حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ - حیات و خدمات کے آئینے میں

 حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی حکیم امجد علی علیہ الرحمہ بر صغیر ہندو پاک کی ایک ایسی عبقری شخصیت ہیں،جن کے علم وفضل اور تقوی اور ورع کا ایک زمانہ قائل ہے،آپ اپنی پوری زندگی خلوص وللہیت کے ساتھ تصنیف و تالیف،درس وتدریس کی صورت میں  دین اسلام کی حقیقی خدمت کرتے رہے،آپ کا شمار  چودہویں صدی ھجری کے صف اول کے مشاہیر علمائے کرام میں ہوتاہے،آپ نے  وشرک و بدعت کی تیز آندھی میں اہل سنت وجماعت کے چراغ کی بخوبی حفاظت کی اور نہ صرف حفاظت کی بلکہ اس کی روشنی کو گھر گھر پہنچانے  میں بے انتہا تگ و دو اور غیر معمولی جدو جہد کی،آپ کی بیش بہا خدمات جلیلہ نے اپنے بعد والوں کے لیے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ ان شاء اللہ جن کا اثر تا قیامت رہے گااور آپ کے بعد والے اس سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔

 آپ ایک زمانے تک مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں رہے اور ان کی ذات سے وافر مقدار میں اکتساب فیض کرتے رہے،حتی کہ وہ زمانہ بھی آیا کہ فقہ میں آپ کی بصارت وبصیرت اور اعلی درجہ کی کارکردگی کے پیش نظر  ایک موقع پر اعلی حضرت نے فرمایا:کہ موجودین میں تفقہ جس کانام ہے،وہ مولوی امجد علی میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ 

تاریخ پیدائش: آپ1300ھ مطابق  1878ء میں مشرقی یوپی کے نہایت ہی زرخیز خطہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور میں پیدا ہوئے،آپ کے والد ماجدمولانا حکیم جمال الدین علیہ الرحمہ اور دادا خدا بخش علیہ الرحمہ یہ دونوں حضرات عالم و فاضل اور فن طب کے ماہر تھے۔

 تعلیم وتربیت: آپ نے تعلیمی زندگی کا آغاز اپنے گھر میں دادا مولانا خدابخش سے کیا،پھر اپنے ہی قصبے گھوسی کے مدرسہ ناصر العوم میں مولوی الہی بخش صاحب علیہ الرحمہ سے کچھ ابتدائی کتابیں پڑھی،ا س کے بعد حصول علم کی چاہت نے آپ کو گھر پر خالی بیٹھنے نہ دیا اورآپ نے درس نظامی کی اعلی تعلیم کے لیے 1314ھ میں صرف 14سال کی عمر جونپور جانے کا قصد کیا،اس وقت کیونکہ سفر دور حاضر کی طرح آسان نہ تھا،لہذا سفر میں بے پناہ صعوبتیں اور مصیبتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں،لیکن قربان جائیں حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے بلند عزم و حوصلے پر کہ آپ نے کم عمری ہی میں حصول علم کے لیے جونپور جانے کا عزم مصمم کیا اور آپ قصبہ گھوسی سے 30کلو میٹر پیدل سفر کرکے اعظم گڑھ آئے،پھر یہاں سے اونٹ پر سوار ہوکر آپ جونپو ر پہنچے،وہاں آپ کے چچا زاد بھائی مولانا محمد صدیق گھوسوی علیہ الرحمہ بحیثیت مدرس تھے،آپ نے اپنے چچازاد بھائی اور استاذ سے کچھ اسباق پڑھے اور پھر جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ ہدایت اللہ خان علیہالرحمہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب طئے کیا اور یہیں سے آپ نے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی،اس وقت استاذ المحدثین حضرت علامہ وصی احمد سورتی علیہ الرحمہ کا علم حدیث میں آپ کا شہرہ بام عروج پر تھا،لہذا آپ دورہ حدیث کے لیے پیلی بھیت تشریف لائے اور علامہ وصی احمد سورتی علیہ الرحمہ سے علم حدیث کے چھلکتے ہوئے جام نوش کیے،چند دنوں میں استاذ محترم کو آپ کی ذہانت و فتانت کا بخوبی اندازا ہوگیا اور آپ کی عبقری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا:مجھ سے اگر کسی نے پڑھاہے تو وہ مولوی امجد علی ہے۔

 تدریسی خدمات: 1326ھ میں حضور صدر الشریعہ مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ کے مدرسۃ الحدیث سے فراغت کے بعد ان کی ایما پر  مدرسہ اہل سنت پٹنہ میں شیخ الحدیث کے منصب پرفائزہوئے اور یہاں ایک سال  رہے۔ 1329ھ میں منظر اسلام بریلی شیخ الحدیث کی حیثیت سے شریف لائے اور یہاں 1343ھ تک خدمات انجام دیں۔اس کے بعد مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدر المدرسین مقرر ہوئے،جہاں آپ نے آٹھ سالہ تدریسی اور انتطامی خدمات انجام دیں،1351ھ میں دوبارہ منظر اسلام تشریف لائے اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائزہوئے،یہاں آپ نے تقریبا تین سال تک اپنے بحر علم سے طالبان علوم نبویہ کوسیراب فرمایا۔1356ھ سے 1362ھ تک دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ میں رہے۔پھر آپ 1363ھ میں مدرسہ مظہر العلوم کچی باغ بنارس تشریف لائے،اس کے بعد جب حضور مفتی اعظم ہند اور محدث اعظم پاکستان حج کے لیے عازم سفر ہوئے تو ان کی جگہ کچھ عرصے کے لیے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف میں مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے،محدث اعظم پاکستان کی واپسی پر مدینۃ العلما گھوسی لوٹ آئے،اس کے بعد آپ نے کسی مدرسے میں تدریسی ذمہ داری قبول نہیں کی۔  

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے مشاہیر تلامذہ:  1326ھ سے 1356ھ تک آپ نے ملک ہندوستان کے مختلف مدارس اسلامیہ میں سیکڑوں  تشنگان علوم نبویہ کو سیرابی عطا فرمائی،جن میں چند مشاہیر تلامذہ کے مندرجہ ذیل ہیں:(۱)شیربیشہ اہل سنت مولاناحشمت علی خان۔(۲)محدث اعظم پاکستان مولاناسردار احمدصاحب۔(۳)حافظ ملت مولانا عبد العزیز مبارکپوری۔(۴)مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن صاحب الہ بادی(۵)شمس العلما قاضی شمس الدین جونپوری(۶)علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی۔(۷)خیر الاذکیا مولاناغلام یزدانی۔(۸)صاحب تصانیف کثیرہ مولانا عبد المطفی اعظمی علیہم الرحمہ۔

صدرالشریعہ کی اعلی حضر ت سے پہلی ملاقات اور بریلی میں حاضری: 1329ھ  میں صدرالشریعہ کی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت سے پہلی ملاقات پٹنہ میں ہوئی تھی،پہلی ملاقات ہی  میں آپ اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے حد درجہ متاثر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں اعلی حضرت سے بیعت ہوگئے،پھر اس مدرسہ میں کچھ انتطامی مسائل کی وجہ سے استعفی دے کر گھوسی تشریف لائے اور لکھنو میں دو سالہ حکمت کورس کرنے کے بعد گھوسی میں مطب شروع کیا،خاندانی پیشہ اور خداداد سلاحیت کی وجہ سے اس فیلڈ میں بھی آپ کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی ،حتی کہ صبح کے وقت ہی آپ کے مطب پر مریضوں کا جم غفیر رہتا،1329ء میں استاذ محترم سے ملاقات کی غرض سے پیلی بھیت تشریف لائے،جب استاذ محترم کوآپ کے حوالے سے علم ہوا کہ آپ درس وتدریس کا چھوڑ چکے ہیں تو آپ کو بہت رنج ہوا،پھر حضور صدر الشریعہ نے بریلی جانے کی خوایش کااظہار فرمایاتو علامہ وصی احمد علیہ الرحمہ نے حضور صدر الشریعہ کے ہاتھوں حضور اعلی حضرت کے نام ایک خط روانہ کیا،جس میں لکھا تھاکہ جس طرح ممکن ہو آپ ان کو خدمت دین وعلم دین کی طرف متوجہ کیجیے، امام اہل سنت نے یہ خط پڑھا اور آپ کے ساتھ نہایت ہی لطف و کرم سے پیش آئے اور آپ کے ذمہ کچھ تحریری کام دے دیا،حضور صدرالشریعہ نے بریلی میں دو ماہ قیام کیا اور پھر قبل رمضان گھر جانے کی اجازت طلب کی،اعلی حضرت نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ میں جب بلاوں گا توآپ کو آنا پڑیگا،آپ فرماتے ہیں کہ اس دوران مجھے بھی اپنے پیشے یعنی طب سے نفرت ہونے لگی او ر میرے اندر خدمت دین متین کا جذبہ موجیں مارنے لگا،پھر جب اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ۶ مہینے کے  بعدخط کے ذریعہ آپ کو بلایا تو آپ  سب کچھ چھوڑ کر 1329ھ میں بارگاہ اعلی حضرت میں حاضر ہو گئے۔

صدرالشریعہ بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں:  آپ نے اعلی حضرت کی خدمت میں گیارہ سال گزارا۔آپ کی جدوجہد اور آپ کی مصروفیات کے  بارے میں جان کر عقل حیران رہ جاتی ہے،کہ ایک انسان اتنے کام بھی کرسکتاہے؟۔ آپ کو‘انجمن اھلسنت‘کی نظامت اور اس کے پریس کے اہتمام کے علاوہ مدرسہ میں تدریس، دوسرے پریس کا کام یعنی کاپیوں کی تصحیح، کتابوں کی روانگی، خطوط کے جواب، آمد وخرچ کے حساب، یہ سارے کام تنہاانجام دیا کرتے تھے۔ ان کاموں کے علاوہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بعض مسودات کامَبِیضہ کرنا۔فتووں کی نقل اور ان کی خدمت میں رہ کر فتوٰی لکھنا یہ کا م بھی مستقل طور پر انجام دیتے تھے۔پھر شہر وبیرونِ شہر کے اکثر تبلیغِ دین کے جلسوں میں بھی شرکت فرماتے تھے۔ بعد نَمازِ عصر مغرِب تک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں نشست فرماتے،بعدِ مغرِب عشاء تک اور عشاء کے بعد سے بارہ بجے تک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں فتوٰی نَویسی کا کام انجام دیتے۔اسکے بعد گھر واپَس ہوتے اور کچھ تحریری کام کرنے کے بعد تقریباً دو بجے شب میں آرام فرماتے۔ آپ کی اس محنت شاقّہ وعزم واستقلال سے اس دور کے اکابر علما بھی حیران تھے۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بھائی حضرت مولانا محمد رضاخان علیہ الرحمہ فرماتے تھے:کہ مولانا امجد علی کام کی مشین ہیں اور وہ بھی ایسی مشین جو کبھی فیل نہ ہو۔

ترجمہ کنزالایمان: صحیح اور اغلاط سے پاک احادیث نبویہ اور اقوالِ ائمہ کے مطابق اردو زبان میں ترجمہ قرآن کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں عرض کیا اور ا سطرف توجہ مبذول کرائی تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے حامی بھرلی۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے جاتے اور صدرالشریعہ املا کرتے جاتے۔اس طرح آج امت کے پاس ایک مجددِ وقت کا ایک عظیم شاہکار ترجمہ موجود ہے۔

 بہار شریعت:صدر الشریعہ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کاپاک وہندکے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ضخیم عربی کُتُب میں پھیلے ہوئے فقہی مسائل کوسِلکِ تحریر میں پِرَو کر ایک مقام پر جمع کردیا۔انسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک درپیش ہونے والے ہزارہامسائل کا بیان بہارِ شریعت میں موجود ہے۔ان میں بے شمار مسائل ایسے بھی ہیں جن کا سیکھنا ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن پر فرضِ عَین ہے۔ فقہِ حنفی کی مشہور کتاب فتاوٰی عالمگیری سینکڑوں علمائے دین علیہم الرحمہ نے عربی زبان میں مرتب فرمائی مگر قربان جائیے کہ صدرالشریعہ نے وہی کام اردوزبان میں تنِ تنہا کردکھایا اور علمی ذخائر سے نہ صرف مفتیٰ بہ اقوال چن چن کر بہارِ شریعت میں شامل کئے بلکہ سینکڑوں آیات اور ہزاروں احادیث بھی موضوع کی مناسبت سے درج کیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خود تحدیثِ نعمت کے طور پر ارشاد فرماتے ہیں:”اگر اورنگزیب عالمگیر اس کتاب (یعنی بہارِ شریعت) کو دیکھتے تو مجھے سونے سے تولتے۔

خلافت و اجازت:  18ذی الحجہ 1333ھ کو بموقع عرس سیدنا آل رسول صاحب قدس سرہ العزیز،بغیر کسی تحریر و طلب کے اعلیحضرت نے صدر الشریعہ کو جملہ سلاسل قادریہ قدیمہ و جدیدہ،چشتیہ،نقشبندیہ،سہروردیہ کی خلافت و اجازت تامہ و عامہ عطافرمائی،اپنا خلیفہ مطلق کیااور اپنا عمامہ سر اقدس سے اتار کر حضرت صدر الشریعہ کو باندھا اور اپنی زبان پاک سے یہ الفاظ ادا فرمائے:جملہ وظائف و اذکار و اعمال اور اپنی مرویات حدیث وفقہ و جملہ علوم کی بلا استسنا اجازت عطا کرتا ہوں اور پھر محبت بھرے انداز میں یہ شعر کہا:
میرا                                                                                                                       امجد مجد                                                         کا                                                                     پکا
اس سے بہت کچیاتے یہ ہیں۔

صدر الشریعہ کالقب: حضور زصدر الشریعہ علیہ الرحمہ کو اللہ تعالی نے جملہ علوم و فنون  میں مہارت تامہ اور براعت کاملہ عطا فرمائی تھی،لیکن آپ کو تفسیر حدیث اور فقہ سے خصوصی لگاو تھا،فقہی جزئیات ہمیشہ نوک زبان پر رہتے تھے،اسی بنا پر سرکار اعلی حضرت نے آپ کو صدر الشریعہ کا لقب عطا فرمایا تھا۔ 

قاضی القضاۃکامنصب: سرکار اعلی حضرت نے حالات اور ضرورت دینی کے پیش نظرپورے بر صغیر کے لیے شرعی دالقضا قائم فرمایا تھااور اس کے لیے تمام مشاہیر ہند میں سے صدر الشریعہ احکام شرعیہ کے نفاذ اور فیصلے کے لیے قاضی شرع مقرر فرمایا۔

تصنیفات و تالیفات: حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کو تصنیف و تالیف سے بھی غیر معمولی شغف تھا،آپ اکثر اوقات سرکار اعلی حضرت کے مسودے وغیرہ پر کام کرتے تھے،جو اوقات آپ کو میسر آئے،آپ نے ان میں تقریبا25 کتابیں بھی تصنیف فرمائی،جن میں بعض کتابیں قابل ذکر ہیں:آپ کی  ایک شہرہ آفاق کتاب بہار شریعت ہے،جو اس وقت  ملک اور بیرون ملک میں مرجع خواص و عوام ہے،اس کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے،(۲)فتاوی امجدیہ جو کہ ۴ جلدوں پر مشتمل ہے۔(۳)حاشیہ طحاوی شریف۔(۴)التحقیق الکامل فی حکم قنوت النازل۔(۴)قامع الواہیات من جامع الجزئیات(۵)اتمام حجت تامہ۔

اولاد امجاد: حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے حضورﷺکی کثرت اولاد والی حدیث پاک پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی میں چار عورتوں سے نکاح فرمایا،جن کے بطون سے اللہ تعالی نے 16        اولاد عطافرمائی،الحمدللہ،حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنی اولا دکی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

وفات:1368ھ میں حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ دوسری مرتبہ حج کی نیت سے حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوئے،اپنے وطن قصبہ گھوسی سے ممبئی تشریف لائے،لیکن یہاں پہنچ کرآپ کو نمونیہ ہو گیااور سفینے میں سوار ہونے سے پہلے ہی بتاریخ۲ذی القعدہ1368ھ بمطابق۶ستمبر1948ء رات 12 بج کر 26منٹ پرآپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔اناللہ واناالیہ رجعون۔

آپ کی مزار پر انوار آپ کے آبائی وطن قصبہ گھوسی ضلع مؤ  میں واقع ہے۔

ماخوذ از۔
سیرت صدرالشریعہ، مکتبۃاعلی حضرت لاہور پاکستان۔
صدر الشریعہ کی حیات و خدمات،دائرۃالمعارف الامجدیہ گھوسی ضلع مؤ۔
تذکرہ صدرالشریعہ،مکتبۃالمدینہ۔
ویکیپیڈیا اردو۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter