پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور حقوقِ انسانی کا تحفظ

یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ پیغمبرِ اعظم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ترسٹھ سالہ ظاہری حیات میں ایک بے مثال معاشرے کی بنیاد رکھ کر ، تمام انسانوں کے انفرادی و اجتماعی حقوق متعین فرمائے ہیں ۔ کوئی بھی فردِ انسانی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت سے محروم نہ رہا ۔ پیغمبرِاسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صرف انسانی حقوق ہی متعین نہ کیے ،بلکہ اُن کا تحفظ بھی فرمایا۔ یہ، ہمارے’’دینِ اسلام ‘‘کی وہ خوبی ہے جس کی نظیرمذاہبِ عالم میں کہیں بھی نظر نہیں آتی ۔ ہر دَور کے اہلِ انصاف نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ کے مطالعے سے نہ صرف یہ کہ حقوقِ انسانی کی اہمیت و شان سے آگاہی حاصل ہوتی ہے؛ بلکہ حقوق ِ انسانی کی ادائیگی کی تاکید ات کا علم بھی ہوتا ہے اور جا بجا حقوق ادا کرنے والوں کو جنت کے مژدے اور کوتاہی برتنے والوں کو دوزخ کی وعیدِ شدید بھی ملتی ہے۔

حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک اور آپ کی تعلیمات و ارشادات کا مطالعہ کرنے سے  عَیاں ہوتا ہے کہ آپ نے صرف مسلمانوں کے ہی نہیں ؛بلکہ پوری انسانیت کے حقوق مقرر فرمایے ہیں ، آپ کا دامنِ رحمت صرف اپنوں کو ہی نہیں؛بلکہ دوسروں کو بھی اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے ۔ آپ کا ابرِ رحمت صرف مومنوں پر ہی نہیں ؛بلکہ دیگر قوموں پر بھی جم کر برساہے ۔ اِس لیے یہ کہنا کہ ’’  پیغمبرِ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لیے رحمت کی سوغات لایے ،، سراسر زیادتی اور حق کی خون ریزی ہوگی۔

 آقاے دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کا تحفظ کس انداز سے فرمایا، اِس پرتو بعد میں گفتگو ہوگی ، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے آقا حضور رحمتِ دو جہاں  صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کی ادائیگی کی کس حد تک تاکید فرمائی ہے ۔

صحابیِ رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقّاً وَ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقّاً وَلِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقاًّ فَاَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ [الصحیح للامام البخاری ، باب صنع الطعام والتکلف للضیف ، رقم الحدیث :۶۱۳۹]  

تر جمہ:تیرے رب کا تجھ پر حق ہے ، تیری ذات کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے ، پس ہر حق دار کو اُس کا حق ادا کرو ۔ اِس حدیثِ پاک سے واضح ہوا کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام حقوق ادا کرے ۔ حقوق ادا نہ کرنا ظلم و تعدّی اور زمین میں فساد مچانے کے مترادف ہے ۔ اِس قسم کے لوگ شریعت کی نظر میں بد ترین مجرم ہیں ۔آخرت میں اُن کے لیے سخت ترین عذاب تیار کیا گیا ہے ۔ آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کی جانب سے جو قرآن لائے ، اُس میں اللہ عز و جل فرماتا ہے :
وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الاَرْضِ ، اُوْلٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوٓئُ الدَّارِ۔ [ سورۃ الرعد ، رقم الآیت: ۲۵]  

ترجمہ: جو لوگ اللہ کے عہد کو اُس کے پَکِّے ہونے کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اُسے قطع کرتے[توڑتے] ہیں اور زمین میں فتنہ و فساد برپا کرتے ہیں ، اِنھی لوگوں کے لیے لعنت ہے اور اِنھی لوگوں کے لیے بُرا ٹھکانا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کو حرام و ناجائز قرار دیا ہے؛ تاکہ روے زمین امن و شانتی کا گہوارہ بنے ،ہر طرف چین و سکون کے دیے جلیں ، ہر جانب قرار و اطمینان کے سِکِّے جمیں۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر امتی پر اِس عہد و پیمان کی پاسداری لازمی ہے ، بصورتِ دیگر اُس کا شمار اُن فسادیوں میں ہوگا جن کے لیے لعنت اور بُرا ٹھکانا  مُقرَّرہے ۔

جس کام سے بھی انسانیت کو خطرہ لاحق ہو یا امنِ عالم متاثر ہوتا ہو ،اللہ عز وجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے بندوں کو اُس سے سختی کے ساتھ منع فرما یا ہے ۔ اللہ عز وجل نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا :

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ۔ [سورۃ الأعراف ، رقم الآیت: ۳۳]

ترجمہ: اے محبوب ! آپ فرما دیجیے ! کہ میرے رب نے تو بے حیائی کی کھلی اور چھپی تمام باتوں کو ، گناہ کو اور ناحق زیادتی کو حرام قرار دیا
 ہے ۔

جرائم اور بے حیائی کی باتیں انسانیت اور امنِ عالم کے لیے زبردست خطرہ ہیں،اِس لیے اہلِ ایمان کو اِن سے روکا گیا ہے ۔اِسی طرح ناحق زیادتی سے بھی اَمَن غارت ہو جاتا ہے ، خواہ زیادتی مومن کے ساتھ کی جائے یا کسی کافر کے ساتھ ، رشتے داروں کے ساتھ کی جائے یا پڑوسیوں کے ساتھ ، چھوٹوں کے ساتھ کی جائے یا بڑوں کے ساتھ ، کسی فرد کے ساتھ کی جائے یا کسی جماعت کے ساتھ ، بہر حال زیادتی اَمَن کے لیے خطرہ ہے ۔ اِس لیےآقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے حرام قرار دیا ہے ۔

 انسانی جان کا تحفظ : 

نظامِ مصطفیٰ علی صاحبہ الصلوٰۃ والتحیۃ والثنا میں انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے ، کیوں کہ جان کے تحفظ کی ضمانت کے بغیر انسانی معاشرہ امن و شانتی کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔ جب تک انسان کو اپنی جان کے تعلق سے مکمل اطمینان وسکون نہ ہو ،وہ خوش گوار زندگی نہیں گزار سکتا ۔ وہ سوسائٹی تباہ و برباد ہو جاتی ہے ، جس میں لوگوں کو قاتلوں اور فسادیوں سے تحفظ فراہم کرنے والا شخص یا قانون نہ ہو ۔اِس لیے حضور رحمتِ دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انسانی جان کے تحفظ کو ایسا یقینی بنایا ہے کہ دنیا کے جس گوشے میں بھی نظامِ مصطفیٰ کو بالا دستی حاصل ہوگی ،وہاں ہر طرح کا امن و امان ہوگا ۔ اِس معاملے میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاہب و اُمَمِ عَالَم میں کوئی تفریق نہیں کی ہے ۔

یہ دیکھیے! مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنیہ میں اللہ عز وجل نے قتلِ ناحق کی کیسی شدید مذمت فرمائی ہے اور کیسے زبردست طریقے سے انسانی جان کو تحفظ عطا فرمایا ہے ۔ فرمانِ خداوندی ہے :

مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَأنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً ۔ وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَأنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً۔ [سورۃ المائدۃ ، رقم الآیت۳۲:]

ترجمہ: جس نے جان کے بدلے کے بغیر کسی کو قتل کیا یا زمین میں فساد مچایا تو گویا اُس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک جان کو بچا لیا تو گویا اُس نے سب لوگوں کو بچا لیا ۔

اِس آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے محبو ب کی زبانی یہ اعلان فرمایا کہ ایک انسان کو نا حق قتل کر دینا سارے انسانوں کو قتل کر دینے کے برابر ہے اور ایک شخص کو موت سے بچا لینا ساری انسانیت کو بچا لینے کے مترادف ہے ۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ کافروں کو جہاں پائیں قتل کر دیں ، اُنھیں اپنی اصلاح کر لینی چاہیے اور ایسے گمانِ فاسد سے باہر آجانا چاہیے ۔ کیوں کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے ۔ حقیقی اسلامی تعلیم تو وہی ہے جو اِس آیتِ کریمہ میں مذکور ہے ، کہ کسی ایک جان کو بھی ناحق مارنا پوری انسانیت کو مارنے کے برابر ہے ، وہ مقتول مومن ہو یا کافر ۔ اور ایسا ظالم شخص پوری انسانیت کو قتل کرنے کا مجرم ہے ۔

 انسانی مال کا تحفظ : 

حضور ِ انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بلا امتیازِ مذہب و ملت اور بلا تفریقِ رنگ و نسل، سب کی دولت کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔ مذہبِ اسلام نے انسانی اموال کے تحفظ کے لیے با قاعدہ متعدد قوانین بنایے ہیں ، جن کی پاس داری کرنا ہر مسلمان کی شرعی ذمے داری ہے ۔ اگر آج بھی اہلِ انصاف اُن قوانین پر نظر ڈالیں تو اسلام کی خوبیوں کے قائل ہویے بغیر نہ رہ سکیں گے ۔ اِس سلسلے میں قرآن مقدس کی چند آیتوں اور آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی  متعدداحادیث کا خلاصہ اختصاراً عرض کیا جا رہا ہے ۔
نظامِ مصطفیٰ کے ماننے والوں پر یہ واجب و ضروری ہے کہ:

 ٭ ناحق کسی کا مال نہ لیں ، نہ چوری کرکے ،نہ ڈاکہ ڈال کر ، نہ سود کے ذریعہ ،نہ دھوکہ دے کر۔
٭ کسی کا مالِ ناحق لینے کے لیے اُس پر مقدمہ دائر نہ کریں۔
٭ ناپ اور تول میں کمی کرکے کسی کو نقصان نہ پہنچائیں ،بلکہ پورا پورا ناپیں اور تولیں۔
٭ واپس نہ کرنے کی نیت سے کسی سے قرض نہ لیں۔
٭ رشوت دینے سے بھی پرہیز کریں اور لینے سے بھی گریز کریں۔
٭ یتیم بچوں کا مال ہر گز ہرگز نہ کھائیں۔
٭ امانت میں خیانت نہ کریں۔

غرض یہ کہ جس کام سے بھی انسانی اموال کو خطرہ لاحق ہو ،نظامِ مصطفیٰ میں اُس سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے ۔

 انسانی عزت و آبرو کا تحفظ : 

پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی عزت و آبرو کو بھی مکمل تحفظ عطا فرمایا ہے ۔ نظامِ مصطفیٰ میں ہر شخص کو ایک مقام حاصل ہے ، جسے کوئی فرد یا معاشرہ کچل نہیں سکتا ۔ لہذا اسلامی معاشرہ میں کسی کے لیے کوئی ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے کسی کی عزت وغیرت پر حرف آتا ہو ۔ عزتِ نفس پر حملے کی جتنی بھی صورتیں ہو سکتی ہیں ،قرآنِ مقدس نے سب پر روشنی ڈال پر اُن کے قبح کو اجاگر کیا ہے ۔ قرآن ِ مجید نے ایسے مزاق سے بھی روکا ہے جس سے کسی کی ہتکِ عزت ہوتی ہو ۔ ارشادِ خداوندی ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسیٰٓ اَنْ یَّکُونُوْا خَیْراً مِّنْھُمْ وَلَا نِسآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰیٓ اَنْ یَّکُنَّ خَیْراً مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْآ اَنْفَسَکُمْ وَلَا تَنَا بَزُوْا بِالاَلْقَابِ ۔[سورۃ الحجرات ،رقم الآیت:۱۱]

ترجمہ: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مزاق نہ اڑائے، عجب نہیں کہ وہ اُن مزاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں پر ہنسیں دور نہیں کہ وہ اُن ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔

آیتِ کریمہ میں غور کرنے سے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے مثلاً یہ کہ 

[۱] مرد ایک دوسرے کا مزاق نہیں اڑا سکتے
 [۲] عورتیں ایک دوسرے کی تفریح نہیں لے سکتیں
 [۳] مرد وزن ایک دوسرے کی ہنسی نہیں اڑاسکتے
 [۴]کوئی کسی کو طعنہ نہیں دے سکتا
 [۵]کوئی کسی کا نام نہیں بگاڑ سکتا ۔

 اللہ رب العزت نے اِن تمام باتوں سے اِسی لیے منع فرمایا ہے کہ یہ انسانی عزت و وقار کے خلاف اور فتنہ وفساد کا ذریعہ ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظامِ امن و امان میں ہر فردِ انسانی کے حقوق متعین ہیں ۔ حضور کا لایا ہوا قانون ساری خلقت کے امن کا ضامن ہے ۔ آپ علیک الصلاۃ والسلام نے اپنی تعلیمات و ارشادات اور عملی زندگی کے ذریعے ظلم و سرکشی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ سسکتی انسانیت کو اپنے دامنِ رحمت میں پناہ دی ۔ مظلوم و بے بس انسانوں کے سروں پر دستِ شفقت پھیرا ۔ یتیموں اور بیواؤں کی فریادیں سن کر اُن کے درد کا مداوا فرمایا۔ زوجین کے حقوق کا تحفظ فرمایا ۔والدین اور بچوں کے حقوق کی حفاظت فرمائی۔بہنوں اور بھائیوں کے حقوق محفوظ فرمائے ۔ عورتوں اور بچیوں کو عزت و سرخروئی کا تاجِ زریں پہنایا ۔مطلقہ اور بیوہ عورتوں کو انسانی سوسائٹی میں اہم اوراونچا مقام مرحمت فرمایا۔بوڑھوں اور ضعیفوں کے حقوق متعین فرمائے ۔پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت و شان اُجاگر فرمائی ۔ غریبوں ، مسکینوں اور معذوروں کے حقوق بیان فرمائے ۔مہمانوں کو رحمت قرار دیا۔ مسافروں اور اجنبیوں کو سہولیات فراہم کیں ۔طلبہ و معلمین کو سرفرازیاں عطا فرمائیں۔ مریضوں اور مظلوموں پر خاص توجہ فرمائی ۔ یہاں تک کہ جانوروں اور مُردوں کے حقوق بھی متعین فرمائے ۔

فصلی اللہ تعالیٰ علی سید نا و مولانا محمد و علی آلہ و صحبہ و بارک وسلم
????????????????????????????????????????

پیش کش :  نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی انڈیا۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter