اللہ کے رسول ﷺکی دعائیں (13)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسولﷺاس طرح دعا کیا کرتے تھے:اللھم اني أعوذ بك من الجنون والجذام والبرص وسيء الأسقام۔اے اللہ !میں جنون،کوڑھ،برص اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
جنون پاگل پن کو کہتے ہیں۔جنون میں انسان کی عقل جاتی رہتی ہے اور شریعت کے احکام بھی اس سے اٹھالیے جاتے ہیں۔ایسا شخص معاشرے کے لیے کارآمد نہیں ہوتا بلکہ معاشرے یا اس کے خاندان کو خود اس کی ذمہ داری لینی ہوتی ہے اور اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔جنون سے ہونے والی دشواریاں بہت زیادہ ہیں۔ایسا شخص کبھی خود کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے تکلیف تو ہوتی ہی ہے۔جنون کے بعد جذام کا ذکر ہے۔
جذام کو leprosyیا Hansen's diseaseکہتے ہیں۔یہ ایک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس سے انسان کی جلد،رگیں،آنکھیں اور سانس کے راستے متاثر ہوتے ہیں۔اس کی سب سے خطرناک صورت حال یہ ہے کہ یہ انسان کے اندر درد کے احساس کو ختم کردیتا ہے جس کی وجہ سے اعضاء میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور کئی دفعہ اعضاء یا تو ٹوٹ کر الگ ہو جاتے ہیں یا ان کی شکل بدل جاتی ہے جس سے انسان برا معلوم ہوتا ہے۔
برص کو Albinismکہا جاتا ہے۔انسان کے جسم میں Melaninپایا جاتا ہے جو جلد،آنکھوں اور بالوں کے رنگ کو کنٹرول کرتا ہے۔Melaninکی مقدار میں اگر بہت زیادہ کمی ہوتی ہے تو اس سے انسان کے اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔حالاں کہ اس سے انسان کی صحت پر کوئی بہت بڑا اثر نہیں پڑتا لیکن بینائی کے متاثر ہونے یا جلدی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔برص سے بھلے ہی انسان کی صحت متاثر نہیں ہوتی لیکن اس کی ظاہری شکل و صورت لوگوں کو بری معلوم ہوتی ہے۔
بیماریاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔بعض چھوٹی بیماریاں ہیں جیسے سردی،بخار،سر درد وغیرہ۔یہ وقتی طور پر انسان کو متاثر کرتی ہیں۔دعا میں یہ بیماریاں مراد نہیں ہیں بلکہ ایسی بیماریوں کو حدیث میں گناہوں کا کفارہ کہاگیا ہے کہ انسان اس کی وجہ سے جس تکلیف اور درد کا شکار ہوتا ہے اللہ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو جان لیوا ہیں یا لمبی مدت تک باقی رہتی ہیں۔ایسی بیماریاں انسان کے جسم اوراس کی قوت کو اتنا زیادہ متاثر کردیتی ہیں کہ وہ معاشرے سے بالکل الگ ہوجاتا ہے۔ایسی بیماریوں میں مبتلا شخص خود تو پریشان ہوتا ہی ہے اس کے گھر والوں کی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ان بیماریوں میں سرطان (cancer)اورٹی بی(tuberculosis)وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔دعا میں ایسی تمام بیماریوں سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے اور ان بیماریوں کو بری بیماریاں کہا گیا ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسولﷺجن اور انسان کی نظر سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے: کان رسول اللہ ﷺیتعوذ من عین الجان وعین الانس۔
امام بدرالدین العینی عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ نظرکا لگنا ثابت ہے اورلوگوں پر اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جاسکتی اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔مگر حدیث ان کے اس خیال کی تردید کرتی ہے۔مسلم کی حدیث جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس ہیں اس طرح ہے کہ نظر کا لگنا حق ہے اور اگر کوئی شے تقدیر سے آگے بڑھ سکتی یعنی اس کو بدل سکتی تو وہ نظر ہوتی۔لہذا اگر تم سے اپنے بدن کو دھونے کو کہاجائے تو دھوؤ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس شخص کی نظر کسی کو لگتی تھی اسے وضو کرنے کوکہا جاتا تھا اور پھر وہی پانی اس آدمی پر ڈال دیا جاتاتھا جسے نظر لگی ہوتی تھی۔
محمد بن عبد المعطی نے اپنی کتاب العین حق میں قرآن اور حدیث سے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جو نظر کے حق ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔اسی میں ایک حدیث اس طرح ہے کہ صحابئ رسول حضرت سہل بن حنیف جن کی رنگت بہت اجلی تھی اوروہ بہت خوب صورت بھی تھے، نہا رہے تھے کہ اتنے میں دوسرے صحابی حضرت عامر بن ربیعہ کی نظر ان پر پڑی اور انہوں نے ان کے حسن کو دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم! میں نے ایسی رنگت کسی دوشیزہ عورت کی بھی نہیں دیکھی ہے۔آپ کا اتنا کہنا تھا کہ حضرت سہل بن حنیف گرپڑے۔لوگوں نے آپ کو اٹھاکر اللہ کے رسولﷺکے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ کیا کیا ہوا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ کیا تم اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو۔آپ کا اشارہ اس طرف تھا کہ نظر لگنے سے بعض دفعہ انسان ہلاک بھی ہوجاتا ہے۔پھر آپ نے نظر کے اثر کو مٹانے کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا جسے حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے اور حضرت سہل بن حنیف فورا ٹھیک ہوگئے جیسا کہ انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اسی حدیث میں اللہ کے رسولﷺنے صحابہ کو ہدایت کی کہ اگر تمہیں کسی دوسرے شخص کی کوئی چیز بہت زیادہ پسند آئے تواس کے لیے برکت کی دعا کیا کرو۔آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ اس سے نظر کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔۔حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ ایسے موقع پر ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ کہنا چاہیے جیسا کہ سورۂ کہف میں وارد ہوا ہے۔محمد بن عبدالمعطی مزید لکھتے ہیں کہ نظر لگنے کے لیے حسد کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ نیک لوگ جن کے دل میں حسد نہ ہوان کی نظر کا بھی اثر دوسروں پر پڑ سکتا ہے۔
امام بدرالدین العینی نے نظر کو توڑنے کا جو طریقہ بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے۔یاد رہے کہ یہ طریقہ خود اللہ کے رسول ﷺکا بیان کیا ہوا ہے۔بس اس کی تفصیل میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ جس کی نظر لگی ہے وہ اپنا چہرہ،دونوں ہاتھ،دونوں کہنیاں،دونوں گھٹنے،دونوں پیروں کی انگلیاں اور اپنے کپڑے کا اندرونی حصہ دھوکراس کا پانی ایک پیالے میں جمع کرے اور پھر یہ پانی اس شخص کے بدن پر ڈال دیا جائے جسے نظر لگی ہے۔دوسرا طریقہ جسے امام زہری نے بیان کیا ہے اس طرح ہے۔ایک برتن میں پانی لیا جائے۔پہلے بائیں ہاتھ سے داہنی ہتھیلی دھوئے پھر داہنے سے بائیں ہتھیلی۔پھر بائیں ہاتھ سے پانی داہنے ہاتھ کی کہنی پر ڈالے پھر داہنے ہاتھ سے پانی بائیں ہاتھ کی کہنی پر ڈالے۔پھر اپنا داہنا پیر دھوئے اور پھر اپنا بایاں پیردھوئے۔پھر دونوں گھٹنے دھوئے۔پھر اپنے کپڑے کا اندرونی حصہ دھوئے اور پھر پورا پانی ایک ہی بار میں اس آدمی پر ڈال دے۔پانی آدمی کے پیچھے سے بہایا جائے اور برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے یعنی پانی ایک ہی بار میں بدن پر اسی برتن سے ڈالا جائے۔اس برتن کو زمین پر رکھ کر دوسرے برتن سے پانی لینا یا تھوڑا پانی ڈال کر برتن زمین پر رکھنا اور پھر اٹھانا ایسا نہیں کرنا چاہیے۔حدیث میں داخلۃ الازار کے دھونے کا ذکر ہے۔بعض کہتے ہیں اس سے مراد کپڑے کا وہ حصہ ہے جو آگے کی طرف لٹکتا ہے یعنی دامن اور بعض کے نزدیک ازار کا اندرونی حصہ مراد ہے۔
حضرت عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺسفر میں اس طرح دعا کرتے تھے: اللھم انی أعوذ بك من وعثاء السفر وکآبۃ المنقلب والحور بعد الکور ودعوۃ المظلوم وسوء المنظر فی الأھل والمال۔اے اللہ! میں سفر کی شدت،پریشان حال واپس پلٹنے،اچھی حالت کے بعد بری حالت،مظلوم کی دعا (فریاد)اور گھر اور مال میں برے منظر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔یہ نسائی کی روایت ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو روایت ہے اس میں ہے کہ سواری پر بیٹھنے کے بعد اللہ کے رسولﷺتین بار اللہ اکبر کہہ کر اس طرح دعا کرتے تھے: سبحان الذي سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین و انا الی ربنا لمنقلبون۔ اللہم انا نسألك في سفرنا ہذا البر والتقوی ومن العمل ما ترضی۔ اللہم ہون علینا سفرنا ہذا واطو عنا بعدہ۔ اللہم أنت الصاحب في السفر والخلیفۃ في الأهل۔ اللہم اني أعوذ بك من وعثاء السفر و کآبۃ المنظر وسوء المنقلب فی المال والأھل۔سفر سے واپس آنے پر یہی الفاظ دہراتے اور آخر میں آیبون تائبون عابدون لربنا حامدون کہتے تھے۔
دعا کا ترجمہ اس طرح ہے۔پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں دیا حالاں کہ ہم اسے خودقابو میں نہ رکھ سکتے تھے اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔اے اللہ ! اس سفر میں تجھ سے نیکی،ہدایت اور ایسے عمل کا سوال کرتا ہوں جس سے تو راضی ہوتا ہے۔اے اللہ! ہمارا سفر آسان فرما اور اس کی دوری ہمارے لیے کم کردے۔اے اللہ ! تو سفر میں ہمارا رفیق اور (ہماری عدم موجودگی میں)ہمارے گھروالوں کا نگہبان ہے۔اے اللہ ! میں سفر کی شدت،رنجیدہ ہونے،اور اہل و عیال اور مال و دولت میں کسی بری تبدیلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اس دعا میں بھی سب سے پہلے اللہ کی قدرت کا بیان ہے اور پھر تقوی اور عمل صالح کى دعا کے بعد سفر کى شدت اور سفر کے دوران عدم موجودگی میں اہل و عیال اور مال و دولت میں کسی بھی طرح کے نقصان سے پناہ مانگی گئی ہے اور اللہ تعالی کو پورے سفر میں خلیفہ یعنی نگہبان قرار دیا گیا ہے۔دعا کا اختتام بھی عبدیت کے اعتراف کے ساتھ ہے کہ ہر حال میں خدا کی حمد ہے۔نسائی کی روایت میں والحول بعد الکور ہے۔امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ ہمارے یہاں جو نسخہ ہے اس میں والحور بعد الکون ہے۔آپ نے دونوں روایتوں کو صحیح ٹھہرایا ہے۔معنی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔