قربانی کے اہم بنیادی مسائل
قربانی شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے،جس کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔یہ ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنتِ مبارکہ ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور خاتم الانبیا ﷺ کو قربانی کا حکم دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اس سنت مبارکہ کو باقی رکھا ،قربانی اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے جس کے ذریعے بندوں کو رب کی رضا اور اس کی بارگاہ میں سرخروئی حاصل ہوتی ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ قربانی خلوص نیت سے صرف رضائے الہی کے حصول کے لیے ہو اور ہر طرح کی ریا اور دکھاوے سے پاک وصاف ہو۔
مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیتِ تقرب ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے ،اور یہ ہر مالک نصاب پر واجب اور ضروری ہے ،لہذا اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قربانی نہ کرائے تو وہ سخت گنہ گارہوگا۔ اس وقت عام طورپر ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جو مالک نصاب ہونے کے باوجود قربانی جیسی اہم عبادت سے غافل ہیں ،یا قربانی تو کراتے ہیں لیکن اس کے ضروری اور بنیادی مسائل سے ناآشنا ہیں ،جس کے سبب اس اہم فریضہ کو بھی کما حقہ ادا نہیں کر پاتے۔
ذیل میں قربانی کے چند بنیادی اورضروری مسائل مذکور ہیں۔
قربانی واجب ہونے کے شرائط یہ ہیں :(۱)مسلمان ہونا،(۲)،مقیم ہونا ،مسافر پر قربانی واجب نہیں،(۳)مالکِ نصاب ہونا یعنی ساڑھے سات تولہ سونا،(۹۳ گرام اور۳۱۲ ملی گرام )یا ساڑھے باون تولہ چاندی (۶۵۳ گرام اور ۱۸۴ ملی گرام) کا مالک ہو یا حاجت ِ اصلیہ کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی ہو ،حاجتِ اصلیہ سے مراد رہنے کا مکان ،خانہ داری کے ضروری سامان ،سواری کا جانور یا گاڑی ، خادم اور سردی اور گرمی کے کپڑے،(۴)آزاد ہونا لہذاغلام پر قربانی واجب نہیں ۔ نوٹ :قربانی کے لیے مرد ہونا شرط نہیں ، بلکہ قربانی جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے ،اسی طرح عورتوں پر بھی واجب ہوتی ہے ۔
زکاۃاور قربانی کے نصاب میں فرق:زکاة سونا چاندی اور مالِ تجارت پر واجب ہوتی ہے جب کہ ان پر سال گزر گیا ہو ,جب کہ وجوبِ قربانی کے لیے مال پر سال گذرنا ضروری نہیں، اسی طرح اگر کسی کے پاس حوائجِ اصلیہ سے زائد بقدرِ نصاب زمین، جائداد یا اثاثہ ہو تب بھی شرعاً قربانی واجب ہوجاتی ہے ۔
قربانی کا وقت: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سےبارہویں کے غروب آفتاب تک ہے،یعنی تین دن ، اِن دنوں کو ایامِ نحر کہتے ہیں، لیکن نماز ِعید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں چونکہ نمازِ عید نہیں ہے، یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہو سکتی ہے۔ ان تین دنوں میں شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں بلکہ ان میں کسی بھی وقت شرائط قربانی پائی جائیں تو قربانی واجب ہو جائے گی مثلاً پہلے دن مسافر تھا اور وقت کے اندر مقیم ہوگیا، یافقیر تھا اور وقت کے اندر مالدار ہوگیا تو ان دونوں پر بھی قربانی واجب ہو گئی ۔ان تین دنوں میں رات میں بھی قربانی ہو سکتی ہے ،مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے،اور ان میں پہلا دن سب سے افضل ہے ،پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔
قرض دار پر قربانی کاحکم:قرض دار شخص کے مال سے قرض کی کٹوتی کے بعد نصاب باقی نہیں رہتا تو اس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال اس کے پاس موجود نہیں ہے اور ایامِ قربانی گزرنے کے بعدوہ مال اسے وصول ہوگا تو قربانی واجب نہیں۔
کسی نے قربانی کی منت مان لی:فقیر پر قربانی واجب تو نہیں ،لیکن اگر فقیر نے منت مان لی تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی،اسی طر ح اگر مالکِ نصاب نے قربانی کی منت مانی تو اس پر دو قربانی واجب ہوگی ،ایک مالکِ نصاب ہونے کی وجہ سے اور دوسری منت کی ۔ نوٹ: اگر منت کی قربانی ہے تو اس کا گوشت بھی نہ خود کھا سکتا ہے نہ ہی اغنیا کو کھلا سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کردینا واجب ہے ،وہ منت ماننے والا فقیر ہو یا غنی دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
حاجی کی قربانی:حاجی اگر مسافر ہوں،ان پر قربانی واجب نہیں ،لیکن اگر مقیم ہوں تو ان پر حج کی قربانی کے علاوہ عید کی الگ قربانی واجب ہے،جیسے مکہ کے رہنے والے حج کریں تو ان پر قربانی واجب ہوگی۔
گھر میں کئی مالکِ نصاب ہوں تو سب پر الگ الگ قربانی واجب ہوگی:عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر میں مرد عورت کئی مالکِ نصاب ہوتے ہیں تب بھی ایک ہی قربانی کی جاتی ہے جب کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایک گھر میں چند لوگ ہوں تو جو جو صاحب نصاب ہوں خواہ مرد ہوں یا عورت سب پر علاحدہ علاحدہ قربانی واجب ہوگی اور اس صورت میں ایک بکرا یا بھیڑ سب کی قربانی کے لیے کافی نہیں ہوگا ۔
دوسروں کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے ان سے اجازت لینا ضروری ہے: اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں ، بالغ لڑکوں یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے اجازت لینا ضروری ہے ، اگر ان کی اجازت کے بغیر قربانی کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہ ہوگا۔
میت کی طرف سے قربانی :میت کی طرف سے ایصالِ ثواب کی نیت سے قربانی کرنا جائز ہے ،اس میں چند باتیں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے(۱) میت کی طرف سے قربانی کرنے والا خودمالک نصاب ہے اور ایک ہی جانور کی استطاعت رکھتاہے تواس پر اپنی طرف سے ہی قربانی کرنا واجب ہے۔(۲)میت کی طرف سے خود سے قربانی کی تو اس کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور رشتہ داروں اور غربا میں تقسیم بھی کر سکتا ہےلیکن اگر مرنے والے کی وصیت پر قربانی کی تو اس صورت میں تمام گوشت صدقہ کر ناضروری ہے ،نہ کھا سکتا ہے نہ اعزا کو کھلا سکتا ہے۔
قربانی کےجانور:قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں :(۱)اونٹ پانچ سالہ ،(۲)گائے، بھینس دو سالہ ،(۳)بکری، بھیڑ اور دنبہ ایک سالہ ، اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں،زیادہ ہو تو جائز ہے بلکہ افضل ہے ۔ہاں دنبے یا بھیڑکا چھ مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے۔ یہ جانور نر ہوں یا مادہ ،خصی ہوں یا غیر خصی سب کی قربانی ہو سکتی ۔نوٹ:بعض جگہوں پر جانوروں کے دانت دیکھ کر انھیں قربانی کے لائق سمجھا جاتا ہے،یہ بے اصل بات ہے ،ہمیشہ جانور کی عمر کا اعتبار کیا جائے ،خواہ دانت نکلے ہوں یا نہ نکلے ہوں۔
قربانی کا جانور گم ہو گیا:مالکِ نصاب نے قربانی کے لیے جو بکری خریدی ،وہ گم ہو گئی اور اس شخص کا مال نصاب سے کم ہو گیاتو اب اس پر ضروری نہیں کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے ۔اگر فقیر نے قربانی کی نیت سے بکری خریدی ا ور وہ گم ہو گئی،تو اس کے لیے دوسری بکری خرید کر قربانی کرنا ضروری ہے ۔
کن عیبوں کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکتے:اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں اور کانا جس کا کاناپن ظاہر ہو اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے ، لنگڑا جو اپنے پاوں سے چل کر قربان گاہ تک نہ جا سکےاور اتنا کم زور جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہواور اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو یا جس کے کان ،دم یا چکی تہائی سے زیادہ کٹے ہوں ،ان سب کی قربانی نا جائز ہےاور اگر یہ سب تہائی سے کم کٹے ہوں تو قربانی جائز ہے،جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو اس کی بھی ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں ،اس کی جائز ہے،جس کی تہائی سے زیادہ نظر جاتی رہی اس کی بھی قربانی ناجائزہے،جس کے چارہ چبانے کے لیے دانت نہ ہوں،یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اس کی قربانی ناجائز ہے،بکری کا ایک یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں تو قربانی جائز نہیں ،جس کی ناک کٹی ہو یا علاج کے ذریعہ اس کا دودھ خشک کردیا ہو اور خنثٰی جانور جس میں نر اور مادہ دونوں کی علامت ہو اور جلالہ جو صرف غلیظ کھاتاہو ،اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔نوٹ: غلیظ کھانے والے جانوروں کے بدن اور گوشت میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے،اس کی قربانی کے جواز کی صورت یہ ہےکہ قربانی سے قبل کئی دنوں تک اسے باندھ کر رکھیں کہ نجاست وغیرہ نہ کھانے پائے اور جب اس کے جسم سے بدبو ختم ہوجائے تو ذبح کر سکتے ہیں۔
اگر دو لوگوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں کا بسم اللہ پڑھنا واجب ہے: اگرقصاب اور ذبح کرنے والے نے مل کر ذبح کیاتو دونوں پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے ،ایک نے بھی جان بوجھ کر اللہ تعالی کا نام ترک کر دیا یا یہ سوچ کر چھوڑدیا کہ دوسرے نے کہہ دیا مجھے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوگا۔
ذبح میں کتنی رگیں کاٹی جائیں گی؟ذبح میں چار رگیں کاٹی جاتی ہیں،۱۔حلقوم، جس سے سانس آتی جاتی ہے،۲۔مری،جس سے کھانا پانی اترتا ہے، اوران دونوں کے اغل بغل اور دو رگیں ہیں،جن میں خون کی روانی ہے ،ان کو ودجین کہتے ہیں، ان مذکورہ چاروں رگوں میں سے تین رگیں بھی کٹ گئیں تو بھی جانور حلال ہو جائےگا۔
ذبح کرتے ہوئے اگر سر کٹ کر جدا ہو جائے تو ؟اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے ،مکروہ ہے ،مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا ، عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کر تے وقت اگر سر کٹ جائے تو اس سر کا کھانا مکروہ ہے یہ غلط ہے ۔
تقسیم ِگوشت کا طریقہ:بڑے جانوروں میں سات لوگ شریک ہوسکتے ہیں اور ان سب کے درمیان گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے گا،اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں۔قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور اپنے اعزا ،اقربا اور فقیر کو دےسکتا ہے اور کھلابھی سکتا ہے۔بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ،ایک فقرا کے لیے ،ایک دوست و احباب اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے رکھے۔اگر چاہے تو کل گوشت صدقہ بھی کر سکتا ہے اور اگر اس کے اہل و عیال کی تعداد بہت زیادہ ہو تو کل گوشت اپنے گھر کے لیے رکھ بھی سکتا ہے۔
شرکت کے مسائل:سا ت لوگوں نے قربانی کے لیے گائے خریدی ،پھر ان میں ایک کا انتقال ہو گیا تو اگر لوگوں نے مرحوم کے وارثین سے اجازت لیے بغیر اس کے نام قربانی کر دی تو ان میں کسی کی قربانی نہ ہوئی،بلکہ وارثین سے اجازت لینا ضروری ہے ۔گائے کے شرکا میں ایک کافر ہے یا ان میں ایک کا مقصود قربانی نہیں بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے ،توان میں کسی کی قربانی نہ ہوئی۔قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لیا جا سکتا ہے ،اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
جانور کا بچہ پیدا ہوگیا:قربانی کے لیے جانور خریدا اور قربانی کرنے سے پہلے اس جانور کا بچہ پیدا ہو گیا تو حکم یہ ہے کہ بچے کو بھی ذبح کر ڈالے اور اگر ذبح نہیں کیا یا بیچ دیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا۔اسی طرح اگر کسی نے قربانی کی اور اس جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہے تو اسے بھی ذبح کر دے اور اسے استعمال میں لا سکتاہے اور اگر کسی وجہ سے اس نے بچے کو ذبح نہیں کیا تو ایامِ نحر کے بعد اسے صدقہ کرنا واجب ہوگا،لیکن اگر مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پھینک دے کیونکہ وہ مردار ہے ۔
قربانی کا جانور بدل گیا:دو لوگوں نے غلطی سے ایک دوسرے کی بکر ی اپنی سمجھ کر ذبح کر دی ،توبکری جس کی تھی اس کی طرف سے قربانی ہو گئی ،دونوں اپنی اپنی ذبح شدہ بکری لےلیں،اور اگر یہ بات گوشت کو استعمال کے بعد معلوم ہوئی تو دونوں ایک دوسرے کو معاف کردیں ،لیکن اگر کوئی معافی پر راضی نہ ہو تو اس صورت میں گوشت کی قیمت کا تاوان لے اور اسے صدقہ کردے۔
حلال جانور میں ناجائز وممنوع اجزا کی تفصیل:حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ ایسے ہیں کہ ان کا کھانا ناجائز ہے ،ان کی تفصیل مندرجہ ذیل :رگوں کا خون ،پتا ،پھکنا(مثانہ)،علاماتِ نر و مادہ،بیضے(خصیے)،غدود،حرام مغز،گردن کے دو پٹھے جو شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں ،جگر کا خون ،تلِی کا خون ،گوشت کا خون جو ذبح کے بعد گوشت سے نکلتا ہے ،دل کا خون ،پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے ،ناک کی رطوبت کہ بھیڑ میں اکثر ہوتی ہے ،پاخانہ کا مقام ،اوجھڑی ،آنتیں ،نطفہ،وہ نطفہ کہ خون ہو گیا،وہ کہ گوشت کا لوتھڑا ہو گیا ،وہ جو پورا جانور بن گیااور مردہ نکلا یا بے ذبح مر گیا۔
ملخص از ۔فتاوی رضویہ جلد نمبر (۲۰)کتاب الاضحیہ ۔
وبہار شریعت جلد نمبر (۱۵)،ذبح کا بیان،حلال و حرام جانوروں کا بیان،قربانی کا بیان۔