کیرالا میں اردو کا ارتقاء تاریخ کےآئینے میں۔(قسط ٢)
کیرالا میں عہداول کےکالجوں اورمدارس ومساجد میں اردو کی تعلیم وترویج وترقی سے وابستہ علماء ونثرنگار اور شعراء (قسط2)
اثناء تحریک آزادی وخلافت میں مالابارکےاس عہدکاجب ہم جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتاہےکہ اس وقت کےعلماء دین ہوں یازعماءسیاسی قریب قریب سبھی کواردوسےکچھ نہ کچھ واقفیت ضرورتھی اورہوتی بھی کیوں نہ کہ اولاان تحریکو ں کاتعلق اردوعلاقوں سےتھاجورفتہ رفتہ ہند بھرمیں پھیل گیااورچونکہ اردوزبان کوانگریزوں کےذریعہ بھی ہندوستان کے چمنستان میں پھلنےاورپھولنےکاخوب خوب موقع میسرہوایہی وجہ ہےکہ فرنگیوں کےزمانہ میں دفتری زبان اردوہواکرتی تھی اس میں علاقوں کی کوئی قید نہ تھی۔
”سی پی محمدمولوی،،یہ بھی اردوزبان کی محبین میں سےایک ہیں جو”روضۃ العلوم عربی کالج،،نامی ایک ادارہ جسکاقیام "آنکّائم منجیری،، میں "نورالاسلام مدرسہ" کےبعدہوااس ادارہ میں مستقل طورسےارد وکی تعلیم کابندوبست تھاجس کےمعلم ”سی پی محمدمولوی،،تھےانہوں نےبھی اس وقت اردوکی تعلیم کےفروغ کی طرف توجہ دی تھی جس کی شروعات خوداپنے ادارہ"روضۃ العلوم عربی کالج"سےکی،یہ عربی کالج بعدمیں فرخ یعنی فاروق موجودہ فروک،نام کی جگہ پرمنتقل ہوگیاجہاں آج بھی فاروق کالج ایک مشہورتعلیم گاہ ہے فاروق کالج میں شعبہ اردوکاقیام1949ءمیں ہوا اور12/اگست1948ء میں فاروق کالج کی ابتداہوئی تھی یہاں سے کیرالاکےعہدماضی میں اردوکی بہت خدمات انجام دی گئیں ہیں اوراب بھی انجام دی جارہی ہیں یہاں خاص طورسے تامل ناڈو،کرناٹکا،حیدرآبادوغیرہ مختلف صوبوں کے قابل ڈاکٹريٹ ڈگری کےحامل اردو اساتذہ نےاپنی اپنی کدکاوش سےارد وکوفروغ دینےکی حتی الامکان کوشش کی ہےفاروق کالج کےعہداول ہی سےاردوکی تعلیم دی جاتی ہےفاروق کالج کےسب سےپہلےلکچررسید محمد صا حب ہیں کیرالامیں اردوکےتعلق سےفاروق کالج کاایک اہم مقام ہے یہاں سےبہت سی اردوکتابیں بھی شائع ہوئی ہیں خاص طورپران حضرات کی جواس کالج کےمعلمین کی جماعت سے متعلق رہے ہیں۔ جناب سید قدرت اللہ باقوی صاحب میسوری۔۰۷۹۱ء میں فاروق کالج کے لکچر ر بن کرآئے تو انہوں نے کیرالا میں اردو کی ترقی کے لئے مسلسل ۹۱برس تک بڑی محنت وجانفشانی کی فارو ق کالج کو اردو کی شان اور اسکی پہچان بنایا،کئی انجمنوں کی رہنمائی کی جس کانتیجہ یہ ہوا کہ آج بھی فاروق کالج میں ان کے اثرات بہ شکل شاگرد وخدمات نمایاں طور پر محسوس کیے جاتے ہیں اسی کالج میں عبدالرب،ابراہیم، نثاراحمد صاحبان،اورفوزیہ بیگم صاحبہ بنگلوری کی بہ حیثیت استاد اردو خدمات میں ان کاحصہ ناقابل فراموش ہے۔
ڈاکٹر ریاض احمد تلچری۔ فاروق کالج کے سا بق لکچررہیں اور اردو میڈیم سے اعلی تعلیم حاصل کی کنورکی اولیں اردو کالج گورنمنٹ برنن کالج تلچری سے بی اے کی اور ایم اے میسوریونیورسٹی اورپی ایچ ڈی کوئمپویونیورسٹی شموگہ حاصل کی ہے جون ۹۸۹۱ء سے مارچ ۱۱۰۲تک اور بعدہ اسوسی یٹ پروفیسرکی حیثیت سے فاروق کالج میں اردوکی خدمات انجام دی ہے انہوں نے اردوکے کئی مضامین لکھے جو ہندوستان کے مشہور معروف اخباروں اور میگزین کی زینت بن چکی ہے وہیں انہوں نے اردوکے۵۲ مضامین کامجموعہ ”کیرالا میں اردو،، کے نام ایک کتاب زیوارطباعت سے آراستہ فرماکرکیرالامیں اردو کے کازکو بلندکیاہے۔انہوں نے ۵۰۰۲ء میں یوجی سی کے تعاون سے ”کیرل میں اردو، ایک تاریخی پس منظر پرایک مینرریسرچ کی تکمیل کی وہیں ۳۱۰۲ء میں یوجی سی کے مالی تعاون سے مینر ریسرچ پروجکٹ کے ذریعہ ملیالم اردولغت،،بھی تیارکی ہے۔ یہ کارنامے یقینا ان کی اردوسے محبت او راردوکی ترقی وترویج میں ایک سنگ میل ہے۔
حسن مولوی۔یہ وہ اردو کے دیوانے ہیں جنہوں نے وہاں اردو کا چراغ جلایا جہاں لوگ اس کاتصور بھی نہیں کرسکتے ہیں مگر انہوں نے کیااور اس دور میں ”اردوزبان،،نامی کتاب ترورنگاڑی ضلع ملاپورم سے شائع ہوئی وہیں ۳۴۹۱ء میں کرامنا ضلع تروننتاپورم سے”اردوٹیچر،،کے نام سے ایک کتاب جناب اے محمدصاحب کی زیرنگرانی تیارکراکے شائع ہوئی۔اسی طرح تلاشیری ضلع کنور کے ایک نام چین عالم ”محمد مولوی،، نے اس عہد میں جب لوگ اردو لغت کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے پانچ ہزار صفحات کی ایک ضخیم”اردوملیالم لغت،،(غیر مطبوعہ) تیارکی،وہیں ”ولاپٹنم عبداللہ مولوی ”نے سلطان اللغات،، کے نام سے لغت کے علاوہ انہوں نے مرزاغالب کی سوانح حیات ملیالم زبان میں ترجمہ کرکے شائع کی۔
جناب عبدالکریم اخترسیٹھ صاحب۔ ان کاتعلق میمن برادری سے تھا ان کے والد عبداللہ سیٹھ تھے یہ تاجر پیشہ حضرات گجرات سے نقل مکانی کرکے کیرالاپہنچے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے عبدالکریم اختر سیٹھ صاحب عربی اردوکی تعلیم اپنے والدسے حاصل کی تھی اس دورکے علماء کی صحبت میں ان کااٹھنا بیٹھنا تھا اس لئے رجحان بھی دیندارانہ تھااس دوران ان کو احساس ہوا کہ یہاں سے کوئی اردو رسالہ نکلے تاکہ لوگ اسی بہانے دینی امور کے ساتھ دیگر حالات سے واقف ہوتے رہیں چنانچہ ۸۳۹۱ء میں میمن اوردکنی برادری کے لوگ سے مشورہ کرکے متفقہ طور اردو رسالہ شائع کرنیکا ارادہ ہواجسکا نام ”نارجیلستان،،رکھا گیاعبدالکریم صاحب اردوکی ترویج وترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے جس کے لئے اپنی جیب خاص سے بھی رقم خرچ کرنے دریغ نہیں کرتے تھے جناب اختر صاحب کی کئی اردو نظمیں ماہنامہ رسارلہ ”زمیندار،،میں اور خود نارجیلستان بھی شائع ہو کئی مضامین اورڈارمے بھی تحریر کئے ہیں وہ ہمیشہ اردوکی ترقی وتریج کے لئے پابہ رکاب رہتے تھے کیرلا میں اردوکی ترقی میں ان کے کارہائے نمایاں اب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
ایس،ایم سرور۔ کیرالا میں اردوکی ترویج خاص طورپر شاعری میں ایک قابل قدرنام ماناجاتاہے ان کی زندگی کیرالامیں اردو کی ترویج وترقی سے عبارت ہے شاید ہی کوئی ایسی اردو تنظیم،اردو جما عت،اردواسکول واردومدرسہ اردوانجمن،اردواسوسی ایشن ہوگا جن سے ایس ایم سرور کا نام نہ جڑاہو۔ابتدامیں تلاشیری اردواسکول سے جڑے پھرملا پورم تشریف لائے تو یہاں کئی اسکولوں سے رشتہاستوار کرکے کئی انجمنوں کا قیام عمل میں لایااور یہاں سے اردوکلا سوں کے علاوہ اردو کی صدا پورے کیرالا میں پیہم پہنچانے کی تگ ودو کی،یہ اردو کے بہترین ادیب وشاعربھی ہیں ان کے دو شعری مجموعے ”ارمغان کیرالا،، نوائے سرور،،منظر عام پر آچکی ہے اور ہندوستان کے جیدجید علماء ادباء و شعراء سے خوب خوب دادوتحسین بھی وصول کرچکی ہے۔
منارکاڈ ۱۷۹۱ء میں پی کے کن محمد مولوی صاحب۔ اردو کی تدریسی خدمات شروع کی۔وہیں اسی سن۱۷۹۱ء میں پی محی الدین کٹی دور اول میں اور اس کے بعد”این محی الدین کٹی“کے تحت چلنے والا اردو کاوہ واحد ادارہ جو تقریبا تیس سال سے زائد عرصہ سے کیرلامیں اردو کی روشنی بکھیر رہا ہے ایلائٹ اردوکالج ملاپورم ہے جو اردو کاقلعہ ہے جہاں طلباء اپنی ذاتی اخراجات کے ساتھ اردو کی تعلیم حاصل کررہے ہیں یقینا اس کی خدامت سراہنے کے لائق ہے۔
اسی طرح کے ٹی،سی بیران صاحب نے چننا منگلورضلع کالیکٹ میں اردو کلاس کی ابتدائی کی ساتھ ہی کئی انجمن قائم کیے جس میں اردو کلاس کا انتظام کیاگیا۳۷۹۱ءکیرالا گورنمنٹ کے زیر نگرا نی جب اردو لوئر ہائرامتحانات کا انقعادہواتواس میں کے ٹی سی بیران صاحب نے بڑھ چڑھ کر نہ صرف حصہ لیا بلکہ مختلف جگہ جاجاکر اپنی انتھک محنت سے بچوں کو اس امتحان کیلئے تیارکرایابلکہ کے ٹی سی بیران نے کالی کٹ میں چننا منگلوراروینٹل اردوکالج کی شروعات بھی کی۔
محترمہ عائشہ بائی۔کی پیدائش ۹۱۹۱ء کو تلیشری میں ہوئی ان کے والدسیٹھ عبداللہ تھے جو سیٹھ عبدالستارصاحب کے بھائی تھے ان کے شوہر سیٹھ عثمان تھے ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ یوسفیہ میں ہوئی اردو سے ان کو بہت سے شغف رکھتی تھی عہد طفولیت سے ہی اردوشاعری کی طرف مائل تھی چونکہ ان کے بہت سے رشتہ دار شعراء تھے اس لئے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اچھی شاعری کرنے لگیں ان کے بہت سے کلام ماہنامہ شاعر نئی دہلی اور مقامی رسالہ نارجیلستان وزمیندارمیں شائع ہو جس کو لوگوں نے کافی سراہااوراس طرح سے انہوں نے کیرالا میں شاعری کے اعتبار سے اردوکوفروغ بخشاان کاانتقال کوچین میں اٹھائیس نومبر ۰۹۹۱ء میں ہوا۔
حاجی سیٹھ عیسی عبدالستارصاحب۔ ان کی پیدائش ۵۱جنوری ۰۱۹۱ء کو متن چیری میں ہوئی انہوں نے بھی اردو کی بہت بے لوث خدمات انجام دی ہے یہ ماہنامہ نارجیلیستان کے ممبرتھے انہوں نے ایک ادارہ ”مجلس اتحادترقی،، کی بنیادبھی رکھی تھی جس کا مقصد اردو کو کی تعلیم کو فروغ دینا تھا۔
زلیخا حسین صاحبہ۔ کیرالا کی مشہورومعروف پہلی اردوناول نگارہیں ان کے والد سیٹھ احمدحاجی اورماں مریم بائی تھیں ان کی پیدائش 1/جنوری 1930ءمیں مٹنچیری کوچی میمن خاندان میں ہوئی اپنے ہی گاؤں کے مدرسہ آسیہ بائی سےچوتھےدرجےتک اردو،عربی کی تعلیم حاصل کی مولوی رضوان اللہ صاحب حیدرآبادی نے ان کواردوفارسی زبانیں سکھائیں جوخودایک ادبی شخص تھے۔ زلیخاحسین کے والدین کی بچپن ہی میں انتقال ہونے کی بناءپراپنےنانا/سیٹھ جانی صاحب کی کفالت میں پرورش پائی جوخوداس وقت کے عمدہ شاعروں میں سے ایک شاعرتھےانہوں نےزلیخا کواس عہد کےشعراءونثرنگارکے کتب بینی کامشورہ دیایہ زلیخاحسین کی زندگی میں نیل کا پتھر ثابت ہوا اوران کواردولکھنے کاشوق وذوق پیداہوامزے کی بات یہ رہی کہ جب ان کی کم عمری میں شادہی ہوگئی توبھی ان کے شوہر"سیٹھ حسین" نے پڑھائی لکھائی جاری رکھنے کا مشورہ دیاان سب سے حوصلہ پاکر زلیخاحسین نے ابتداءاپنے چھوٹے چھوٹے مضامین وکہانیاں لکھ کر”خاتون مشرق،،دہلی،”شمع،، وغیرہ میں بھیجتی رہیں اوران کی کہانیوں کو کئی ماہنامے اخبارات میں جگہ ملتی رہی اور اسی طرح رفتہ رفتہ زلیخا حسین نے20سال کی عمرمیں اپناپہلاناول"میرےصنم"چمن بکڈپودہلی شائع کرانے میں کامیاب ہوئیں مگراس طرح کہ کتاب میں تصویراورپتہ نہ تھاچونکہ ان دادی آسیہ بائی نے ان کی اشاعت سے منع کردیاتھااس ناول میں عورت کی تنہائی اورعشق کوموضوع بنایاگیاتھا۔اس کے بعد دوسراناول "نصیب کی باتیں " شائع ہوئی اس میں الاپوزہ اورکیرالاکی حالت کودرشاگیاتھا۔پھر1970ء میں "تاریکیوں کےبعد"لکھااس ناول کاترجمہ ملیالم زبان میں بھی ہواہے اور 1990ء میں "ایک پھول اورہزارغم " پہلی باریہ ناول زلیخاحسین کےپتہ وتصویرکے ساتھ شائع ہوااوراس طرح زلیخاحسین کیرالاکی ایک بہت بڑی ناول نگاربن گئیں جن کی تقریبا 27ناولوں اورافسانے کے علاوہ متعد دکہانیاں بھی منظر عام پر آچکی ہیں جوبھارت کے علاوہ پاکستان،بنگلہ دیش، اورخلیجی ممالک میں بھی کافی مقبول ہیں 15جولائی 2014ء کوزلیخا حسین اس دارفانی سے کوچ کرگئیں۔ زلیخاحسین نے کیرلاجیسی اردونامانوس زمین پر اپنے اردوناول وافسانہ نگاری ونثرنگاری سے اردوکو کیرالامیں نئی جہت اورنئی سمت دکھائی جورہتی دنیاتک انہیں یادگیاجائیگا۔
"عبدالحمید مولوی حیدری"۔جن کاشمار محب اقبال میں بھی ہوتا ہے اور مترجم قران میں بھی۔ضلع ملاپورم کی مشہور کڈلنڈی ندی کے کنارے ایک مسجد میں بیٹھ کر قران کا اردومیں ترجمہ کرناشروع کیا تھا مگر تکمیل سے قبل ہی اللہ کو پیار ے ہوگئے جوغیرمطبوعہ ہے یہ ااردوکی تشہیر کے تئیں اتنے مخلص تھے کہ بلااجرت کئی مدرسوں میں جاکر اردو کی تعلیم دیاکرتے تھے۔وہیں ان کی پہچان کیرالا کےمشہورمقرراورممبرآف پارلیمنٹ عبدلصمد صمدانی کے والد بزرگوار بھی ہیں صمدانی صاحب کابھی کیرالا میں اپناایک وقارہے جو عوامی ہردل عزیز مقررہیں انکی ایک خاص شناخت ماہر اقبالیات کی بھی ہے چونکہ جناب صمدانی صاحب اپنی تقریر میں اردو اشعاراور وہ بھی ڈاکٹر اقبال کے،بڑے ہی مترنم آواز میں گنگناکراس کی تشریح ملیالم زبان میں کرتے ہیں جس کو لوگ بہت ہی پسند کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ صمدانی صاحب”الولد سرلابیہ،، (بیٹاپاب کا ہمراز/ یاپرتو/ہوتاہے)کے مکمل مصداق ہیں یعنی اردو اورڈاکٹر اقبال سے انسیت صمدانی صاحب کے خون میں وراثۃہے اورواقعی عبدالصمد صمدانی صاحب نے اس کا حق اداکردیا ہے کیرالا میں اپنی تقریر وتحریرکے ذریعہ اردوکی تشہیر کی وہیں کیرالا میں ڈاکٹر اقبال کے نام منسوب کئی انسٹی ٹیوٹ قائم کیاہے جو ان کی اردوزبان اور ڈاکٹر اقبال سے الفت کو درشاتی ہے۔عبدالصمد صمدانی صاحب نے بھی ملیالم زبان میں اردو کی کئی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے ان میں ”نقوش اقبال،، مضامین اقبال،،مضامین گجرال، وغیرہ معروف ہیں۔
" ٹی کےعبید صاحب"۔ یہ بھی اردوکے تعلق سے کیرالا کی مشہور معروف شخصیت ہے جنہوں نے اردو کے بہت سے مضامین اور اردو کی مختلف کتابیں ملیازبان میں ترجمہ کرکے کیرالا میں عام کیا ہے ان میں سے مولاناابوالاعلی مودودی صاحب کی ”تفہیم القرآن وتفسیرالقرآن، علامہ اقبال کا شکوہ جواب شکوہ، اردو کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کابھی ملیالم زبان میں ترجمہ وتشریح شائع کرکے کیرالا میں عام کیاہے اردو کی انہی یادگارخدمات کی بناء پر ان کو کیرالا ساہتیہ اکاڈمی کا ایوارڈ بھی دیاگیا ہے۔
”کے، کے محمد عبدالکریم،،۔”محمد نظامی،،۔”سی حمزہ،،۔صاحبان یہ کیرالا کے مورخین میں شمارکیے جاتے ہیں ان حضرات نے کیر الا کی مسلم تاریخ پراور اردوکی کئی کتابیں ملیالم زبان میں تحریر کی ہیں ان حضرات کو اردو میں اچھی دستر س حاصل تھی۔ کے کے محمد عبدالکریم صاحب نے کئی کتابوں کاملیالم میں ترجمہ کیاہےان میں”عربوں کی جہازرانی،، مصنفہ سلیمان ندوی،،عرب ہند کے تعلقات،، وغیرہ ہیں وہیں سی حمزہ صاحب اردوکےساتھ فارسی زبان پربھی قدرت رکھتے تھے۔
"کاڈیری محمد مسلیار"۔الہیہ مدرسہ کے اردو کے قابل قدر استاذوں میں سے ایک تھے اس مدرسہ کے قرب وجوار والے آج بھی اردوزبان سے تھوڑی بہت شغف رکھتے ہیں وہیں ایم علوی کٹی مولوی مرحوم جن کاشمار جماعت اسلامی کو کیرالامیں متعارف کرانیوالوں میں ہوتا ہے ان کو بھی اردو زبان پر کافی اچھی گرفت تھی، وہیں ایم علی مولوی کوبھی اردو زبان پر اسقد ر قدرت تھی کہ لکھنؤ،حیدرآبادوغیرہ میں بھی اردومیں درس وتدریس کاکام انجام دیتے تھے انہی کے برادر نسبتی،ایم عثمان حاجی،پروفیسرایم عمرصاحبان کو بھی اردوزبان پر عبور حاصل تھاپروفیسر عمرصاحب تو اردومیں شعرو شاعری بھی کرتے تھے۔اردوداں میں پروفیسر کے علی کٹی مسلیاررکن وقف بورڈ، کو بھی اچھی طرح اردو سے واقفیت ہے۔ بہ قول ڈاکٹر شمس الدین تروکارڈ صاحب کے”جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے وہ ہم سے اردومیں ہی مخاطب ہوتے ہیں“۔الہیہ عربی کالج تروکاڈ کے نگراں شریف مولوی صاحب کو بھی اردو میں اچھی پکڑ ہے موصوف اپنی تقریر وں خطبوں میں اردو کے اشعارکا استعمال بھی کرتے ہیں اور اردو کی تشہیر بھی، بہ قول ڈاکٹر شمس الدین تروکاڈمولو ی شریف صاحب سے کئی سال سے تعلقات ہیں مگر”جب بھی ملاقات ہوتی ہے اردو میں ہی گفتگو کرتے ہیں“۔
گویاہم یہ کہہ سکتےہیں کہ کیرالامیں اس زمانےمیں بھی اردوکافروغ ہورہاتھایااس کےارتقاء کی سنجیدہ کوشش ہورہی تھی جب اردوزبان کا گہوارہ دہلی،لکھنؤ،عظیم آباد،حیدرآبادوغیرہ کومتفقہ طورپرسمجھاجاتاتھا،البتہ علاقہ مختلف ہونے (یعنی شمال وجنوب )کے فرق وبعد کے باوجود یہ بات مشترک ہیکہ اردو زبان کی ترقی میں تدریسی، تکلمی،تقریری،تفہیمی،تفہمی طورسے مساجدومدارس اسلامیہ ہی مرکزومنبع رہے ہیں۔ اس تناظرمیں جب آپ کیرالاکے مساجد ومدارس کو دیکھتے ہیں تو آپ پائیں گے کہ آج بھی اسکول وکالج کے بہ نسبت حصول ڈگری کے لئے نہیں بلکہ لسانی تعلیم کے اعتبارسے مدارس اسلامیہ اردو کی ارتقاء میں جزولاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسی طرح سے کیرالا میں دن بہ دن اردو پڑھنے پڑھانے والوں کی تعد اد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا،اور اب بھی ہورہاہے۔اس زما نےکہ مذ کوربالاعلماء وزعماءاوران کےعلاوہ اوربھی بہت سےحضرات ہیں جواپنےاپنےحدکےلحاظ سےزمانہ سابق میں بھی اردوکی خدمات انجام دی ہیں اور اب بھی دے رہےہیں۔
مستقیم احمداشرفی۔ استاد فقہ وافتاء دارالہدی اسلامک یونیورسٹی کیرالا۔
پی ایچ ڈی اسکالر اردو اروینٹل کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد۔
فون نمبر۔faizyma@gmail.com\6282254230