استاد: ایک روحانی والد

یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ  ایک کامیاب انسان کے پیچھے کسی نہ کسی شخص کا ہاتھ ہوتا ہے جو اس کو عروج تک کی رسائی کیلئے جی جان لگا کرکوشش کرتا ہے اور اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اپنی مدت زیست اس کے لیے خرچ کر دیتا  ہے۔ وہ  بگڑے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ان کو  صدق و وفا کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔  جو ان ہستیوں کے بتائے گئے طریق سدید پر جاری ہوگا وہ دنیا و آخرت میں یقینا کامیابی پائے گا۔انسان دنیا میں بہت سارے رشتوں سے جڑا ہوا  ہے ان میں ایک خونی رشتہ جو ماں باپ کا ہوتا  ہے اور دوسرا روحانی  رشتہ ا جو ایک استادکا  اپنے شاگرد سے ہوتا ہے -معاشرے میں استاد کو روحانی والدین کا خطاب درکار ہے کیونکہ اسلام میں والدین سے بڑھ کر استاد کا حق اپنے شاگرد پر ہوتا ہے۔یہ ایک ایسی ہستی ہے جو ہر سو تقویٰ و پرہیزگاری کا ماحول پیدا کرتی  ہے اور یہ ایسے بندگان مقبول  ہیں جن  کے جیتے جی ہر ایک انسان کامیابی کی سیڑھی کو آسانی سے پار لگا سکتا  ہے- اورہماری ماؤں نے ہمیں بچپن سے اس بات کی تنقیدکی  ہے کہ استاد کا ادب کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے-یہ وہ شخص ہے جو اپنے شاگرد کے لیے ہر وہ کام انجام دیتے ہیں جو اپنی زندگی میں کبھی بھی کرنے کی ہمت نہ کی ہو۔علی رضی اللہ عنہ فرماتے کہ ہیں جو کوئی بھی مجھے ایک حرف سکھائے گا میں اس کا تا حیات غلام رہوں گا وہ مجھے اپنا غلام بنا لے یا مجھے آزاد کر دے۔تو اس بات سے یہ اظہرمن  الشمس ہوجاتاہے کہ جو کوئی  بھی کسی کو ایک حرف بھی سکھاتا ہے تو وہ اس کا استاد بن جاتا ہے۔

            یہ ایک ایسی ذات مبارکہ ہے جو آئندہ نسلوں کے لئے مینارہ نور ہے جس  سے ہر طرف  اسلام کی ابدیت اور امن و سکوں  اور تعلیمی ماحول اجاگر ہو جائے گا- کسی کو بھی علم کی اہمیت اور اس کی عظمت کا خیال نہیں ہے حالانکہ اس دنیا میں سب سے زیادہ استاد  کوممتاز کیا جانا چاہئے  کیونکہ وہ ایک ایسا واحد ترین  شخص ہوتا ہے جو عوام کو کو سیدھے راستے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ان کی شخصیت پرجتنے بھی الفاظ بیان کئے جائیں وضاحت کے باہر ہیں ان کی کوششوں پرآفتاب بھی نصف النہار کی شعاعوں سے شکوہ اور محرمومی  کا گلہ نہیں کر سکتا۔ماں باپ تو پال پوس کر اپنے بچوں کی نشو و نما کر دیتے ہیں، لیکن وہ اس کو تعلیم و تربیت میں فروغ دینے کے  لیے ایک استاد کا عمل ادا ہوتا  ہے، تاریخ کے پنوں کو پلٹ کر دیکھا گیا تو اس طرح بھی مذکور ہے کہ بچے اور انسان کی پہلی درس  گاہ اپنا گھر  ہے۔خدا تعالی نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں ایک استاد کی اہمیت کو اس طرح مزین طور پر فرمایا ہے کہ  فاسالوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون  اگر  تم کچھ علم سے آراستہ و پیراستہ نہ ہو تو ا اھل الذکر سے  پوچھو۔ایک طالب علم کو ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد کی عزت و احترام کرے کیونکہ  ایک استاد کا درجہ سید کے برابر ہوتا ہے اور طالب علم کا درجہ بندہ کے اور غلام  کو اس طرح خدمت کرنی چاہیے جس طرح وہ اپنے آقا کی کرتا ہے۔سکندر ذوالقرنین سے پوچھا گیا کہ تم اپنے استاد کو ماں باپ سے زیادہ کیوں ترجیح دیتے ہو تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے ماں باپ نے آسمان سے زمین تک لایا ہے اور میرے استاد نے مجھے آسمانوں کی طرف پرواز کرناسکھایا تو اس لحاظ سے سے استاد ماں باپ سے زیادہ واجب الاحترام ہوتے ہیں۔

             اسی طرح وقت نے اپنی اڑان بھری اور چلا گیا اور انسان بھی ترقی کی منزل کو پار کرتا گیا۔موجودہ دور میں کوئی بھی استاد کی  باتوں کو سننا پسند نہیں کرتا کیونکہ اس زمانہ جاہلیت  میں ایک استاد کو اس طرح عزت  دیناکوئی بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ اس دور زماں میں استاد ایک ملازم کے مانند ہیں بچوں کو درس دیتے ہیں اور اپنی تنخواہ کو ماہانہ یا سالانہ طور پر حاصل کرتے ہیں چوں کے اس کے زمہ دار آج کے حالات بھی ہیں۔گزرے دور میں لوگ میلوں دور تک  پیدل سفر کیا کرتے تھے، اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے پہنچا کرتے تھے استاد کی مار کھاتے تھے  اور بہت سارے سزائیں جھیل کر نگینے کی شکل میں تیار ہوتے تھے،اور اپنے علم سے دوسروں کوبھی  مالامال کرتے تھے۔استاد ایک برستی ہوئی بارش کی طرح ہے جو اپنے بوندوں سے بنجر زمین کو سرسبز و شاداب کر دیتا ہے۔ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور آپ کی میٹھی زبان سے علم حاصل کرتے تھے اور اس پر عمل پیرا ہوتے اور اس قدر خامو ش رہتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں،کیونکہ ان کے دل میں خواہش اورتمنا ہوتی تھی کہ ہم بھی  ہمارے استاد مالک دو جہاں مشکل کشا سے کچھ علم حاصل کریں اور اس سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔

             اس دور میں طالب علم با تمیز  با ادب استادوں سے پیش آیا کرتے تھے جیسا کہ ان کے ساتھ بات نہیں کرنا اور ان کی باتوں کو سماعت فرمانا جو بھی وہ کہتے تھے اس پر فورا عمل بجالانا کیونکہ ایک اور مشہور قول ہے با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب جو کوئی بھی ادب اور عزت و احترام کے ساتھ ان سے پیش آئے گا تو وہ دنیا و آخرت میں فوز و فلاح اور عزت کا مقام حاصل کرے گا- اور جو بے ادبی سے پیش آئے گا تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں خسارے میں رہ جائے گا اور اس کے لیے کوئی بھی نجات کا دروازا کھلا نہیں ہوگا -دین اسلام نے علم سیکھنے کو ہر مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے سکھانے والے کو بھی محترم قرار دیا ہے۔اس زمیں پر آپ کہیں بھی جائیں آپ کو علم سیکھنا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم کے زندگی کا گزارا محال ہے۔ آپ کے پاس تعلیم نہیں تو کچھ نہیں کہتے ہیں کہ جس گھر میں ایک عالم یا کوئی بھی نماز ی نہ ہو تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔دنیا کا قانون ہے کہ لوگ اسی درخت کو پتھر مارتے ہیں جس میں پھل ہوں مشکلیں اسی کو آتی ہیں جس نے اپنی زندگی میں کامیابی وکامرانی کے لیے لیل و نہاراپنی لگن سے جی جان لگا کر کوشش کی ہو۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter