منور راناؔ کی غزلیہ شاعری میں ”ماں“ کا کردار

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی!

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فن غزل میں اہم مقام و مرتبہ رکھتے ہوئے بھی اس میں کسی خاص موضوع یا تصور کو پیش کرنے کی کوشش کریں اور ان کی یہ کوشش کامیاب بھی ہو جائے یہاں تک کہ یہ ان کی شناخت کا حصہ بن جائے۔ منور راناؔ بلا شبہ اردو غزلیہ شاعری کا ایک معتبر اور قابل قدر نام ہے جن کی خوبصورت غزلیں تقریبا نصف صدی سے اردو شاعری کامعیار بڑھا رہی ہیں اور ادب کے ذخیرے میں بھاری اضافہ بھی کر رہی ہیں۔ آج ناچیز شاعر موصوف کی عمدہ اور لاجواب غزلیہ شاعری کے اسی پہلو کو اجاگر کرنا چاہے گا جس میں شاعر موصوف نے غزل گوئی میں عالمگیر مقبولیت رکھنے کے باوجود اس میں ایک خاص نوعیت کا خیال پیش کیا اور اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ یہ ان کی شخصیت کا خاصہ بن گیا۔ میری مراد لفظ ”ماں“ سے ہے جس پہ موصوف نے کافی گہرے اور جاندار اشعار کہے ہیں۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری جذبات کے دھارے میں بہہ جاتا ہے۔

                ایک بات میں صاف کر دوں کہ موصوف کی اس خصوصیت کو بعض ناقدین و مبصرین نے غزل کے اندر اچھا خیال نہیں کیا اور اس کو جذباتی استحصال کا نام دیا ہے۔ اس ضمن میں پہلے شاعر موصوف ہی کی تصریح دیکھیں:

                ”میری شاعری پر اکثر زیادہ پڑھے لکھے لوگ جذباتی استحصال کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر محبوب کے حسن و شباب، اس کے تن و توش، اس کے لب و رخسار، اس کے رخ و گیسو، اس کے سینے اور کمر کی پیمائش کو عیاشی کیوں نہیں کہا جاتا ہے؟ اگر میرے شعر Emotional Blackmailing ہیں تو پھر ”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے“، ”موسی اب تو تیری ماں بھی نہیں رہی جس کی دعائیں تجھے بچا لیا کرتی تھیں“، ”اگر مرد کو دوسرے سجدے کی اجازت ہوتی تو ماں کے قدموں پر ہوتی“، ”میدان حشر میں تمہیں تمہاری ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا“ جیسے جملے کیا بے معنی ہیں؟

                رانا صاحب کی اس تصریح کے آخری کلمات ان کی نیک نیتی کے غماز ہیں اور ویسے بھی ماں کی عظمتوں کو غزل کا لباس دینا کوئی غیر شائستہ یا برا کام بالکل نہیں اور نا ہی اس سے غزل کا روایتی ڈھانچہ یا جدید پیرایہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ غزل کسی بھی موضوع کو اپنے اندر سمو لینے کی قابلیت و خصوصیت رکھتی ہے۔

                منور رانا کی معروف غزلیہ شاعری پر غور کرتے ہوئے حیرت و استعجاب اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ جناب نے غزل گوئی میں مہارت تامہ اور شہرت عامہ رکھنے کے باوجود اس میں ایک خاص عنوان یا مخصوص تصور پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ کسی شاعر کے لئے یہی بہت بڑی بات ہوتی ہے کہ وہ مجرد صنف غزل میں شہرت و اہمیت کا حامل ہو جائے۔ اب جناب رانا کی یہ خوش قسمتی سمجھئے یا زور قلم گردانیئے کہ مذکورہ دونوں چیزوں کے لئے یکساں شہرت و مقبولیت رکھتے ہیں۔

                اس موقع پر قابل فہم بات یہ ہے کہ موصوف کے اندر یہ خصوصیت یونہی پیدا نہیں ہو گئی بلکہ اس کے لئے انہیں کافی محنت و مشقت اور ریاضت سے کام لینا پڑا پھر جا کے ان کے یہ خاص نوعیت اور مخصوص موضوع و تصور میں ڈھلے ہوئے اشعار اس قابل بنے کہ انہیں ایک خاص مقام اور انفرادیت عطا کر سکیں۔ ورنہ ”ماں“ کے عنوان سے چند ہلکے پھلکے شعر انہیں اس قدر خاص اہمیت و انفرادیت کا حامل بنانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے اور انہیں سوائے ایک غزل گو شاعر کے کوئی اور خصوصیت نہیں مل پاتی کیوں کہ ایسے تو قریب قریب تمام غزل گو شعراء ہوتے ہیں جو درمیان میں کہیں نہ کہیں لفظ ”ماں“ کا استعمال کر ہی لیتے ہیں اور اس عظیم ہستی کی عظمت و رفعت اور محبت و شفقت بیان کرتے ہوئے کئی عمدہ اور موثر شعر کہہ گزرتے ہیں۔ بطور نمونہ اگر آپ پہ گراں نہ گزرے تو میں اپنی ہی کتاب ”نکہت گل“ جو ایک ایک ابتدائی حمد و نعت کے علاوہ کل سو غزلوں پر مشتمل خالص غزلوں کا مجوعہ ہے کے دو شعر پیش کرنا چاہوں گا:

یہ ہے ماں کی دعاؤں کا نتیجہ

مجھے ہر غم سے راحت ہو گئی ہے

قسمت کا ہوں دھنی کہ ہیں ماں باپ باحیات

خدمت کئے دعائیں لئے جا رہا ہوں میں!

                یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جناب منور رانا کے معروف ہم عصر و ہم پلہ غزل گو شعراء جن میں پروفیسر وسیم بریلوی، ڈاکٹر راحت اندوری اور ڈاکٹر بشیر بدر وغیرہ کے نام شامل ہیں کی غزلیہ شاعری بھی گاہے بگاہے ماں کے عنوان سے خالی نہیں ہے مگر ان ہم عصر شعراء اور منور رانا میں نمایاں فرق یہ ہے کہ یہ شعراء اس خاص موضوع یعنی لفظ ”ماں“ پہ شعر کہنے میں یا مطلق غزل گوئی کے اندر ہی کسی خاص عنوان کو باندھنے میں کسی شہرت و انفرادیت کے حامل نہ ہو سکے۔ اس لئے جناب منور رانا صاحب کی یہ کاوش اور اس میں اس قدر کامیابی یقیناقابل تعریف ہے۔ اب آئیے لگے ہاتھوں اس نوعیت کے کچھ اشعار دیکھتے چلیں:

سکھ دیتی ہوئی ماؤں کو گنتی نہیں آتی

پیپل کی گھنی چھاؤں کو گنتی نہیں آتی

مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی

ماں کی آنکھیں چوم لیجے روشنی بڑھ جائے گی

گھیر لینے کو مجھے جب بھی بلائیں آ گئیں

ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آ گئیں

لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی

بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی

بھیجے گئے فرشتے ہمارے بچاؤ میں

جب حادثات ماں کی دعا سے الجھ پڑے

میں وہ میلے میں بھٹکتا ہوا اک بچا ہوں

جس کے ماں باپ کو روتے ہوئے مر جانا ہے

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

مجھے خبر نہیں جنت بڑی کہ ماں لیکن

بزرگ کہتے ہیں جنت بشر کے نیچے ہے

مجھے کڑھے ہوئے تکیے کی کیا ضرورت ہے

کسی کا ہاتھ ابھی میرے سر کے نیچے ہے

                جناب منور رانا کی ”ماں“ سے منسوب شاعری میں جس طرح بیٹا شفقت مادری پہ مسرت کناں، اس کی عظمت و رفعت کا قصیدہ خواں اور اس کی حیات و موجودگی پہ نازاں دکھائی دیتا ہے اسی طرح ماں بھی اپنے لال پہ فخر کرتی نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کریں یہ شعر:

ہمیں حریفوں کی تعداد کیوں بتاتے ہو

ہمارے ساتھ بھی بیٹا جوان رہتا ہے!

                اخیر میں یہ بھی بتا دوں کہ جناب رانا نے لفظ ”ماں“ اور ”بیٹے“ کے علاوہ ”بیٹی“، ”بہن“ اور ”بھائی“ کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے اور ان پاک، خونی اور جذبات سے بھرپور رشتوں کو کافی گہرائی اور خوبی سے نبھایا ہے۔ تاہم خصوصی طور سے ماں اور بیٹے کی پاکیزہ محبت اور جذباتیات کے ارد گرد گھومتی غزلیہ شاعری اپنے عنوان کے لحاظ سے تعمیری اور فن کے حساب سے کافی عمدہ ہے۔ موصوف ہی کے ایک شعر سے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں:

تیری عظمت کے لئے تجھ کو کہاں پہنچا دیا!

اے غزل میں نے تجھے نزدیک ماں پہنچا دیا

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter