالت یہ ہے کہ بدن پر بارہ پیوند کا کرتہ ہے۔ سر پر بوسیدہ عمامہ ہے۔ پاؤں میں پرانی جوتیاں ہیں اور اس حالت میں بھی یا تو کندھے پر پانی کی مشک لے جارہے ہیں کہ بیوہ عورتوں کے گھر میں پانی بھرنا ہے یا پھر اس حالت میں مسجدِ نبوی کے کسی کونے میں فرش خاک پر لیٹے ہیں اس لیے کہ کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں اور نیند کی جھپکی کی سی آگئی ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بارہا مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تک سفر کیا لیکن خیمہ یا شامیانہ کبھی ساتھ نہیں لیا، جہاں ٹھہرے تو کسی درخت پر چادر ڈال دی اور اس کے سائے میں لیٹ گئے۔ایک روایت میں ہے: حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے گھر کا روزانہ خرچ دو درہم تھا۔ دو درہم کم و بیش دس آنے کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہماری خوشحالی اور اس سے جنم لینے والے اسراف کی حالت یہ ہے کہ بعض ہوٹل اور شادی گھر ایک وقت کے کھانے کے کئی ہزار روپئے وصولتے ہیں پھر بھی کئی ماہ پیشگی بکنگ کرانی پڑتی ہے۔ ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے مزید! کھانے کی وہ بربادی کہ اللہ رحم فرمائے۔
   قارئین! ہم جس دور کا ذکر کر رہے ہیں اس دور میں اسلامی فوج روم اور فارس سے ٹکر لے رہی تھی اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ احنف بن قیس رؤسائے عرب کے ساتھ حضرتِ عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے۔دیکھا تو دامن چڑھائے ادھر اُدھر دوڑ رہے ہیں۔احنف کو دیکھ کر کہا! آؤ تم بھی میرا ساتھ دو، بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے تم جانتے ہو ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق شامل ہے؟ایک شخص نے کہا امیر المومنین آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں؟ کسی غلام کو حکم دیجیے وہ ڈھونڈ لائے گا، آپ نے فرمایا مجھ سے بڑھ کر غلام کون ہو سکتا ہے؟ یہی تھا مفہوم "سید القوم خادمہم" کا کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ (تاریخ اسلام)
 مؤطا امام مالک میں روایت ہے:حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب شام کا سفر کیا تو شہر کے قریب پہنچ کر کسی ضروری کام سے سواری سے اترے، آپ کا غلام اسلم بھی آپ کے ساتھ تھا، واپسی میں امیر المومنین بھول سے یا کسی مصلحت کے تحت اپنے اونٹ کے بجائے اسلم کے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ دوسری طرف اہل شام آپ کے استقبال کے لئے آرہے تھے، جو آتا پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا وہ حضرت عمر فاروق اعظم کی طرف اِشارہ کر دیتا، لوگ حیران ہوکر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتے، حضرتِ عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہ لوگ شان وشوکت دیکھ رہے ہیں بھلا وہ یہاں کہاں۔آج جب ہمارے کسی حکمران کی سواری گزرتی ہے تو گھنٹوں ٹریفک بند کر دیا جاتا ہے جس سے کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
 امیر المومنین نے ایک مرتبہ خطبہ میں ارشاد فرمایا صاحبو! میں ایک زمانے میں اس قدر نادار تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر لادیا کرتا تھا، وہ اس کام کے بدلے مجھے چھوہارے دے دیا کرتے تھے، انہی سے میری گزر اوقات ہوتی، بس اتنا کہہ کر ممبر سے اتر آئے۔ لوگوں کو سخت تعجب ہوا ہے کہ بھلا یہ بھی کوئی ممبر پر کہنے کی بات تھی۔ آپ نے فرمایا: در اصل میری طبیعت میں ذرا غرور آگیا تھا، یہی اس کی دوا تھی (تاریخ اسلام)- آج اگر کوئی کسی مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ حضرتِ عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سن 23ھ میں حج کا سفر کیا یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کی سطوت وجبروت کا آفتاب نصف النہار پر تھا۔ حضرت سعید بن مسیب جو ایک مشہور تابعی گزرے ہیں وہ بھی اس سفر میں امیر المومنین کے ساتھ تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ابطح کے مقام پر حضرتِ عمر فاروق اعظم نے سنگ ریزے سمیٹ کر ان پر کپڑا ڈال دیا اور اسی کو تکیہ بنا کر فرش خاک پر لیٹ گئے،پھر آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاکر فرمایا اے خدا! اب میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور قوی کمزور ہوگئے ہیں۔اب مُجھے آرام کی ضرورت ہے (تاریخ اسلام)-
 ایک طرف یہ واقعات ذہن میں تازہ کریں اور دوسری طرف اپنے حکمرانوں کا جائزہ لیں اور تیسری طرف قوم کا بیشتر حصّے کی مفلوک الحالی کو دیکھیں، پھر غور فرمائیں کہ اللہ رب العزت نے ہمارے شامت اعمال کی صورت میں کیسے کیسے لوگ ہم پر مسلط کر دیے ہیں بلکہ ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کر لیے ہیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter