امام احمد رضاکا عشقِ رسول اور کثرتِ علوم وفنون

اس دنیا میں انسان کسی نہ کسی سے محبت کرتاہےاور جس سے محبت کرتاہے اس کی یاد میں بے چین رہتا ہےہر وقت ہر لمحہ اپنے اس محبوب کی مدح و ستائش میں مصروف رہتا ہےدل میں محبوب کی عظمت اور زبان پر اس کے نام کا وظیفہ رہتا ہےآنکھیں محبوب کے جمال جہاں آرا کا مشاہدہ کرتی ہیںکان صرف محبوب کا ذکر سننا پسند کرتے ہیںنظروں میں دیار محبوب کی ہر ایک شئ مکرم ومعظم ہوتی ہےعاشق کا سرمایہ حیات عشق ہےعشق اس کی زندگی کا جزو لاینفک ہےاب عاشق کا دل ودماغ اس کے اختیار میں ہےوہ محبوب کی زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے اس کے دل ودماغ میں کوئے محبوب کا تصور ہوتا ہےاستاذ زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خان بریلوی ارشاد فرماتے ہیں

          دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھاکر لائے تھے
          دل ہمیں سمجھا بجھا کر   کوئے   جاناں لے چلا


اس خاندان گیتی پر ایک ایسا عاشق پیداہوا تھاجس کی نگاہ جلوہ محبوب کے علاوہ کسی دوسری چیز کے دیکھنے کی قائل نہ تھی،وہ دیکھتا تھا تو اپنے محبوب کے رخ انور کو دیکھتا تھا،وہ بولتا تھا تو اپنے محبوب کے فرمان کو پیش کرتا تھا،وہ مسکراتا تو ادائے محبوب لے کر مسکراتا،اس کی فکر میں ادائے محبوب شامل تھی،وہ چلتا تو محبوب کی متعین کردہ حدود میں چلتا،بلکہ وہ ان حدود کا آخری وقت تک محافظ تھا،وہ سوتا تو نام محبوب بن جاتا،ایک طرف وہ دنیا کا سب سے بڑا عاشق رسول تھا،تو دوسری طرف دنیائے اسلام کا سب سے بڑا عالم تھا،سب سے بڑا محدث تھا،سب سے بڑا مفسر تھا،جو علم معانی،علم بیان،علم بدیع،کا سب سے بڑا عالم تھاجو علم تکسیر،علم ہئیات،علم حساب اور علم ہندسہ کا امام ہو،جو قرآت و تجوید کا بحر ذخار ہو،تصوف وسلوک میں یگانہ روزگار ہو،جس کے نعتیہ دیوان میں حضرت حسان کی شاعری کی جھلک ہو،علم ریاضی میں جس کی مثال نہ ملتی ہو،علم فقہ میں جو امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کا مظہر اتم ہو،علم عقائد و کلام میں جس کی نظیر نہ ہو جس کے منطقیانہ،اور فلسفیانہ،اقوال وبراہین کو دیکھ کر بوعلی سینا،فارابی حیرت واستعجاب میں پڑ جائیں،جس کے علم نحو و صرف کو دیکھ کر بصرئین اور کوفئین حیران ہوں،جو علم ریاضی کا سب سے بڑا عالم ہو،ارشماطیقی حساب،توقیت،زیجات اور زائچہ جیسے دیگر بہت سے علوم محبوب کی بارگاہ سے تحفتہ ملے ہوں،جو عاشق اور عاشق گر تھا،جو دنیاکا سب سے بڑا پرہیزگار تھا،جو قطب الارشاد تھا،جو مجدد اعظم تھا،جس کی زیارت سے اس کے محبوب کی زیارت ہوتی،جو اس کے پاس بیٹھا اس کے محبوب کے پاس بیٹھا،جس نے اس کو دیکھا اس نے اس کے محبوب کو دیکھا،جسے پوری دنیائے عرب وعجم اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے
حیرت سر پیٹ رہی ہےدنیا ششدر ہے کہ یہ کون ہے؟جس کی ذات میں اتنے اوصاف جمع ہوگئے ہیں-جو ایک طرف سب سے بڑا عاشق مصطفیٰ ہے،تو دوسری جانب علم کا موجیں مارتا ہوا سمندر-ایک طرف حدائقِ بخشش ہے تو دوسری طرف فتویٰ رضویہ کی بارہ جلدیں،جو تفقہ فی الدین میں امام اعظم ابوحنیفہ کا جانشین ہوا،اور نعت گوئی میں حضرت حسان کا متبع،امام احمد رضا اپنے محبوب کی یادوں میں محو رہتے تھے اپنے محبوب کی یادوں میں مستغرق رہتے تھےمن تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی کی کیفیت طاری رہتی ہے-جس کی یہ حالت ہو اس کو دیکھ کر پہلو پر طبع آزمائی کرنے کا موقع نہیں ملتا،ہاں وہ امام احمد رضا ہے جو تمام علوم وفنون کا جامع ہونے کے باوجود سب سے بڑا عاشق مصطفیٰ ہے،جو اپنے محبوب کے دشمن کو دشمن اور اپنے محبوب کے دوست کو دوست سمجھتا ہےجس نے ہر موڑ پر ناموسِ مصطفیٰ کی حفاظت کی،جس کی زندگی کا کوئی لمحہ عشقِ رسول سے خالی نہیں،جس کے دل پر ایک طرف لا الہ الااللہ اور دوسری طرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھا ہےجس کا دل عشق کی گرمی کی وجہ سے جل کر کباب ہوگیا ہے-امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں
   

  جلی جلی بو سے اس کی پیدا،ہے سوزشِ عشق چشمِ بالا
      کباب آہو میں  بھی نہ پایا،مزا جو  دل کے کباب  میں  ہے


امام احمد رضا کا دل عشقِ رسول میں جل کر کباب ہو گیا-ہے من تو شدم تو من شدی کی مکمل کیفیت طاری ہےامام احمد رضا کو ہر ایک چیز میں عشقِ رسول کی جھلک نظر آرہی ہےپھول ہو یا گلاب،بیلا چمبیلی ہو یا نسترن،رات ہو یا دن،صبح ہو یا شامل،باد بہاری ہو یا نسیم سحری،باد صبا ہو یا دیگر ہوا،فقہ ہو یا اصول حدیث،یا علم معانی ہو یابیان،نحو ہو یاصرف،منطق ہو یا فلسفہ،علم ریاضی ہو یاہندسہ،درس گاہ ہو یا آرام گاہ،سفر ہو یاحضر،زمین ہندہویاعرب،مکہ ہو یا مدینہ،ہر جگہ ہرچیز میں محبوب کا جلوہ نظر آتا ہے آپ خود فرماتے ہیں کہ_
   

  انہیں کی   بو مایہ   سمن ہے انہیں کا جلوہ  چمن  چمن ہے
     انہیں سے گلشن مہک رہےہیں انہیں کی رنگت گلاپ میں ہے


امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ ایک طرف عشق میں فنا فی الرسول کے مقام پر فائز ہیں،تو دوسری طرف وقت کے امام اعظم ہیںاحمد رضا مجتہد فی المذہب اور مجتہد فی المسائل ہیںحیرت خود حیرت میں ہےکیوں؟ اس لیے کہ امام احمد رضا تعجب بالائے تعجب کا نام ہے،امام احمد رضا حیرت کا نام ہے،امام احمد رضا یونیورسٹی کا نام ہے،امام احمد رضا لائبریری کا نام ہے،امام احمد رضا تاریخ کا نام ہے،امام احمد رضا کمالات کا نام ہے،امام احمد رضا فکر کا نام ہے،امام احمد رضا علم کا نام ہے،امام احمد رضا فن کا نام ہے،امام احمد رضا ناموس رسالت و نبوت کا نام ہے،امام احمد رضا فقہ کا نام ہے،امام احمد رضا تحریک کا نام ہے،بلکہ امام احمد رضا سراپا عشق کا نام ہےآپ کی تحریر ہو یا تقریر ہر ایک سے عشقِ نبی کا درس ملتا ہے،عشق رسول امام احمد رضا کی زندگی کا نمایاں ترین وصف ہے،آپ اطاعت کے بغیر عشق کے قائل نہ تھے امام احمد رضا سنت نبوی کا بہترین نمونہ تھے
امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنی پوری زندگی عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم میں گزاری،جس محفل میں بھی ہوتے ذکرِ نبی کرتے آپ کی فکر ونظر میں بھی ذکر نبی کے حسین نغمات ہوتے،ہند ہو یا دیار حرم، بریلی ہو یا مدینہ منورہ کی پر کیف وادی ہر جگہ ذکر نبی صلی الله علیہ وسلم کرتےدرسگاہ میں طالبان علوم نبوت کو عشقِ نبی کا جام پلاتے،خانقاہ میں مریدوں کو عشق بنی کی شراب پلا کر مست کر دیتے، وعظ ونصیحت کی محفل میں عوام الناس کے سینوں کو عشق ومستی کا گنجینہ بنا دیتے،امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خلفاء کو عشقِ نبی کی شراب پلا کر ایسا مست کر دیا کہ وہ دنیا کے ہر خطے میں عشقِ رسول کابھی درس دیتے اور ایمان و عمل کی بھی حفاظت فرماتے،امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کی آرزو تھی کہ دنیا کا ہر شخص عاشق رسول بن جائے،امام احمد رضا زائرین مدینہ منورہ کو دیکھ کر تڑپ جاتے تھے ان کا سکون ختم ہوجاتا امام احمد رضا نبی کی یاد میں بلک بلک کر روتے ان کا جسم بریلی شریف کی دھرتی پر ہوتا مگر دل ودماغ خیالات و تصورات میں مدینہ منورہ کا طواف کرتے امام احمد رضا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور مکرم حضور صلی الله علیہ وسلم کی ذات تھی تمام شہروں میں محبوب ترین شہر مدینہ منورہ تھا،مدینہ کے در ودیوار سے بے پناہ محبت کرتے تھے،امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ بے پناہ عشق نبی کی بنیاد پر سراپا عشق بن گئے
            کثرتِ علوم وفنون:
امام احمد رضا جہان علوم و فنون کا پہلا وہ شخص ہے جنکے نام سے اتنے علوم و فنون کے جاننے کا ذکر کیا جاتاہے_پروفیسر مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ کثرتِ علوم پر امام احمد رضا کو جو عبور اور مہارت حاصل تھی اس کی نظیر اس کے عہد میں کیا،ماضی میں بھی شاذ ہی نظر آتی ہے(امام احمد رضا اور عالم اسلام)
پہلے مولانا اقبال احمد اختر القادری صاحب کراچی کی زبانی سنئے: علم قرآن *علم حدیث *اصول حدیث *فقہ حنفی * کتب فقہ جملہ مذاہب *اصول فقہ *جدل مہذب *علم تفسیر *علم العقائد والکلام *علم نحو *علم صرف *علم معانی *علم بیان علم بدیع علم منطق *علم مناظرہ *فلسفہ *تکسیر *ہئیت *حساب *ہندسہ *قرآت *تجوید *تصوف سلوک اخلاق *اسما الرجال سیر* تواریخ لغت *ادب مع جملہ علوم و فنون *ارثماطیفی *جبر و مقابلہ *حساب *لوغات ثمات *توقیت *مناظرہ و مرایا *علم الاکبر *زیجات *مثلث کروی *مثلث مسطح *ہئیت جدیدہ *مربعات *جفر  *زائرچہ *نظم عربی *نظم فارسی *نظم ہندی *نثر عربی *نثر فارسی *نثر ہندی *خط نسخ *خط نستعلیق *تلاوت مع تجوید * علم الفرائض *علم طبعیات *علم صوتیات *علم نور *علم کیمیا *علم طب *علم الادویہ *علم معاشیاتعلم اقتصادیات * علم تجارت علم شماریات *علم ارضیات *علم جغرافیہ *علم سیاسیاتعلم بین الاقوامی امور *علم معدنیات *علم اخلاقیات _(ماہنامہ کنزالایمان دہلی جون 2001)
عرض کروں کہ ان تمام موئلفین نے جنہوں نے امام احمد رضا کی حیات وخدمات پر کتابیں تصنیف فرمائی ہیں اور ان کے علوم وفنون کی کثرت بیان کرنے کی سعی کی ہے سب نے ہی غیر استحضار ذہنی کا ثبوت دیا ہے کیونکہ پچاس اور پچاس سے زیادہ علوم بیان کرنے کا التزام تو سبھی نے کیا ہے مگر شناریا میں کسی نے نجوم چھوڑ دیا ہے تو کسی نے رمل کسی نے اگر چھوڑ دیا ہے تو کسی نے موسیقی یہی وہ علوم ہیں کہ آج تک امام احمد رضا کے سارے علوم صفحہ قرطاس پر نقش بن کے کسی کا سرمہ نگاہ نہیں بن سکے ہیں جبکہ علوم ایک سو تین بتائیں ہیں حالانکہ میں ایک بے مایہ اور بے بضاعت انسان جس کا مطالعہ صفر برابر ہے جب میں نے مختلف جگہوں میں مختلف کتابیں پڑھیں اور امام احمد رضا کے اعداد علوم کو گوشہ ذہن میں بسانے کی کوشش کی تو میں اس مقام پر پہنچا کہ امام احمد رضا کو بیک وقت تقریباً ایک سو تیس علوم و فنون سے مہارت تامہ حاصل تھی اگر مستقبل قریب میں کسی رضوی ماہر نے اس پر کاوش کی تو میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ امام احمد رضا کے ایک سو تیس سے بھی زائد علوم پر عبور کی ہماہمی جہاں اپنوں کے دامن کو مسرت و شادمانی کے گل نشتر سے بھر دے گی وہیں حاسدین کی آنکھوں پر لہو کے بیل جیسی پٹی چڑھ جائے گی_

                   iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter