تَھکے تھے رُوحُ الاَمِیں کے بازُو، چُھٹا وہ دامن، کہاں وہ پہلو رِکاب چُھوٹی، اُمید ٹُوٹی، نِگاہِ حَسرت کے وَلولے تھے مذکورہ شعر کا عالمانہ و متصوفانہ تشریح و توضیح
یقنا امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر عالمانہ ، فاضلانہ، محققانہ ، متصوفانہ اور عارفانہ معنویت کا حامل ہے جو سفرِ معراج کے اُس نکتۂ عروج کو بیان کرتا ہےجہاں حضرت جبرائیل علیہ السَّلام رُک گئے اور اپنی عاجزی و بے بسی کا یوں اظہار کیا کہ
تُو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زِشت
تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت
حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ، گُفتار زنگ
فروزاں ہے سِینے میں شمعِ نفَس
مگر تابِ گُفتار کہتی ہے، بس!
اگر یک سرِ مُوے برتر پَرم
فروغِ تجلّی بسوزد پَرم،
حدیث مقدسہ کے الفاظ ملاحظہ ہو۔
”إِنْ تَجَاوَزْتُهُ احْتَرَقْتُ بِالنُّورِ“
" حضرت جبرائیل علیہ السلام کہتے ہیں کہ اگر میں اس مقام سے آگے بڑھا تو نور کی شدت سے جل جاؤں گا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگے نہیں جا سکتے تھے، جب کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اُس مقام سے بھی آگے جانے کی اجازت دی۔ یہی فرق نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شانِ خاص کو ظاہر کرتا ہے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ سے آگے تنہا اپنا سفر جاری رکھا۔
اب آئیے! امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی تشریح و توضیح پڑھ کر نورِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے قلب و جگر کو منور و مجلى کریں !
شعر:
تَھکے تھے رُوحُ الاَمِیں کے بازُو، چُھٹا وہ دامن، کہاں وہ پہلو
رِکاب چُھوٹی، اُمید ٹُوٹی، نِگاہِ حَسرت کے وَلولے تھے
روح الامیں : اس سے حضرت جبرائیل علیہ السلام مراد ہیں جو ملائکہ کے سردار ہیں ان کے شرف و مرتبے کا کوئی فرشتہ نہیں ۔
رُوحُ الاَمِیں کے بازُو تھکنا: یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی حدِ پرواز کا ختم ہونا ہے ۔
دامن چُھٹنا ، پہلو چھوٹنا یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے فراق کا وقت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام پر بڑا شاق گزرا
رِکاب چُھوٹنا : ہمراہی چھوڑ دینا، رک جانا
نِگاہِ حسرت : تمنّا بھری نظر، بے بسی
ولولے: جوش و جذبہ
قرآن مجید نے واقعہ معراج اور سدرۃ المنتہی کا بڑا نفیس نقشہ کھینچا اور وہاں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کیا کچھ دیکھا اور کیا کچھ محسوس کیا اسے جس فصاحت و بلاغت سے بیان کیا ہے عقلیں حیران و پریشان ہیں ۔ ارشاد باری ہے ۔
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى۔ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ۔ عِندَ سِدْرَةِ ٱلْمُنتَهَىٰ
عِندَهَا جَنَّةُ ٱلْمَأْوَىٰ ۔ إِذْ يَغْشَى ٱلسِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ
مَا زَاغَ ٱلْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ۔ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ ءَايَـٰتِ رَبِّهِ ٱلْكُبْرَىٰ ۔
( سورۃ النجم آیت 13 تا 18: )
ترجمہ : تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا سدرۃُ الْمُنْتَہیٰ کے پاس ۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے ۔ جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی ۔بیشک اس نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں ۔
(ترجمہ کنزالایمان)
تفسیر صراط الجنان سے اس آیت کریمہ کی تفصیلات ملاحظہ کریں! پھر آگے بڑھتے ہیں ۔
اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کو جب معراج شریف کے واقعات معلوم ہوئے تو انہوں نے ان واقعات کا انکار کر دیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے طرح طرح کے سوالات کرنے لگے ،کبھی کہتے کہ ہمارے سامنے بیتُ المقدس کے اوصاف بیان کریں اور کبھی کہتے کہ راستوں میں سفر کرنے والے ہمارے قافلوں کے بارے میں خبر دیں تو اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ان کے دیکھے ہوئے کے بارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ انہوں نے تو سدرۃُ المنتہیٰ کے پاس وہ جلوہ باربار دیکھا کیونکہ نمازوں میں تخفیف کی درخواست کرنے کیلئے چند بارچڑھنا اور اترنا ہوا ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ معراج کے عظیم واقعہ کا انکار و سوال مشرکین ہی کرتے ہیں اور اس واقعہ سے مومنین کا ایمان و ایقان مزید پختہ ہوتا ہے ۔
تو آئیے! سب سے پہلے سدرۃ المنتہی کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ آخر ہے کیا ؟ تو سِدْرَةُ الْمُنْتَهَىٰ ایک نہایت اہم اور روحانی مقام ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں صراحتا موجود ہے تفصیل درج ذیل ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
"سِدرَةُ المُنتَهىٰ" عربی زبان میں دو الفاظ سے مرکب ہے:
سِدرَةٌ = بیری کا درخت
المُنتَهىٰ = آخری حد، انتہا
لہٰذا سِدرَةُ المُنتَهىٰ کا مطلب ہوتا ہے۔ "آخری حد جہاں بیری کا درخت ہے"
سدرۃ المنتہی آسمانوں کے اُس بلند مقام پر ہے جہاں تمام مخلوق کی رسائی ختم ہوجاتی ہے۔
فرشتے، حتیٰ کہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس مقام سے آگے نہیں جاتے، سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے، جنہیں معراج کی شب وہاں سے آگے بلایا گیا۔
جب سدرہ پر چھا رہا تھا۔} یعنی سدرہ کو فرشتوں نے اور انوارِ الٰہی نے گھیرا ہو اتھا۔
( خازن، النجم، تحت الآیۃ: )
مقامِ سدرۃ المنتہی کی اپنی خصوصیات ہیں جو درج ذیل ہیں :
- یہ مقام ساتویں آسمان کے بعد واقع ہے۔
- یہاں جنت المأویٰ (بسنے کی جنت) موجود ہے۔
- معراج کی شب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یہاں جبرائیل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دوبارہ دیکھا۔
- اسی جگہ پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔یعنی بے شک حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شبِ معراج اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور عظیم نشانیاں دیکھیں اور ملک وملکوت کے عجائبات کو ملاحظہ فرمایا اور آپ کا علم تمام غیبی ملکوتی معلومات پر محیط ہوگیا۔
- ( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: )
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
- حدیث اور تفاسیر کے مطابق، سدرۃ المنتہی پر کچھ ایسا نور، روشنی، یا رنگ چھایا ہوتا ہے جسے زبان و بیان کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ہے۔
6, ہمارے علما سدرۃ المنتہی کے تعلق سے مختلف آراء رکھتے ہیں ۔
امام رازی، امام طبری، اور علامہ ابن کثیر جیسے مفسرین کے مطابق سدرۃ المنتہی وہ مقام ہے جہاں علمِ مخلوق ختم ہو جاتا ہے۔
بعض روایات کے مطابق، فرشتے اس درخت کے پاس آتے ہیں، اور وہیں ان کی عبادت و بندگی کے احکامات آتے ہیں۔
معراج کے حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ ہو ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے جایا گیا، وہاں ہر چیز کو ڈھانپنے والا کچھ ڈھانپ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ میرے لیے وحی فرمانی تھی، وہی وہاں وحی فرمائی ۔"(صحیح مسلم)
1 . روح الامیں کے بازو تھکنے کا مطلب ؟
تو یہ حدودِ عبودیت کا اعتراف ہے۔ فرشتے، جنہیں نور سے پیدا کیا گیا، وہ بھی ذاتِ باری تعالیٰ کی تجلیِ خاص کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہاں "تھکے بازو" سے مراد جسمانی تھکن نہیں، بلکہ مقام سدرۃ سے آگے قوتِ پرواز کا خاتمہ ہے۔ وہ نورانی جسم مزید تقربِ الہیٰ کے انوار و تجلیات کو برداشت نہیں کرسکتا۔
- دامن چھوٹا، پہلو جدا ہوا ۔
امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ اندازِ بیان محبوبانہ و عاشقانہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کی تمنا تو تھی، مگر وہ مقامِ فراق آپہنچا جہاں سے صرف محبوبِ خدا ہی آگے جا سکتے تھے۔ یہاں اسی عشق کی جدائی کی منظر کشی کی گئی ہے۔
صوفیا کی اصطلاح میں یہ اس وقت کی تصویر کشی ہے جہاں جبرائیل علیہ السلام کی پروازِ عبودیت ختم ہوئی، اور معراجِ محبت کی ابتدا ہوئی۔ صوفیا کے ہاں یہ فرق ہمیشہ سے واضح ہے ۔ "عبادت سے مقام ملتا ہے، محبت سے قرب ملتا ہے"
حضرت رومی فرماتے ہیں ۔
عقل تا ایجا رسد، باقی بجو
زیر سایۂ مصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
یعنی "عقل (یا مخلوق) یہاں تک ہی آ سکتی ہے، اس سے آگے اگر کچھ ہے تو وہ مصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زیرِ سایہ ہی ملے گا۔"
یہی حال جبریل علیہ السلام کا تھا۔ ان کی عقل و پرواز (مخلوق کی حد) مکمل ہوئی، اور آگے صرف محبت و مقامِ خاص کا راستہ تھا ۔ جو صرف پیارے حبیب، احمد مجتبی محمد مصطفیٰ کے لئے تھا ۔
صوفیاء کے ہاں یہ"فراقِ مقرب" کی ایک مثال ہے۔ جبرائیل علیہ السلام، جو تمام انبیاء کے ساتھ رہے، جنہوں نے قرآن کی وحی لائی، خود روح الامین کہلائے، وہ بھی یہاں پہلو سے چھوٹ گئے۔
حضرت خواجہ غلام فرید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
قرب دے وچ فراق بھی آیا
جیہڑا نوں رب دے راز سجھائے
یعنی"قرب کے اندر بھی ایک فراق ہوتا ہے، جو صرف اُسے سمجھ آتا ہے جسے رب کے راز معلوم ہوں۔"
یہی حال جبریل کا تھا ۔ بظاہر وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اتنے قریب تھے، مگر سدرۃ المنتہیٰ پر آ کر فراق ہوا، کیونکہ اس مقام پر صرف محبوب خدا ہی جا سکتے تھے۔
قرب خاص کا عالم : ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السّلام نے حضور نبی اکرم صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کِیا: '' یارسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم! آج میں نے اللّہ تعالیٰ کا اتنا قُرب حاصل کِیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا قُرب نصیب نہ ہُوا ۔ حاشیہ میں ہے کہ اتنا قُرب بھی اس لیے حاصل ہُوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللّہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السّلام کو بھیجا تھا کہ اللّہ تعالیٰ سے پوچھ کے آ کون سی جگہ تمام جگہوں سے بہتر ہے۔اللّہ تعالیٰ نے فرمایا! مسجد تمام جگہوں سے اچھی جگہ ہے ۔
سرکارِ دوعالم صلی اللّہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا:
'' اے جبریل ذرا بتا! آج تُو اللّہ تعالیٰ کے کتنا قریب ہُوا؟ ''
حضرت جبریل علیہ السّلام نے عرض کِیا:
'' میرے اور اللّہ کے درمیان صرف ستّر ہزار نُور کے پردے رہ گئے۔ ''
اور حضور نبی اکرم صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا قُرب دیکھیے کہ:
'' ایک پردہ بھی درمیان میں حائل نہیں،پِھر بھی صدا آ رہی ہے ۔ " ادن منی،ادن منی " یعنی اور قریب ہوجا اور قریب ہوجا۔
( مشکوٰۃ شریف،صفحہ 71).
جبریل رُکے ، براق تھکے
رف رف بھی آگے جا نہ سکے ۔
ربّ ادن منی حبیبی کہے
تیرے قُربِ خدا کا کیا کہنا
یارسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم.
- رِکاب چھوٹی، امید ٹوٹی:
جبریل علیہ السلام کو حضور علیہ السلام کی ہمراہی ختم ہوئی، اور ان کی یہ آرزو کہ وہ محبوبِ خدا کے ہمراہ رہیں ، پوری نہ ہو سکی۔
صوفیاء جب رکاب چھوٹنے کی بات کرتے ہیں تو مراد یہ لیتے ہیں کہ ظاہری ساتھ اب ختم ہوا، باطنی سفر باقی ہے ، جسے تنہا طئے کرنا ہے۔
حضرت بایزید بسطامی کا قول ہے ۔
"میں نے اپنے رب کو ایک ایسے مقام پر پایا جہاں نہ کوئی نبی تھا، نہ فرشتہ"
یہی حال نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بھی تھا ۔ اور یہی فرق ہے جبریل علیہ السلام کے رک جانے میں اور مصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے آگے بڑھ جانے میں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
"نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا معراج، وصالِ تام ہے، جب کہ جبریل کا معراج، مقامِ ادب ہے۔"
4 . نگاہِ حسرت کے ولولے تھے ۔
یہ ایک انتہائی لطیف بیان ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی نظر حسرت سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہی تھی، جو ایک ایسے مقام کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکا گو "سدرۃ المنتہیٰ وہ حد ہے جہاں فرشتے بھی آگے نہیں بڑھ سکتے، مگر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے بھی آگے جا کر رب کا قرب حاصل کیا۔" اور یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شانِ خاص ہے کہ آپ نے وہ قرب حاصل کیا جو مخلوقات میں کسی کو نصیب نہیں۔"
یہ شعر صرف واقعہ معراج کی منظرکشی نہیں کرتا بلکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج اور مقامِ کمال کو بھی بتاتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کا رک جانا یہ حدودِ مخلوق ہے ۔ اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سدرہ سے بھی آگے جانا یہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے نور علی نور ہونے کی دلیلِ تام ہے ۔
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا ۔ع
اور ہاں ! نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سدرہ سے آگے بڑھنا یہ " مقامِ محبوبیت " ہے ۔
اور جبرائیل علیہ السلام کی جدائی کا لمحہ یہ جبرائیل علیہ السلام کے عشق کا امتحان ہے ۔ اور اس امتحان میں انہوں نے اپنے عجز کا اظہار کرکے منزلِ مقصود پالیا ۔ اورحسرت بھری نگاہ سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سدرہ سے آگے جاتے ہوۓ دیکھنا یہ روحانی ادب اور محبت کی انتہا ہے ۔
ہم اہلِ سنت ، عشاقِ اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج جسم و روح کے ساتھ ہوا، اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے وہ مقامات طے کیے جو نہ کسی نبی کو دیے گئے نہ کسی فرشتے کو نصیب ہوا ۔
امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے ۔
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم
تِرا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے روحِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دوجہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
نگاہ حسرت کے وَلولے تھے ، شعر کا یہ جزو سب سے زیادہ صوفیانہ رنگ لیئے ہوا ہے۔
جبریل علیہ السلام کی نظرِ حسرت، محض ایک فرشتے کی نظر نہیں ۔ یہ ایک عاشقِ خادم کی وہ بےبسی ہے جو محبوبِ خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو قاب قوسین سے گزرتا دیکھتا ہے، مگر خود رہ جاتا ہے۔
حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
"عشق آموخت مرا صورت دیگر داد"
"عشق نے مجھے ایک نیا انداز عطا کیا"یعنی، عشق میں حسرت بھی ایک نعمت ہے۔ جبریل کی نگاہِ حسرت، ایک خالص بندگی اور فناۓ عشق کی علامت ہے ۔
- مولانا روم لکھتے ہیں ۔
چون نبی بگذشت زیں ہفتم ہوا
فہم جبریل آمد او را انتہا
"جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ساتویں آسمان سے بھی گزر گئے، تو جبریل کی فہم اور پرواز کی انتہا آ گئی۔"
- حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ۔
جیندا راز، نہ فرشتہ جانے نہ بشر جانے
اوہی جانے جیہڑا عشق دی سچّی نظر جانے
یہ رازِ معراج وہی جان سکتا ہے جس کی آنکھ میں عشقِ حقیقی کی بینائی ہو۔ جبرائیل جیسے نورانی فرشتہ بھی یہاں پردے میں رہ جاتے ہیں۔
یہ بھی اسی روحانی حقیقت کا بیان ہے ۔ جبرائیل رُک گئے، مگر محبوبِ رب آگے گئے۔
اس شعر میں صوفیانہ نکتہ بھی خوب ہے ۔ ایک عارف نے معراج کی ظاہری جھلک کو روحانی تاثر کے ساتھ پیش کیا:
جبریل جو عقل و خرد کے امیر عبادت و بندگی کی علامت تھے وہ سدرۃُ المنتہی پر رک گئے ۔اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جو عشق و وصال کی علامت تھے وہ آگے بڑھ گئے۔
معراج در اصل صوفیانہ راہ میں فنائے عبد سے بقائے باللہ کی طرف سفر کا نام ہے ۔