واقعۂ کربلا: حق و صداقت کا روشن استعارہ

واقعۂ کربلا: حق و صداقت کا روشن استعارہ

  حق کی یہ شان رہی ہے کہ یہ ہمیشہ غالب رہا ہے اور باطل سرنگوں۔ اسلام کی صداقت و سچائی کے مقابل باطل ہمیشہ سے سرگرمِ کار رہا ہے۔ اس نے حق کی راہ سے انحراف کے لیے فکر و نظر کو اسیر بنانے کی اَن تھک کوششیں کی ہیں۔ ایک عرصہ تک باطل قوتوں کی سازشیں ناکام رہیں۔ اسلامی تعلیمات نے ذہنوں کو حق کی طرف مائل رکھا۔ سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد جب کہ عاشقانِ نبوی نے بشارتِ نبوی کے مطابق قیصر و کسریٰ اور دیگر باطل قوتوں کو فتح کیا۔ وقت کی سپر پاورز کے تکبر و نخوت کو خاک میں ملا دیا، ایسے حالات میں پے در پے شکست نے دشمنانِ اسلام کے باطل عزائم کے بلند محلوں کو زمیں بوس کر دیا۔ وہ وقت کی تلاش میں تھے۔ اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔

  آخر ایک ایسا بھی وقت آیا جسے اسلام کے لیے اک لمحۂ آزمائش کہہ لیں۔ دشمنانِ اسلام کو یزید کی شکل میں ایک شخص مل گیا، جس نے ایک طرف اسلام کے نظامِ عدل و انصاف کا خون کیا۔ دوسری طرف شریعتِ اسلامی کے اُصولوں اور انسانیت کی قَدروں کو پامال کیا۔ ظلم و ستم کو مطمحِ نظر بنایا۔ یزید نے ہر اُس فعل کو رَوا جانا جس سے اسلام نے روکا۔ اسلام کے فطری ضابطوں سے اُس نے تجاوز کیا۔ نفس کی پیروی کی۔

  ایک شبہہ اُبھرتا ہے، یزید کی اطاعت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیوں نہیں کی؟ اگر اطاعت کر لیتے تو اتنا بڑا معرکہ برپا نہ ہوتا!… لیکن حقیقت یہ ہے کہ یزید کی اطاعت سے واقعہ برپا تو نہ ہوتا حق کا چہرہ ضرور مسخ ہو جاتا۔ اپنی جان اسلام کی راہ میں نذر کر کے امام حسین رضی اللہ عنہ نے شریعت کی حفاظت کی ہے۔ اسلامی قانون کو تحفظ فراہم کیا ہے- آپ کی قربانی نے ایک آفاقی درس دیا ہے۔ وہ درس یہ ہے کہ جان تو جانی ہی ہے لیکن جو جان راہِ خدا میں جائے وہ بیش قیمت ہو جاتی ہے۔ گویا کہ:

 

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق اَدا نہ ہوا

 

  عقل بھی تائید کرتی ہے کہ سچی راہ کی حفاظت کے لیے جان دینا ہی اصل زندگی ہے۔ وہ کیسے ہیں جو یزید سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ یزید کو حق پر جانتے ہیں۔ کیا طریقۂ نبوی سے جدا راہ درست قرار دی جا سکتی ہے؟ کیا قیصر و کسریٰ طرز کی آمریت کو جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟ نہیں!! حقیقتِ حال یہ ہے کہ یزید کی منشا نفس کی پیروی میں قیصر کی آمریت کو راہ دینا تھا، کسریٰ کے جور و ستم کی مثال قائم کرنی تھی۔ اسی مراد کے حصول کے لیے وہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حمایت چاہتا تھا، ان کی رضا مندی اسے درکار تھی، اسلام میں دیانت و انصاف ہی کی حکمرانی رہی تھی۔ ظلم کی حکمرانی کا اجرا یزید چاہتا تھا، امام حسین اسلام کے نظامِ انصاف کی بالا دستی چاہتے تھے، آپ نے اُس کی حمایت نہ کر کے بتا دیا کہ آمریت کی راہ جو یزید اپنا رہا ہے وہ الگ راہ ہے، اور اسلام کی پاکیزہ راہ الگ ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس سے یزید مضطرب تھا اور پھر اس کی حکومت ظلم و ستم اور باطل کا استعارہ بن گئی، محض اس لیے کہ امام حسین نے اس کی اطاعت نہیں کی۔

  تاریخ کا یہ خونین باب گرچہ دلوں کو لرزا دینے والا ہے لیکن عظیم باب ہے۔ اس لیے کہ اس سے حق کی زندگی مربوط ہے۔ اسلام کی فطری سچائی جڑی ہے۔ انصاف کے لیے ظالم حکمراں کے سامنے حق کہنے کی وہ مثال قائم ہوئی جس نے ہر مظلوم کو سہارا دیا۔ واقعۂ کربلا کو ١٤؍صدیاں بیت گئیں لیکن اس سے ملنے والا درس ہر حق پسند کا سہارا ہے، ہر باطل کے مقابل صداقت کا استعارہ ہے، ہر آمر کے مقابل انصاف کا آوازہ ہے۔ ایک سفر تھا جس نے منزل کے نشانات واضح کر دیے، جدا راہیں اُجاگر کر دیں۔ یزیدی راہ اور حسینی راہ۔ اور فطرت کا یہ اُصول رہا ہے کہ حق ہی غالب آتا ہے، اس نکتے پر شاید حیرت و استعجاب ہو، اس لیے بھی ہو کہ کبھی ایسا ہوا کہ بہ ظاہر طاقت و افرادی قوت کے سبب باطل غالب آیا لیکن وہ غلبہ ظاہری تھا جس میں فکر و نظر کو اسیر نہیں کیا جا سکا، کربلا کا واقعہ ایسا ہی ہے، بہ ظاہر یزید فاتح رہا لیکن یہ فتح یزیدی فکر کی موت ثابت ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھی حسینی تعلیمات مشعلِ راہ ہیں، لیکن یزیدی فکر شکست کی علامت بن گئی ہے، کیا آپ نے کبھی یہ دیکھا کہ یزید کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہوں؟ نہیں ! ایسا نہیں ہوا، یزید ’’علامت شر‘‘ بن چکا ہے اور امام حسین ’’علامت حق‘‘ بن چکے ہیں، اب حق کا جب بھی اظہار ہو گا اس کی تمثیل حسینِ اعظم بن کر ابھریں گے۔ یہ تاریخ اسلام کا وہ روشن باب ہے جو مسلمانوں کو عزم محکم دیتا رہے گا۔ فکر کی دنیا عزم حسینی سے آباد ہوتی رہے گی۔ حق کی روشنی ذہنوں کو اجلا بناتی رہے گی۔ حوصلوں کے چراغ تعلیماتِ حسینی کے روغن سے جلتے رہیں گے، دلوں کو مسرور اور فکروں کو معمور کرتے رہیں گے، بقول تاج الشریعہ:

شہنشاہ شہیداں ہو انوکھی شان والے ہو

حسین ابن علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter