سلام رضا میں سراپائے محبوب ﷺ کی ضیاپاشیاں (۳)
سلام رضا پر مضمون نگاروں نے اپنے اپنے قلم کی جولانیاں دکھائیں۔شروحات وحواشی سے لے کر تعلیقات تک کا کام عمل میں لا یا گیا لیکن میری یہ ناقص تحریر مکمل سلام رضا کی وضاحت وتفسیر نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام میں سراپائے محبوب ﷺ کے حسن وجمال جہاں آرا کو امام عشق ومحبت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ عنہ نے جس انوکھے واچھوتے انداز میں بیان کیا اس پر اجمالا روشنی ڈال کر عشاقان مصطفی ﷺ کے دل وجگر منور ومجلی کروں اور اس تحریر کے ذریعہ میں اپنی بخشش ومغفرت کا سامان تیارکرلوں، گر قبول افتد زہے عزو شرف۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نہ تو کسی قلم میں اتنی سکت ہے کہ حسن مصطفی ﷺکو حیطہء تحریر میں لا سکے اور نہ کسی زبان میں اتنی طاقت کہ اس جمال جہاں آرا کو بیان کرسکے۔ سلطان مدینہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات حسن ظاہری وباطنی کی جامع مرقع ہے۔ کائنات ہستی میں جو کچھ حسن وجمال ہے وہ سب کے سب مصطفی جان رحمت ﷺ کی خیرا ت ہے۔اسی کو سرکار اعلی حضرت فرماتے ہیں:
یہ صبا سنک وہ کلی چٹک یہ زباں چہک لب جو چھلک
یہ مہک جھلک یہ چمک دمک سب اسی کے دم کی بہار ہے
اسی حقیقت کو علامہ اقبال، قلندر لاہوری نے کچھ یوں بیان کیا:
ہرکجا بینی جہان رنگ وبو آں کہ از خاکش بروید آرزو
یازنور مصطفیﷺاو رابہا است یا ہنوز اندر تلاش مصطفی ﷺاست
جہان رنگ وبو میں جہاں بھی نگاہ دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو پیدا ہوتی ہے وہ یا تو نور مصطفی ﷺ سے چمک رہی ہے یا ابھی تک حسن مصطفی ﷺکی تلاش وجستجو میں ہے۔
برسر مطلب آمدم میں حضور پرنور کے انگ کا ذکر کررہا تھا، تو کچھ کا ذکر اجمالا سابقہ مضامین میں ہوچکا ابھی آپ کے سامنے حضور پرنور ﷺکے دندان مبارک کا ذکر چھیڑنا چاہتا ہوں۔اعلی حضرت فرماتے ہیں:
جن کے گچھے سے لچھے جھڑیں نور کے ان ستاروں کی نزہت پہ لاکھوں سلام
دندان مبارک کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں جو آپ کے داندان کے حسن ولطافت پر دلالت کرتی ہیں۔آپ کے دندان اقدس بہت باریک اور چمکدار تھے۔ سامنے کے داندان مبارک کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا صحابہء کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ مسکراتے تو دندان مبارک کے ان باریک ریخوں سے اس طرح نور کی شعاعیں پھوٹتی کہ اردگرد کے درو دیوار روشن ہوجاتے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہکان رسو ل اللہ ﷺ افلج الثنیتین اذا تکلم رؤی کالنور یخرج من بین ثنایاہ حضور پرنور شافع یو م النشور ﷺ کے سامنے کے دانتوں کے درمیان معتدل فاصلہ تھا جب گفتگو کرتے تو ان باریک ریخوں سے نور کی کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتیں۔مزید حضرت ابو فرصافہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہبایعنا رسول اللہ ﷺ انا وامی وخالتی فلما رجعنا قالت لی امی وخالتی یا بنی ما راینا مثل ہذا الرجل أحسن وجہا ولا انقی ثوبا ولا الین کلاما وراینا کأن النور یخرج من فیہ“ وہ فرماتے ہیں میں میری ماں اور خالہ نے سرکار دو عالم ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کیے جب ہم لوٹے تب میری ماں اور خالہ مجھ سے کہنے لگیں اے نور نظر ان جیسا حسین وجمیل کو ہم نے دیکھا ہی نہیں۔ان جیسا صاف وستھرا پوشاک پہنے ہوئے۔ان جیسا نرم گفتار ہم نے دیکھا ہی نہیں اتنا ہی نہیں جب وہ بات کرتے تھے تو گویا ان کے دندان مبارک سے نور کے سوتے پھوٹتے تھے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اذا ضحک یتلألأ فی الجدر جب آپ ﷺمسکراتے تو در ودیوار چمک اٹھتے۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اذا افتز ضاحکا افتز عن مثل سنا البرق وعن مثل حب الغمام اذا تکلم رئی کالنور یخرج من ثنایاہ جب صاحب لولاک ﷺ تبسم فرماتے تو دندان اقدس بجلی اور بادلوں کی طرح چمکتے جب آپ بات کرتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔حضرت ہند بن ہالہ رضی اللہ عنہ دندان مبارک کے حسن وکمال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کان رسو ل اللہ ﷺ یفتز عن مثل حب الغمام سرور کونین ﷺ کے دندان مبارک مسکراہٹ کی حالت میں اولوں کے چمکدار دانوں کی طرح محسوس ہوتے تھے۔آخر حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنیے اور آقا ئے نامدار ﷺ کے دندان مبارک کوکس انداز میں بیان کیا دیکھیے اور ایمان تازہ کیجیے وہ فرماتے ہیں کہ کان رسول اللہ حسن الثغر رسول اکرم ﷺکے تمام دندان مبارک نہایت حسین وجمیل تھے۔اسی حسن وجمال کو امام بوصیری رحمہ اللہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
کأنما اللؤلؤ المکنون فی صدف من معدنی منطق منہ ومبتسم
یعنی حضور ﷺ کے دو معدنوں اول زبان درفشاں سے وقت تکلم جو کلمات ارشاد ہوتے ہیں دوم دہن پاک سے بوجہ تبسم جب دندان مبارک درخشاں ہوتے ہیں تو وہ مثل ان موتیوں کے ہیں جو ابھی سیپ میں پوشیدہ ہیں یعنی سیپ سے باہر نہیں نکلے کیوں کہ وہ بمقابلہ عام موتیوں کے زیادہ شفاف ودرخشاں ہوتے ہیں۔
یہ تو تھا دندان مبارک کا حسن ولطافت۔ اب آئیے ان لبوں کی نزاکت ونزاہت کو بھی دیکھیے اور دل کو ٹھنڈا کیجیے! اعلی حضرت فرماتے ہیں:
پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
جن لبوں کو اعلیحضرت قدس کی پنکھڑیوں سے تشبیہ دے رہے ہیں وہ سرخی مائل تھے۔لطافت ونزاکت اور دلفریبی ودلکشی میں اپنی مثال آپ تھے۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ کان رسول اللہ ضلیع الفم وکان من أحسن عباد اللہ شفتین وألطفہم ختم فم آپ ﷺ کا منہ مبارک شگفتہ وفراخ تھا۔اور آپ کے لب اقدس اللہ کے تمام بندوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے۔اور بوقت خاموشی وسکوت نہایت لطیف وشگفتہ نظر آتے تھے۔جب لب مبارک کھلتے تو اس سے پھول کھلتے جیسے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کان فی کلام رسول اللہ ترتیل او ترسیل خسروئے خوباں سیاح لا مکاں ﷺ جب گفتگو فرماتے تو ایک نظم اور ٹھہراؤ رہتا تھا۔یہی لب مبارک جب کھلتے تو پھول برساتے تھے وہ پھول بڑے ہی واضح اور روشن رہتے تھے جیسے کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ان النبی ﷺ کان یحدث حدیثا لو عدہ العاد لأحصاہ امام الانبیاء ﷺ اس قدر رک رک کر گفتگو فرماتے کہ اگر شمار کرنے والا شمار کرنا چاہتا تو شمار کرسکتا تھا یہ لب مبارک کا حسن وکمال ہے اور یہ حسن آقائے دو جہاں ﷺ کے حسن کا رتی برابر ہے ورنہ پورا حسن کبھی ظاہر نہیں ہوا۔جیسے کہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لم یظہر لنا تمام حسنہ لانہ لو ظہر لنا تمام حسنہ لما طاقت أعیننا رؤیتہ“حضور سرور کونینﷺ کا حسن وجمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے دو عالم ﷺ کا تمام حسن وجمال ہم پر واشگاف کیا جاتا تو ہماری کوتاہ آنکھیں حضور ﷺ کے نورانی جلوؤں کا مشاہدہ کرنے سے قاصر رہتیں۔کیا خوب کہا علامہ بوصیری رحمہ اللہ نے کہ۔۔۔
فہو الذی تم معناہ وصورتہ ثم اصطفاہ حبیبا بارئ النسم
منزہ عن شریک فی محاسنہ فجوہر الحسن فیہ غیر منقسم
أعیا الوری فہم معناہ فلیس یری فی القرب والبعد فیہ غیر منفحم
کالشمس تظہر للعینین من بعد صغیرۃ وتکل الطرف من امم
یعنی پس آپ وہ اشرف الانبیاء ﷺ ہیں جن کی صورت اورسیرت مکمل ہوگئی پھر خدائے برتر وبالا نے آپ کو اپنا دوست منتخب فرمایا۔ حضور ﷺ بالا تر ہیں اس امر سے کہ حضور ﷺ کی خوبیئ صفات میں کوئی اور شریک ہوسکے پس اس صورت میں حضور ﷺ کا جوہر حسن تقسیم نہیں ہوسکتا۔حضور ﷺ کے فضل وکمالات نے خلقت کو بے بس کردیا پس کسی شخص کو وہ حضور ﷺ کے قریب یا بعید زمانہ یا مقام کا ہو بجز اس کے کہ وہ اظہار کمالات نبوی ﷺ کے بیان کرنے میں عاجز ہو دیکھا نہیں جاتا۔ آپ ﷺ کی مثال آفتاب وخورشید کی سی ہے جو دور سے تو آنکھوں میں چھوٹا دکھائی دیتا ہے اور نزدیک سے آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔ اور اسی حقیقت کو علامہ صائم چشتی نے یوں بیان کیا کہ۔۔۔
خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ ستر ہزار پردے! جہاں میں بن جاتے طور لاکھوں جو اک بھی اٹھتا حجاب تیرا