شيخ ابو الحسن حضرت امام سَرِی السَقَطی- حیات اور افکار (قسط- 3)
اخلاص:
سری سقطی عبادات میں اخلاص پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ جو عبادت اخلاص سے خالی ہو وہ ان کی نظر میں ریاکاری تھی اور ان کی نظر میں ریاکاری سب سے بڑا جرم تھا۔ ان کے سامنے ایک دفعہ عام لوگوں کا ذکر ہوا۔ انھوں نے فرمایا کہ ان کے لےے کوئی کام نہ کرو اور نہ ان کے لےے کسی کام سے باز رہو اور نہ ان کو اپنی کسی کیفیت سے آگاہ کرو۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اعمال صرف اللہ تعالیٰ کے لےے انجام دےے جائیں، کسی انسان کے لےے نہیں۔(70)
وہ اخلاصِ عمل اور للہیت پر بہت زور دیتے تھے۔ اگر ان کو یہ احساس ہوتا کہ ان کا کوئی عمل ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے علاوہ کوئی اور جذبہ شامل ہے تو گویا اس میں ریا ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی وہ اس کو ترک کردیتے ۔ ایک واقعہ ان کے اس احساس کا بہترین نمونہ ہے۔ حلیة الاولیاء میں ہے کہ انھوں نے فرمایا : میں تیس سال اس مرض (ریاکاری) میں مبتلا رہا اور مجھے اس کا احساس نہ ہوا۔ واقعہ یوں ہے کہ میں اور میرے کچھ احباب جمعہ کی نماز کے لےے جلدی جایا کرتے تھے اور مسجد میں مخصوص جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے، ایک دفعہ میرے پڑوس میں ایک صاحب کا انتقال ہوگیا، میں جنازے میں گیا، واپسی میں تاخیر ہوگئی جس کی بنا پر جمعہ کی نماز کے لےے میں دیر سے نکلا، جب مسجد کے قریب پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ آج میرے احباب یہ سوچیں گے کہ میں نے جمعہ کے لےے نکلنے میں دیر کردی، یہ احساس میرے اوپر بہت گراں گذرا اور میں نے اپنے دل میں سوچا کہ تو تیس سال سے ریا کاری کررہا ہے اور اس کا تجھے احساس بھی نہیں ہوا۔ اس کے بعد میں جمعہ الگ الگ جگہوں پر پڑھنے لگا، تاکہ میرے لےے کوئی جگہ متعین نہ رہے۔(71)انھیں احساس تھا کہ اخلاص کا معاملہ آسان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مشکل راستہ ہے۔اپنے ایک استاد عبداللہ بن مطرف کا قول نقل کرتے تھے کہ اخلاصِ عمل خود عمل سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ (72)
ان کے ایک شاگرد اسماعیل بن عبداللہ الشامی روایت کرتے ہیں کہ سری نے فرمایا: ”بہادر اور جواں مرد وہ ہے جس کے اندر یہ پانچ خوبیاں پائی جائیں: ۱- اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں ایسی استقامت جس میں بچ نکلنے کا جذبہ نہ ہو، ۲-ایسا اجتہاد جس میں بھول چوک نہ ہو، ۳- ایسی شب بیداری جس میں غفلت نہ ہو، ۴- ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق جس میں ریا نہ ہو، ۵- خوف کے ساتھ موت کو یاد کرنا۔ (73)
ترجیحاتِ دین:
بعض صوفیہ نے اپنے ذوق و مزاج اورذاتی تجربات کے نتیجہ میں دین کی ترجیحات میں ردّو بدل کیا ہے ، خود سری سقطی کے عہد میں بعض ایسے صوفیہ موجود تھے، لیکن سری اس کے سخت خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ فرض ہر حال میں فرض ہے اور نفل ہر حال میں نفل۔ فرائض و نوافل میں یہی ترتیب قائم رکھنی ضروری ہے۔ عبادات میں بھی اور معاشرتی امور میں بھی۔ ایک مرتبہ فرمایا: ”جو شخص دو باتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہوگیا تم بھی اس سے دور ہوجاو ایک یہ کہ فرض کو چھوڑ کر نفل کا اہتمام کرنے لگا، دوسرا یہ کہ ظاہری اعضاء سے عبادت کی، لیکن دل صدق سے خالی رہا۔ (74) ایک مرتبہ فرمایا : ”تین چیزیں ابرار کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تک پہنچاتی ہےں: ۱- کثرتِ استغفار، ۲- تواضع، ۳- کثرت سے صدقات کرنا۔ تین چیزیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہیں: ۱- لہو و لعب، ۲- ہنسی اور ٹھٹول، ۳- غیبت۔ اور ان سب سے اہم اور اعمال کا اعلیٰ مرتبہ (ذروة سنام العمل) اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن ہے۔ (75)
ان کا زور اس پر تھا کہ سالک کو چاہےے کہ ہر حال میں دین کو اولیت دے، اپنی خواہش یا ذاتی رجحان کو دین کے تابع رکھے، اگر وہ دین کو اولیت دے گا تبھی اسے کامیابی ملے گی، ورنہ ہلاک ہوجائے گا۔ فرماتے تھے: ”جو شخص دین کو اپنی خواہش پر مقدم رکھے وہ قابلِ تعریف ہے اور جو خواہش کو دین پر مقدم کردے وہ ہلاکت میں پڑگیا۔ (76) ”سالک کو دین میں شبہات سے بھی اجتناب کرنا چاہےے اس کے ذریعہ اس کو شہوات اور طبعی میلانات پر قابو حاصل ہوجائے گا“۔ (77) ان سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا: ”عقل وہ ہے جس کے ذریعہ فرائض اور محرمات کا علم ہو“، یہ بھی فرمایا کہ ”اتباعِ سنت میں کم عمل اس سے بہتر ہے جو اس میں زیادہ ہو، لیکن اس کے ساتھ بدعت کے کام ملے ہوئے ہوں“۔ (78)
عبادات کی ایک اہم شکل اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ سری سقطی شکر ادا کرنے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ”شکر کی تین شکلیں ہیں۔ ایک زبان سے شکر ادا کرنا، دوسری بدن (اعضائ) سے شکر ادا کرنا ، تیسری دل سے شکر ادا کرنا۔ تیسری قسم کی عملی شکل یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ دوسری قسم کی عملی شکل یہ ہے کہ اعضاءو جوارح کو سوائے اطاعت الٰہی کے اور کسی کام میں استعمال نہ کرے اور پہلی قسم کی عملی شکل یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہے“۔ (79)
صوفیہ کے مہمات مسائل میں سے ایک ’معرفت‘ ہے ، بعض صوفیہ نے معرفت کو اس انداز میں پیش کیا ہے جیسے وہ انسان کو حاصل ہونے والی کوئی غیر معمولی اور فوق العادی چیز ہو، لیکن سری سقطی کے یہاں معرفت کا مطلب کوئی غیر عادی صلاحیت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا اور جہاں تک ہو سکے احکامِ الٰہی کو نفس و خواہشات پر ترجیح دینا۔ (80)
متصوفانہ رجحانات:
سری سقطی کے صوفیانہ رجحانات (جیسا کہ اوپر ذکر ہوا) در اصل ایک خاص واقعہ سے وابستہ ہیں۔ اس واقعہ کے رد عمل میں ان کے اندر زہد و ریاضت کا رجحان پیدا ہوا جو بتدریج بڑھتا چلا گیا، ورنہ وہ پیشہ سے تاجر اور تعلیم سے حدیث کے عالم تھے۔ ان کی روایت کردہ متعدد احادیث بعض کتب حدیث جیسے بیہقی کی الزہد الکبیر میں مروی ہیں، جیسا کہ تاریخ الاسلام (ذھبی) کے محقق عمر عبدالسلام تدمری نے لکھا ہے۔ (81)
سری سقطی کثرت عبادت کے ساتھ اپنے اوراد و معمولات کے بڑے پابند تھے، فرماتے تھے کہ اگر میرا کوئی ورد یا وظیفہ چھوٹ جاتا ہے تو پھر میں اس کی کبھی قضا نہیں کرسکتا۔(82) ذکر کے بارے میں فرماتے تھے کہ ”جو شخص مناجات میں مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذکر کی حلاوت سے نواز دیتا ہے اور وہ شیطانی وساوس سے تلخی محسوس کرنے لگتا ہے۔ (83)
ان کا ایک واقعہ اکثر کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ انھوں نے رات میں نماز پڑھی، پھر محراب کے اندر پیر پھلادےے، اچانک آواز آئی کہ اس طرح تو بادشاہ بیٹھتے ہیں، فوراً انھوں نے پیر سمیٹ لےے۔ (84) ایک دفعہ شیخ جنید بغدادی سات درہم لے کر سری کے پاس آئے اور ان کو پیش کردےے، سری نے فرمایا: مبارک ہو، تم اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہو۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ میرے پاس سات درہم اپنے کسی مقبول بندے کے ہاتھوں بھیج دے۔ (85)
ان کے تقشّف کا حال بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے روٹی مسل کر ہتھیلی پر رکھ لیتے، ایک چڑیا آتی اور ان کی ہتھیلی سے دانہ چگ لیتی، ایک دن وہ دیوار پر آکر بیٹھی، لیکن ہتھیلی پر نہیں آئی، انھوں نے دل میں سوچا کہ یہ چڑیا مجھ سے کیوں وحشت زدہ ہے؟ خیال آیا کہ میں نے آج عمدہ قسم کا نمک استعمال کیا ہے (یعنی خواہشِ نفس کی پیروی کی ہے) غالباً اس لےے چڑیا کو مجھ سے وحشت ہورہی ہے، چنانچہ انھوں نے دل میں عہد کیاکہ آئندہ کبھی نمک کا استعمال نہیں کروںگا، اس کے بعد وہ چڑیا آئی اور دانہ چگ کر چلی گئی۔ (86)
سری سقطی کے صوفیانہ رجحان، کشف و کرامات ، داخلی یا خارجی کیفیات وغیرہ کے بہت سے واقعات مروی ہیں، جن کی عقلی تاویل بھی ممکن ہے۔
نصائح:
سری سقطی نے اپنے تلامذہ اور مریدین کو کچھ پند و نصائح کےے ہیں، چند کا ذکر اوپر آچکا ہے، بعض نصائح درج ذیل ہیں:
۱- دنیا میں اصل تو بس پانچ چیزیں ہی ہیں: ۱- روٹی جو پیٹ بھرتی ہے، ۲- پانی جو پیاس بجھاتا ہے ، ۳- کپڑا جو تن ڈھکتا ہے، ۴- گھر جس میں آدمی بود و باش اختیار کرتا ہے، ۵- علم جس پر انسان عمل کرتاہے۔ (87)
۲- جو شخص ’تسویف‘ (یعنی یہ کام بعد میں کروں گا) کے عمل میں مبتلا ہے وہ اپنے دن ضائع کرتا ہے اور دھوکہ میں مبتلا ہے۔ (88)
۳- دنیا کی طرف اس طرح نہ جھکو کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی چھوٹ جائے اور زمین پر اکڑ کر مت چلو، کیونکہ عنقریب یہی زمین تمہاری قبر بنے گی۔ (98)
۴- بھائی کے ساتھ تو رہو، لیکن اپنا راز کسی پر ظاہر نہ کرو، برے دوستوں سے بچو اور جس طرح اپنے دشمنوں سے بچتے ہو اسی طرح دوستوں سے بھی بچو۔ (90)
۵- جو نعمت کی قدر نہیں کرتا، اس سے نعمت اس طرح چھن جاتی ہے کہ اس کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ (91)
۶- سب سے بڑی شہ زوری خود پر غلبہ حاصل کرلینا ہے۔ (92)
۷- سب سے بہتر پانچ چیزیں ہیں۔ ۱- گناہوں پر رونا، ۲- عیوب کی اصلاح کرنا، ۳- اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا، ۴- دل کے زنگ کو دو رکرنا، ۵- ہر خواہش کو پوری نہ کرنا۔(93)
۸- جس شخص میں یہ باتیں ہوں اس کا ایمان مکمل ہے: ۱- جب اس کو غصہ آئے تو اس کا غصہ اس کو حق بات کہنے سے نہ روکے، ۲- جب وہ راضی ہو تو اس کی رضا مندی اس کو باطل پر آمادہ نہ کردے، ۳- اور جب اس کو قدرت حاصل ہوجائے تو ناجائز چیز نہ لے۔ (94)
۹- چار چیزیں ابدالوں کے اخلاق سے ہیں: ۱- حتی الوسع تقویٰ اختیار کرنا، ۲-ارادوں کو درست کرنا، ۳- لوگوں کے لےے دل کھلے رکھنا، ۴- اور ان کی خیر خواہی کرنا۔ (95)
۱۰- چار چیزیں بندے کے درجات کو بلند کرتی ہیں: علم، ادب، امانت اور پاک بازی۔ (96)
۱۱- امور تین طرح کے ہیں: کچھ کے بارے میں معلوم ہے کہ صحیح ہیں، ان کو انجام دو، کچھ کے بارے میں معلوم ہے کہ غلط ہیں، ان سے اجتناب کرو، اور کچھ کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہے تو ان کے پاس رکے رہو اور انھیں اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو، وہ ان کے بارے میں فیصلہ فرمادے گا اور صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو، وہ تم کو دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔ (97)
خاتمہ:
سری سقطی ابتدائی عہد کے صوفیہ میں ایک قد آور شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے یہاں تصوف نہ کوئی رسم ہے اور نہ کوئی منفرد منہاج ۔ وہ فنا و بقا سے بحث کرتے ہیں نہ قبض و بسط سے، حال و قال اور صحو و سکر کی اصطلاحات بھی ان کے یہاں نہیں ملتیں۔ ان کے نزدیک تصوف شریعت کی طے کردہ ترجیحات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا نام ہے، عقل کا مقصد دین کا فہم ، عمل کا مقصد شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنا اور توکل کا مطلب صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے۔ انھوں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ذوق و رجحان کی بنا پر دین کی متعین کردہ ترجیحات میں کوئی تبدیلی کی جائے۔ اس طرح سری سقطی کی زندگی تصوف کے ابتدائی نقوش اور اس کی عہد بہ عہد ترقی کا جائزہ لینے کے لےے بہترین نمونہ ہے۔
حواشی و مراجع:
70۔ ایضاً، ج:10ص:126 71۔ ایضاً، ج:10ص:125
72۔ ایضاً، ج:10ص:121 73۔ ایضاً، ج:10ص:117 74۔ ایضاً، ج:10ص:120
75۔ ایضاً، ج:10ص:123 76۔ ایضاً، ج:10ص:125 77۔ ایضاً، ج:10ص:126
78۔ طبقات الصوفیة، ص 15-25 79۔ طبقات الاولیائ، ص160-161
80۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:124 81۔ تاریخ الاسلام، ج:18ص:150 (حاشیہ)
82۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:124 83۔۳۸ ایضاً، ج:10ص:122
84۔ تاریخ الاسلام، ج:18ص:150-151 85 حلیة الاولیائ، ص ج:10ص:172
86۔ ایضاً، ج:10ص:123 87۔ طبقات الصوفیة، ص50
88۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:118 89۔ ایضاً، ج:10ص:121
90۔ ایضاً، ج:10ص:122 91۔ ایضاً، ج:10ص:124
92۔ ایضاً 93۔ ایضاً 94۔ طبقات الاولیائ، ص120
95۔ طبقات الصوفیة، ص51 96۔ ایضاً، ص51 97 ایضاً، ص52