فلم "ہم دو ہمارے بارہ": اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کی مذموم سازش
اسمبلی الیکشن کے آخری مراحل زور و شور پر ہیں۔ گودی میڈیا اپنے محسن اعظم کی تعریف و توصیف اور تشہیر میں مگن ہے۔ وزیراعظم سے لے کر بھاجپا کے تمام لیڈران ہندو مسلم کا انہونی کھیل کھیل رہے ہیں۔ دو مذہب کے ماننے والوں کے بیچ نفرت و عداوت کا بیج بو رہے ہیں۔ اسی دشمنی کا نتیجہ کہیے کہ آئے دن ہمارے وزیراعظم اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی ہیٹ اسپیچ کرتے نظر آرہے ہیں. یوگی ایک الیکشن ریلی میں تقریر کے دوران کہتا ہے کہ اب کوئی یوپی میں سڑکوں پر نماز پڑھنے کی ہمت نہیں کرتا، خوف کی وجہ سے مساجد نے اپنے مائک ہٹالیے ہیں آئندہ پانچ برسوں میں لوگ اذانیں دینا اور سننا بھول جائیں گے۔ اس فرقہ وارانہ و زہریلی تقریر کی جتنی بھی مذمت کی جائیں کم ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف زہریلا بیان دے کر ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنا ان کا اولین مقصد ہے۔ اس اشتعال انگیزی کے پیچھے بی جے پی کی ہار کا خوف و خدشہ کارفرما ہے۔ اسی ہار کے خوف سے وزیراعظم اور ان کے تمام ہمنوا بدحواسی و بوکھلاہٹ میں بری طرح مبتلا ہیں۔ مزید برآں سوشل میڈیا پر کل رات ایک ویڈیو نظر سے گزری جو ایک مووی پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی یوٹیوبر نے بنائی تھی۔ جس میں یہ کہا گیا کہ جون 7 کو ایک توہین آمیز فلم ریلیز ہونے والی ہے جس کا ٹائٹل کچھ اس طرح ہے۔ "ہم دو ہمارے بارہ" اس فلم کے پوسٹر پر ہندی میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ "میں جلد چین کو پیچھے چھوڑ دوں گا"۔ اس فلم کے ڈائریکٹر جناب کمل چندرا اور پروڈیوسر بریندر بھگت ہیں۔ اس خباثت آمیز فلم کا کلیدی کردار انو کپور ہے جسے بارہ بچوں کے باپ کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس فلم کے ٹریلر میں کئی ایسی چیزیں دکھائی گئی ہیں جو کھلم کھلا اسلاموفوبیا اور مسلم مخالفت کی کھلی دلیل ہے۔ جس میں قرآن کی آیت کریمہ "نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ - فَاْتُوْا حَرْثَـكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ٘ - وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْؕ - وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُؕ - وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ" یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ - (بقرہ/223) اس آیت کریمہ کو بالکل غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس توہین آمیز فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مسلمان عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ اور مسلمان مرد عیش کوشی اور اپنی شہوت رانی کے لیے صرف عورتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ در اصل یہ مغربی دنیا کی پرانی سازش ہے۔ اور یہ پروپیگنڈہ آج کی نہیں بلکہ قدیم یوروپی ممالک کی پیدا وار ہے جو ابتدائے اسلام سے ہی اس کی صاف وستھری شبیہ کو داغدار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس نفرت آمیز فلم کے پوسٹر سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خاص مسلمانوں کے خلاف نئی سازش ہے۔ اس فلم کے کردار انو کپور ABP نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بڑھتی آبادی پر کس طرح انگشت رکھی جائیں، گھٹائے نہیں تو بڑھائے بھی نہیں۔ پوسٹر میں وہ شیروانی پہن کر براجمان ہیں ان کے قریب ایک برقعہ پوش حاملہ خاتون کھڑی ہے۔ اور بغل میں ایک کردار ٹوپی پہن کر بھی کھڑا دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تمام مذکورہ باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ہندوستان کی بڑھتی آبادی کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی سازش اور اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دینا ہے۔
اب ذرا بڑھتی شرح آبادی کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائیں۔ تو سنیے سن 2023 کے آبادی سنسس کے مطابق آبادی شرح کچھ یوں ہے۔ ہندو آبادی %78.80 یعنی 110کروڑ، مسلم آبادی%14.23 یعنی 21 کروڑ، عیسائی%2.30 یعنی 3.22 کروڑ، سکھ %1.72یعنی 2.38 کروڑ، بدھ مذہب%0.70 یعنی 98 لاکھ، جین مذہب%0.37 یعنی 52 لاکھ ، دیگر مذاہب%0.66 یعنی 92لاکھ اور قبائلی آبادی %0.24 یعنی 32 لاکھ یہ مختصر خاکہ ہے۔ اس خاکہ سے آپ بحسن وخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ آبادی کون بڑھا رہا ہے۔ بڑھتی آبادی ملک کے اقتصادی صورتحال میں ضرور دخل انداز ہوگی تو حکومت اور ارباب حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کے لیے حل تلاش کریں اور اقتصادیات کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ اس کے بجائے کسی ایک خاص قوم کو ٹارگٹ کرکے انہیں مجرم قرار دینا آئین اور جمہوریت کے عین خلاف ہے۔
دس سال میں ملک کی شرح ناخواندگی اور شرح بےروزگاری کا گراف کتنا بڑھ گیا اس کی کسی کو فکر نہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ خط غربت وافلاس دن بدن بڑھتے جارہا ہے۔ اس پر کوئی تبصرہ نہیں۔ ان پر پردہ ڈالتے ہوئے گودی میڈیا اور فلم انڈسٹریز عوام کے مابین نفرت اور عداوت پیدا کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اپنے محسن اعظم کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈال کر ہندوستان کے عوام الناس کی قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور بھائی چارگی کو ستیاناس کرنا چاہتے ہیں۔ فلم انڈسٹریز میں مسلم مخالفت کی یہ پہلی فلم نہیں بلکہ اس سے پہلے دی کشمیر فائل اور قریب ریلیز ہوئی دی کیرالا اسٹوری بھی اسی نفرت پر مبنی ہے۔ ان فلموں کی کہانیوں سے حقائق سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اور المیہ تو یہ کہ اس فلم میں سنییوں کی عظیم تبلیغی غیر سیاسی تحریک سنی دعوت اسلامی جو داعی کبیر حضرت مولانا شاکر نوری قبلہ کی سرپرستی میں دینی، ملی اور تعلیمی خدمات میں سرگرم عمل ہے اسے بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سنی دعوت اسلامی کا پوسٹر لگاکر ایک نام نہاد داڑھی والا کردار مولوی کے بھیس میں قرآن پاک کی آیتوں کا غلط مفہوم بیان کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
ان زعفرانی وفرقہ پرستوں کو کیا معلوم کہ قرآن کیا ہے؟ آفاقی تعلیمات کیا ہیں؟ آیتوں کیا مفہوم کیا ہے؟ آیت کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے؟ یہ سب جانے بغیر ہی قرآن کی آیتوں سے کھلواڑ ناقابل معافی جرم ہے۔ ان سیاہ کارناموں کو مسلمان کبھی برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ لہذا حکومت اور فلم انڈسٹریز کے ذمہ داروں سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ اس فلم پر پابندی لگائیں اور فلم ذمہ داروں کو تلقین کریں کہ ان جیسی حرکتوں سے باز رہنے کا حکم صادر کیا جائیں اور ہوسکے تو قانونی کاروائی کی جائیں۔ خدا سے دعا ہے کہ ان فرقہ پرستوں سے ملک اور ملک کی قومی یکجہتی اور جمہوریت کی حفاظت فرمائے- آمین!