دولت بے بہا: رمضان المبارک کا آخری عشرہ
ہر مہینہ تین عشروں یعنی تین دہائیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا ماہ مبارک بھی تین عشروں پر مشتمل ہے۔رمضان المبارک کے ان تین عشروں کو حسن تعلیل کے طور پر اس طرح تقسیم کیا جاتاہے کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے۔ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو پورا رمضان ہی اللہ کی رحمت کی جلوہ گاہ، اس کی مغفرت کا مظہر اور جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔رمضان المبارک میں جس طرح اللہ تعالی کی طرف سے رحمت و کرم کی بارش ہوتی ہے ویسی مقدس فضا پھر پورے سال میسر نہیں آتی۔ان مبارک ساعات میں بھی اگر کسی کی مغفرت کا سامان نہ ہو سکا تووہ یقینا بڑے خسارے میں ہے۔
پورے رمضان میں ہی اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت عام ہے پھر بھی رمضان المبارک کا آخری عشرہ بلاشبہ خصوصی اورمنفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں اور فضائل جمع ہیں ان کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ پورا عشرہ اعتکاف کے لیے بھی مخصوص ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کا بھی یہ معمول رہا اور پھر امت میں اس کو ایک روایت کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ تمام علماء و اکابر اس عشرے میں اعتکاف کرتے ہیں، ہر مسجد میں اعتکاف ہوتا ہے اور اس طرح اعتکاف یعنی رب کی خوشنودی کے لیے اور اس کی رضا جوئی کے لیے گوشہ گیر ہونے کی یہ سنت جاری و ساری ہے۔
اعتکاف کی اہم ترین سنت کے علاوہ اس عشرے میں لیلۃالقدر بھی ہے۔ لیلۃالقدر ایسی مبارک رات ہے جس میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ یہ رات ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس رات میں فرشتے آسمان سے اترتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی اترتے ہیں۔ تمام فرشتے اور حضرت جبرئیل اللہ تعالی کے تمام احکام و امور لے کر آتے ہیں۔ اس رات میں سارے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس رات میں اللہ رب العزت کی رحمت عام کے فیصلے ہوتے ہیں۔
لیلۃالقدر کو لیلۃالقدر کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کہ اسی رات میں تقدیر کے فیصلے کیے جاتےہیں۔دنیا کے تمام امور اسی رات میں طے کیے جاتےہیں اور اللہ کے ان فیصلوں کو لے کر فرشتے زمین پر اترتے ہیں ۔ ایک بہت بڑے امام اور شارح حدیث امام نووی فرماتے ہیں کہ اس شب میں سال بھر کے رزق و موت کے تقدیری فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اس لیے اس رات کو لیلۃالقدر کہا جاتا ہے۔قدر کے ایک معنی تقدیر کے ہیں یعنی یہ رات تقدیر لکھے جانے کی رات ہے اس لیے اس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ اور قدرکے ایک معنی عزت و شان کے ہیں یعنی یہ رات بڑی عزت اور شان والی ہے اس لیے یہ رات ایک ہزار راتوں سے نہیں بلکہ ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔اس رات کی عظمت و فضیلت میں دونوں باتیں شامل ہیں یعنی یہ رات تقدیر لکھی جانے کی رات ہے اور اس لیے یہ رات بہت عزت و شان والی رات بھی ہے۔
قرآن میں واضح طور پر آیا ہے کہ اسی رات یعنی لیلۃ القدر میں قرآن مجید نازل ہوا۔ سورہ دخان میں بھی اور سورہ قدر میں بھی دونوں جگہ اس بات کا ذکر ہے اور دونوں جگہ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس مبارک رات میں سارے فیصلے ہوتے ہیں۔یہ مبارک رات رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شامل ہے۔ ایک حدیث کی روشنی میں آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں لیلۃالقدر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
رمضان کے آخری عشرہ کی فضیلت میں ایک بات اور کہی جا سکتی ہے جو اگرچہ اصولی طورپربراہ راست اس عشرے سے متعلق تو نہیں ہے لیکن عملا وہ اسی عشرے سے وابستہ ہے ۔اس کی بھی بڑی اہمیت ہے اور وہ ہے صدقۃ الفطر۔ صدقۃ الفطر عید کی صبح واجب ہوتا ہے، لیکن اس کی ادائے گی رمضان کے اندر پسندیدہ ہے۔ اس لیے کہ صدقۃ الفطر کی مشروعیت دو وجہ سے ہوئی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کا تذکرہ بھی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ صدقۃ الفطر ان نامناسب باتوں اور کوتاہیوں کے لیے کفارہ ہے جو روزہ دار سے روزہ کی حالت میں سرزد ہو گئیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صدقۃ الفطر غربااورمساکین کے لیے عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا ذریعہ ہے۔اس لیے لوگ صدقۃ الفطر کو آخری عشرے میں ادا کرتے ہیں تاکہ ضرورت مند لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا سامان فراہم کرلیں۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے کی فضیلت اور اس کی خیر و خوبی کو اس طرح بھی سوچا جا سکتا ہے کہ اگر رمضان المبارک کا مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے تو آخری عشرہ اس بہار کا ثمربارحصہ ہے۔ اس لیے کہ موسم بہار کا آخری حصہ ثمربار ہوتا ہے۔موسم بہار کی رنگینی اور رعنائی توشروع میں ہوتی ہے لیکن اس کے ثمرات آخر میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس طرح رمضان المبارک کا یہ آخری حصہ گویا رمضان المبارک کی تمام نعمتوں اورحسنات و برکات کا جامع ہوتا ہے۔
آخری عشرہ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ عشرہ عید الفطر کی آمد کی نوید ہے اور حق یہ ہے کہ نوید عید بھی عیدہی ہوتی ہے۔ عیدالفطر جو خوشیوں کا دن ہے، جو رب کی طرف سے مغفرت و رحمت کا دن ہے،آخری عشرہ اس دن کی خبر بھی لے کر آتا ہے ۔ ایک بات اور بھی ہے کہ چاند رات یعنی جس دن عید کا چاند نظر آتا ہے وہ رات بھی بڑی فضیلت و برکت کی رات ہوتی ہے۔ روایات میں اس کو لیلۃ الجائزہ یعنی اجرت ادا کیے جانے کی رات بھی لکھا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جوشخص دونوں عیدوں کی رات میں نماز پڑھے گا(یعنی نوافل کا اہتمام کرےگا) اس کا دل اس دن بھی زندہ رہے گا جس دن سارے دل مر جائیں گے۔ایک مومن کے لیے اس سے بڑی فضیلت کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے لیے دل کی زندگی کی سبیل پیدا ہوجائے۔بہر حال اس رات کے فضائل و مناقب بہت ہیں۔جومختلف روایات میں آئےہیں۔ایک افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رات کے لیے ہمارا روایتی رویہ بالکل ہی غیر موزوں ہے۔ہم اس رات کو اس مناتے ہیں جیسے کہ آج شیطان کو نہیں ہم کو رہائی مل گئی ہو۔نماز کا اہتمام تک چھوٹ جاتا ہے۔ ساتھ پوری رات بازار کی مٹر گشتی میں گزرجاتی ہے۔اللہ معاف فرمائے نوجوانوں کا تو یہ عالم ہوتا ہے کہ پوری رات بازار کی سیر و سیاحت کرتے ہیں اور صبح نیم خفتہ ذہن و دماغ ننداسی نیم باز آنکھوں کے ساتھ دوگانہ ادا کر کے سمجھتے ہیں کہ عید من گئی۔عید بازار کی رونق میں رات گزارنے کا نام نہیں ہے۔بلکہ اپنے رب کے سامنےعاجزی کرنے اور اس کو راضی کرنے کی کوشش کا نام ہے۔
رمضان المبارک کاآخری عشرہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ اب ماہ رمضان کی یہ دولت رخصت ہو رہی ہے۔ اب خیر و برکت کے یہ ایام جارہے ہیں۔اب یہ ایک سال کے بعد آئیں گے۔ ایک سال کے بعد ہم میں سے کون خوش نصیب ہوگا جو ان برکتوں سے دوبارہ فیض یاب ہوگا، کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے اس موقع کو غنیمت جان لیں اور اس سے استفادہ کرنے میں پوری طاقت لگا دیں۔
عبادت اور انابت کے سب کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں۔اپنے انداز سے زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔اپنے رب کی رضا جوئی کو اپنا مطمح نظر بنائیں۔پھر بھی اس جگہ چند مشورے کیے جاتے ہیں کہ ان کے مطابق بھی اس ماہ کی برکات کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔مثلا کوشش کریں کہ ہر نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ اور تمام نوافل و سنن کے اہتمام کے ساتھ ادا ہو۔ اس کے بعدکم از کم تہجد اور اشراق کی نماز کی پابندی کر لیں۔اس کے علاوہ ہر نماز کے بعد قرآن مجید کا کچھ حصہ ضرور تلاوت کریں۔فوری طور پراگرقرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرسکتے تو اس مبارک عشرے میں اس کی دعا ضرور کریں کہ اللہ رب العزت اپنے فضل سے ایسی سبیل پیدا فرمادے کہ ہم کو قرآن سمجھنے کا ذوق پیدا ہوجائے۔
عبادات اور نوافل وغیرہ کے ساتھ ساتھ اس عشرے میں سماجی خدمت کے کام بھی انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور صلہ رحمی کے کام بھی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ سماجی خدمت اور صلہ رحمی بھی رب کو راضی کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہے۔صلہ رحمی کرنا حصول جنت کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں بھی اس کے ذریعے آسانیاں نصیب ہوتی ہیں اور صلہ رحمی سے عمر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سماجی خدمت اور صلہ رحمی میں ماں باپ، بھائی بہن، شوہر و بیوی، بچے، پڑوس یا معاشرے کے دوسرے لوگوں، خاص طور پر ضعیفوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا شامل ہے۔ان کاموں میں زیادہ اضافہ کرنا چاہیے۔صلہ رحمی میں یہ بھی شامل ہے کہ فون کرکے کسی کی خیریت دریافت کرلیں۔
آخری عشرے میں اپنی ذاتی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے غصہ، غیبت، بدگوئی اور بری چیزوں کوکرنے اور دیکھنے سے سخت توبہ کر لیں۔خاص طور موبائل کے دام تزویری سے اپنے آپ کو ضرور بچائیں۔ کم از کم ان دس دنوں میں کوئی ایک بھی ایسا کام نہ کریں جو رب کی ناراضی کا سبب ہو۔اگر کوئی ایسا کام ہو جائےتو فورا توبہ و استغفار کریں۔ اپنے دل کو روزانہ ٹٹولیں اور دیکھیں کہ کسی کے خلاف نفرت یا حسد کے جذبات تو نہیں ہیں۔ اگر ہوں تو زبان سے بطور خود کلامی کہیں کہ میں اپنےان خیالات کو ختم کرتا ہوں اور فلاں کے خلاف میرے دل میں جو نفرت ہے اس کو میں یک طرفہ طور پرختم کرتا ہوں۔اس طرح بہت جلد دل کی کیفیت لطیف جذبات کی آماج گاہ بن جائے گی اور مجموعی طور پر روحانی ارتقا حاصل ہوگا۔
آخری عشرہ میں کثرت سے درود کا بھی اہتمام کریں اور قرآنی دعاؤں کو پڑھیں۔ ایک ضروری کام یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں حسب توفیق کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کریں۔ یاد رکھیں اس وقت دنیا عالمی وبا کی گرفت میں ہے۔ معاشی سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں۔ اللہ نے آپ کو نوازہ ہے، آپ اس نوازش میں دوسروں کو ضرورشریک کریں۔کسی کودنیے سے آپ کا کچھ کم نہیں ہوگا ۔بلکہ اس اضافہ ہی ہوگا ان شائ اللہ۔
آخری بات یہ ہے کہ اس عشرے میں اللہ کا شکر ادا کرنے میں بھی اضافہ کریں۔ شکر کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی جائے یہ بھی اس کا شکر کرنا ہے۔ اس لیے کہ منعم کی حمد و ثنا بھی شکر ہی ہوتی ہے۔شکر ادا کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ تشکر کہہ کر یا اس کا عملی اظہار کر کے شکر ادا کیاجائے۔اس مبارک عشرے میں دونوں طریقوں کی کثرت کرنی چاہیے۔موقع غنیمت ہے اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی کوشش کریں اور امید رکھیں کہ اللہ پاک اس ماہ کی حرمت سے ہماری مغفرت فرما دے اور جہنم کی آگ سے ہم کو بچالے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو جہنم سے بچ گیا وہ کامیاب ہو گیا۔