خواتین کیرالاکی بحیثیت اساتذہ اردو میں اہم خدمات کاتجزیہ و تذکرہ
سماج میں اساتذہ کا کردارہمیشہ قابل تعریف اور اہم ماناجاتا ہے اس کے بغیرمعاشرہ کی بہترین تشکیل ممکن نہیں کہاجاتاہے کہ ماں کا گہوارہ، بچہ کا پہلا مدرسہ یا اسکول ہوتاہے جس سے اس کو سمجھنے اور سیکھنے کی قوت پیداہوتی ہے ماں جتنی عمدہ کردارکی ہوگی بچوں میں اسی طرح کا اثر وقوع پذیرہوگا گویایہ کہنا درست ہوگا کہ ایک بچے کو جتنا بہترایک عورت سمجھ اورسمجھا سکتی ہے اتنا دوسرا نہیں سمجھ سکتاہے مگر چونکہ تعلیمی وتدریسی پیشہ عمومامردہی اختیارکرتے تھے لہذا عورتوں کاپیشہ وارنہ طور پر تدریسی خدمات سے جڑنا سماج میں عام نہیں تھا یعنی ایک زمانہ تک تعلیم وتدریسی خدمات مردوں تک محدودتھایامحدود سمجھا جاتاتھا مگروقت کے ساتھ لوگوں کی ان دقیانوسی فکروں میں تبدیلیاں نظر آرہی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہرمیدان میں عورتیں مردکے مساوی کھڑی ہیں خاص طور سے تعلیم کے میدان میں بہ حیثیت استاد مردوں کے بہ نسبت خواتین کی اچھی خاصی تعداد اس پیشہ جڑی چکی ہیں اور مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کو استاد کی حیثیت سے ترجیح بھی دی جارہی ہے۔ جبکہ یہی چیزیں کچھ زمانہ قبل معیو ب سمجھا جاتا تھا ۔
چنانچہ جب 1970ء کے بعد کیرالا میں اردو کی تعلیم کے لے سازگار ماحو ل تیارہواتو مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی اردوکی تعلیم وتدریس میں وافرحصہ لیا، چونکہ اردوکی تدریسی میدان میں خواتین کے لئے مستقبل میں بہتر ین امکانات روشن تھے اس لئے کیرالا کی بہت سی خواتین نے اولا اردو میں بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی جس طرح دوسری عنوانات میں بی اے ۔ پی چی۔ ایم فل۔ پی ایچ ڈی وغیرہ کے حصول کی سنجیدہ کوشش ہوئی اسی طرح اردو سبجیکٹ کو خواتین کیرالا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی تعلیم یافتہ خواتین کی ایک جمعیت تیارہوگئی جس نے کیرالا کی اسکولوں کالجو ں اوریونیورسٹیوں میں بہ حیثیت ٹیچرس لکچررس اورپروفیسرس کے اپنے وجود کا لوہامنوایا اور آج جگہ بہ جگہ پرائمری سے ہائی ایجوکیشن تک عورتیں بہ حیثیت استاد موجو د ہیں۔
خواتین میں سے چند مشہورومعروف کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
ڈاکٹر صفیہ بی صاحبہ۔ خواتین کیرالا کی پہلی اعلی تعلیم یافتہ خاتون صفیہ بی ہیں انہوں نے کالیکٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹر صفیہ بی، بن گئیں۔ انہوں نے اپنی تدریسی خدمات کی ابتدا انجمن اردوکالج تلششیری سے کیا بعد فاروق کالج کالی کٹ میں لکچررکی حیثیت سے تقریبا ۳۲سال تک خدمات انجام دی۔ پھر1996ء میں شری شنکر آچاریہ سنسکرت یونیورسٹی کوئیلانڈی ریجنل سینٹر میں صدرشعبہء اردو کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا اور 2010ءمیں وہ وظیفہ یاب ہوگئی۔
محترمہ صفیہ بی۔ کاشمارایک عمدہ محققین میں ہوتا ہے جس وقت یہ شری شنکراچاریہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی صدر تھیں ان کے تحت کیرالا کے بہت سے اعلی تعلیم یافتہ شخصات نے پی ایچ ڈی اورایم فل کی ڈگریاں مکمل کی ہیں۔ جیسے ڈاکٹر’’کے پی شکیلہ، صدرشعبہ اردو، ملاپورم کالج ۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمن مدنی، استاد شانتا پورم، ایم کے ڈاکٹرمحمد سلیم، ڈاکٹر قمرالنساء وغیرہ۔ ٓج بھی وہ اردومحققین کی گاہے بگاہے رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی رہنمائی میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے طلباء اردوکی تعلیم وتدریس میں اعلی مقام پر فائز ہوکر کیرالا کے مختلف مقامات میں اردوکی ترقی وترویج کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ محترمہ صفیہ صاحبہ نے اردو کی بہت گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ ایک اچھی شاعرہ، ادیبہ ہونے کے ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں انکے علاوہ وقتافوقتا سیمناروں اور رسالوں میں بھی اپنے مضامین شائع کرعوام سے داد وتحسین بٹورتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر کے پی شکیلہ صاحبہ۔ اردو میں اعلی تعلیم یافتہ خواتین کیرالا میں ایک نام محترمہ شکیلہ کے،پی، کا ہے جوگورنمنٹ کالج ملاپورم میں صدرشعبہء اردو کی حیثیت سے اردوکی خدمات انجام دے رہی ہیں صدارت کے ساتھ اردو لائبریری کی ذمہ داری بھی سنبھالتی ہیں اوریقینایہ دونوں مہ دار یاں محترمہ بہ حسن وخوبی سے نبھارہی ہیں حسب ضرورت بچوں کے لئے مواد تلاش کرانہیں امتحا نا ت کے موقعہ پرمعاونت بھی کرتی ہیں جس سے بچوں میں ان کی ایک ممتاز حیثیت ہے۔ اب تک ان کے سینکڑوں شاگرد ہوچکے ہیں جو کیرالا کے مختلف مقامات پر اردو کی ترقی میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ موصوفہ شکیلہ صاحبہ نے ڈاکٹر صفیہ صاحبہ کی نگرانی میں شری شنکرآچاریہ یونیورسٹی سے کیرالا کی مشہورناول نگار زلیخا حسین کی ناول نگاری پر’’ پی ایچ ڈی، کی ہے اور یہ بھی ان کی خصوصیت ہے کہ زلیخاحسین کی تقریباساری ناولیں انہیں کے پاس موجو د ہے جس میں راقم کی ڈاکٹرشکیلہ صاحب نے پھرپور مدد کی ہے اور ہرطریقے سے انہوں نے کیرالا کے متعلق محررہ مختلف مقالات کو مہیاکرایا ہ میں ان کا تہہ دل سے ممنون مشکورہوں کہ انہوں نے کیرالا میں اردوکی تحقیق میں اخلاص وخندہ پیشانی سے معاونت کی : ان جیسی منکسر المزاج کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اعلی عہد ہ پر فائز ہونے کے بعد بھی ایک انجان آدمی کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیارہوں ۔
ڈاکٹر سبیدہ موژکل صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں اردو کی ترقی میں اہم رول اداکرنے والیوں میں ایک نام سبیدہ موژکل صاحبہ کا ہے انہوں نے تقریبا ۹/ سال تک ہندی ٹیچرکی حیثیت سے ایرنا کولم ےیوپی اسکول (Upper Primary) میں خدمت انجام دی پھر 2013ءمیں گورنمنٹ کالج ملاپورم میں لکچرر کی حیثیت سے تقرری ہوئی اردوکی ترقی کے کاموں میں ان کی شرکت رہی ہے شعبہ اردو کی تمام تقریبات میں شریک ہوتی ہیں اور اپنی طرف سے پھرپور اردو کی ترقی میں معاونت کرتی ہیں ان کے علاوہ (SCERT)کی کتابوں کی تیاری میں بھی ان کی شرکت رہتی ہے۔ سبیدہ صاحبہ کالج women cellکی رکن بھی ہیں جو خاص طورسے لڑکیوں کی ترقی کے لئے خدمات انجام دیتی ہیں ۔ نیز Program Additional skill Acquisition (ASAP) کی ایک ممبر بھی ہیں۔
سی ایچ ممتاز صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں ایک نام ممتاز سی ایچ کا ہے جو وینگراvengraایچ ایس ایس میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی تھی بعدہ 2013ء میں گورنمنٹ کالج ملاپورم میں تقرری ہوئی اوریہاں اردوکی تر قی کے لئے سرگرداں ہیں۔ سمینہ صاحبہ۔ سمینا بی صاحبہ کا نام بھی اردوکی خدمات میں اہم ہے یہ تلشیری برنن کالج کے صدر شعبہ اردوکی حیثیت سے یہاں اردوکی تعلیمی و تدریسی کاموں مصروف ہیں۔
جمیلہ صاحبہ۔ جمیلہ صاحبہ یہ بھی اردوکی خدمات میں پیش پیش رہتی ہیں GHS EDAKKAR میں ٹیچر کی حیثیت سے تدریسی کام کی ابتدا کی پھر رفتہ رفتہ اردو کی ترقی سے وابستہ ہوگئیں 2006ءHSS میں کام کرتے وقت Punarppa UP School کے طلباء کے لئے جھلک نامی رسالہ میں بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی کہانیاں شائع کیں ان اسکولوں کے ماتحت ہر سا ل اردو کلب کی ماتحت میں پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں SSLC PLUS 2کے طلباءمیں اردوسے دل چسپی پیداکرنے کے لئے’’غزل پروگرام ،، میگز ین ورکشاپ وغیرہ کا انقعاد کرایاجاتاہے جس میں جمیلہ صاحبہ کی معیت میں UP HSSکی ٹیچرس کی خدمات بھی قابل تعریف ہے ۔
جولی سوفیاصاحبہ ۔ جولی سوفیا،، ضلع ترشورمیں ٹیچرکی حیثیت سے خدمات انجام دیتی ہیں۔1990ء میں ارپورہائی اسکول میں ٹیچرکی حیثیت سے کا م کرتی تھی اورگھر پر’’ادیب فاضل ،، کی سلبس کے تحت اردو کلاس بھی لیتی تھی SRG DRGکی حیثیت سے ITکے طلبا کو بھی پڑھا تی ہیں وہیں ساتھ ہی اردوکی ترقی کے لئے بھی اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ حسینہ صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں ایک خاتون حسینہ صاحبہ ہیں جو1998ء میں کاسرکوڈ کےUPاسکول میں بحیثیت ٹیچر خدمات انجام دیتی تھی بعدہ 1999ء میں HSA میں تبادلہ ہوا انہوں نے مختلف شعبہ میں کام کرتے ہوئے SRG DRGکے لحاظ سے اردوکے لئے بھی کوشش کی ہے ۰۱۰۲ء ;247; میں گورنمنٹ برنن کالج میں اردوداں حضرات کے لئے آئی ٹی اور نفسیات میں بھی کلاس لیتی تھیں ۔ ان کے جیسی کاسرکوڈ میں اردوٹیچر کے طور پر کام کرنیوالی ’’سجادہ صا حبہ،، ۔ ضلع کنورسے’’ حفصہ لتا صاحبہ ،،ضلع کالی کٹ سے’’زلیخاصاحبہ،، شکیلت بی بی ،، مکم کے’’ سروجنی ،،تانورسے ’’کے بی بی ،ماہی سے ’’کے سفرت ،، وڈولی کی ’’رقیہ ،، اشا،، پانکاڈ کے’’ سمگلا دیوی ،،وغیرہ کیرالا وہ خواتین ہیں جنہوں نے اردوکی ترقی میں کچھ نہ کچھ خدمات انجام دیتی رہتی ہیں اوراردوکی ترقی کے لئے ذاتی طور سے تھوڑی بہت کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اردوکے امتحانی پیرس کی چیکنگ;paper valuation میں۲۲ اساتذہ شامل ہوئے جن میں ۸ خواتین میں سےتھیں۔
نفیسہ صاحبہ ۔ کا تعلق ترشورسے ہے یہ بھی اردو ٹیچرکے طور خدمات انجام دیتی ہیں SCERTکے ورک شاب میں بھی شامل رہتی ہیں آبشارنامی رسالہ میں طلباکے فنی قسموں کو شائع کیا تھا ترشو ر میں ان کے کافی شاگرد ہیں۔ کیرالا کی خواتین کا اردوکی ترقی میں مختلف طریقے سے معاونت رہتی ہے بہت سی عورتیں باقاعدہ اسکولوں کالجوں میں اردو زبا ن کی تعلیم دیتی ہیں اور بہت سی خواتین اردو سے متعلق ورکشاب میں حصہ لیتی ہیں وہیں بہت سی خواتین اردو میں منعقد پروگرام کی حصہ رہتی ہیں بعض اسکولوں کالجوں میں اردو کے متعلمین کچھ میگزین رسالہ تیارکرتے ہیں ان میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔
بہر صور ت اردوکی ترقی میں خواتین کیرالا کہیں سیدھے طور سے اور کہیں کسی وسائل سے شامل رہتی ہیں۔ ان میں بہت سے خواتین ایسی ہیں جن کا کہیں کوئی اردو کا اعلی تعلیم یافتہ شاگر د تذکرہ کردیتا ہے اور کہیں کوئی چھوڑ دیتا ہے البتہ جو کسی بڑے عہدے پر اردو کی خدمات میں پہنچ جاتی ہیں ان کا ذکر توعام ہوجاتا ہے اور جو اعلی عہد ے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں وہ ذاتی طو ر پراردوکی ترقی میں کافی کوشاں ہوتی ہیں پران کانام عوام میں مشہور نہیں ہوپاتا ہے۔ ان حالات میں جب ہم کیرالا کے مختلف ضلعوں کا اردوکی ترقی میں خواتین کیرالا کی حصہ داری کا مطالعہ کرتے ہیں توہم پاتے ہیں جہاں جہاں اردو کا چلن ہے وہاں وہاں بلا تفریق مذہب وملت عورت ومرد دونوں حضرات کا اردوکی ترویج وترقی میں اہم رول رہاہے بس کوئی شہرت کی اچائی کو پالیتاہے اور کوئی بھول بھولیاکی نذر ہوجاتاہے۔
مختصر طور سے ان میں سے کچھ کا نام پیش کیا جارہا ہے ۔ UPاسکولی سطح پر۔’’سودہ، پالاکاڈ، رمابائی، زینب، آمنہ، تانور ،مریم، پروینا، پیرندل منا۔ سودہ ،ملاپورم ۔جمیلہ منجیری۔ آمنہ ،کنور۔ نفیسہ ترشور۔ جولی کٹی تومس،جولی سوفیا، ترشور۔ حسینہ، سجادہ، کاسرکوڈ ۔ قمرالنساء کالی کٹ۔ اعلی تعلیم یافتہ خواتین جنہوں نے مختلف عنوانا ت پر اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ شانو پروین (راجیندرسنگھ بیدی کے افسانوں میں عورت کاتصور ) قمرالنساء (کرشن چند ر کے افسانو ں میں سماجی مسائل )مبینہ بی ،(پت جھڑ کی آواز )شکیلہ کے پی۔ (زلیخاحسین کی ناول روح کے بندھن کا تجزیاتی مطالعہ )ودیاپی، (جوگیندرپال کے افسانو ی مجموعے کھودوباباکامقبرہ ایک تجزیاتی مطالعہ)شمیہ بانو،)مشتاق احمدیوسفی بہ حیثیت مزاح نگار)سمیہ،او، (مولانا ابوالکلا م آزاد حیات اور خد ما ت )وغیرہ نے سری شنکراچاریہ یونیورسٹی سے ایم فل وغیرہ کی ڈگری پانیوالی خواتین ہیں۔