قربانی رسم نہیں ایک عظیم فلسفہ ہے۔

ققعید الاضحی اس امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم الشان تہوار ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کا عظیم شعار اور سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی یادگار ہے جیسے کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ایک موقع پر صحابہء کرام نے اللہ کے حبیب ﷺ سے عرض کیا اے الله کے رسول ﷺ یہ قربانی کیا ہیں؟؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا تمھارے باپ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے تو صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ قربانی میں ہمیں کیا ملے گا تو حضور پر نورﷺ نے جوابا فرمایا کہ اس کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی تو صحابہ نے پھر پوچھا جن جانوروں پر اون ہیں اس میں کیا ملے گا؟؟ تو سرور کونین ﷺ نے کہا اون میں بھی ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی(مشکوۃ )

یہ قربانی جہاں فی نفسہ ایک پسندیدہ عمل اور مقبول عبادت اور شعار اسلام ہے وہیں یہ قربانی امت مسلمہ کو یہ سبق دیتی ہے کہ امت اپنے آپ کو کامل مسلمان بنائے سراسر اتباع اور اطاعت و پیروی کا جذبہء عقیدت پیدا کرىے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کی صحیح اور حقیقی روح کے ساتھ جینے کا ڈھنگ و سلیقہ سیکھ لىے

سیدنا ابراھیم و اسماعیل علیہما السّلام کے ایثار و جذبہء عقیدت کی مکمل داستان کا نام قربانی ہے روز اول سے امت مسلمہ کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ یہ تمھارے دلوں میں احساس یہ علم یہ شعور و آگہی پیدا ہو جائیں کہ خدا کے حکم کی تعمیل ہر حال میں ناگزیر ہے اس کا حکم ہر حکم پر مقدم ہے چاہے عقل کی کسوٹی پر پرکھنے پر کامیابی ملے یا نہ ملے اس کی حکمت تمھیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے تمھاری ساری کامیابیاں وسرخروئیاں اسی میں پنہاں ہیں کہ تم اپنے پروردگار عالم کے احکام کی تعمیل بغیر کسی چوں و چرا کر گزرو چاہے ساری دنیا تمھارے مخالف ہوجائیں حضرت ابراھیم و اسماعیل علیہما السّلام نے رب کی خوشنودی ورضا کے خاطر اپنی جان بھی قربان کرنے کےلیے تیار ہوگئے تب رب نے ان دونوں کے احسان کا تاج رکھا اور کہا کہ ہم مخلصین کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں (قرآن ) کیا خوب کہا علامہ اقبال نے 

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی۔        سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

گویا قربانی کا سارا فلسفہ یہی ہے کہ تم ہمارے احکام کی کرتے رہو سراسر اتباع ربی ہی کا دوسرا نام دین ہے جب بھی ہمارا فرمان تم تک پہنچے تو وہاں عقلی گھوڑے دوڈانے کے بجائے اطاعت و پیروی کی روش سے ہماری رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو حکمتیں و مصلحتیں تلاش نہ کرو حکم ربی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اپنی سچی بندگی کا ثبوت دو مؤمن وہی ہے جس کی اپنی کوئی منشاء نہیں ہوتی سارا کا سارا رب کی مرضی پر موقوف ہوتی ہے

اب ہم قارئین کو قرآن کی سیر کرانا چاہتے ہیں جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ہر آزمائش و امتحان میں صبر واستقلال کا مکمل مظاہرہ کیا تو اللہ تعالی نے داد و تحسین فرمائی اور کئی انعامات و نوازشات سے سرفراز کیا 

پہلا انعام :قرآن کہتا ہے کہ ہم محسنین کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں گویا سیدنا ابراھیم علیہ السلام کے عمل کو اخلاص وللہیت کی سند دی گئی اور احسان کی تاج پوشی سے مالامال کیا 

دوسرا انعام :قرآن کہتا ہے کہ اسماعیل کے بدلے ایک بڑا ذبیحہ ہم نے دیا انسان کی قربانی کے بدلے دنبہ کی قربانی دے کر رب نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مقبول بارگاہِ یزدی کے دولت لازوال سے سرفراز فرمایا 

تیسرا انعام:قرآن کہتاہے کہ آپ کا ذکر خیر کو ہم نے پچھلے لوگوں میں باقی رکھا۔ قیامت تک آپ کے اس محبوب عمل کی نقل کو ہم نے امت مسلمہ پر لازم کردی تاکہ ہر سال یہ عمل دہرا کر آپ کی یادگار قائم کی جاسکے 

چوتھا انعام: قرآن کہتا ہے کہ سلامتی ہو تم پر اے ابراھیم یعنی سلامتی کا تمغہ عطا فرمایا 

پانچواں انعام :قرآن کہتا ہے بے شک ابراھیم ہمارے مؤمن بندوں میں سے ہیں گویا اللہ تعالی کی طرف سے تقرب ووصال الہی کی سرٹیفکیٹ عطا کی گئی

چھٹا انعام: قرآن کہتا ہے کہ ہم نے بشارت سنائی کہ ابراھیم کو ایک بیٹا اسحاق عطا کرینگے جنہیں نبوت اور صلاحیت کا جوڑا پہنایا جائے گا- یہ تمام انعامات ، تمغے اور سوغات الہی سیدنا ابراھیم علیہ السلام کو رب کے حکم کی تعمیل کے عوض عطا ہوئے ہیں- آج بھی اگر وہی جذبہء عقیدت اور ایمان وایقان ہم میں بھی ہوں تو یہ نوازشات کی باران رحمت ہم پر بھی برسے گی شرط صرف ایمان ابراھیم علیہ السلام کی ہے جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا 

آج بھی ہو جو ابراھیم کا ایمان پیدا       آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا 

یہی قربانی ہمیں ببانگ دہل یہ پیغام دے رہی ہے کہ تم اپنے اندر ایثار کا جذبہ پیدا کرو خلق خدا کے ساتھ خیر و بھلائی اور وفاشعاری و خیرسگالی کا برتاؤ کرو غمخواری و باہمی ہمدردی و تعاون کے جذبات ہی سے پورے عالم میں امن وامان قائم ہوسکتا ہے یہی قربانی کا تقاضا ہے یہی قربانی کا اہم ترین پیغام بھی ہے 

اسی قربانی کے ذریعے خالق کائنات ہمارے اندر سے خودمختاری وخود غرضی کے تناور درخت کو جڑ سے استیصال کرنے کی کوشش کررہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ حکم جس چیز کا ہو تم اسے کر گزرو اور یہ ذہنیت پیدا کر لو کہ یہ میرے رب کا حکم ہے چاہے بظاہر یہ عمل قربانی دیوانگی نظر آتا ہو لیکن درحقیقت یہ دیوانگی ہی در اصل ہوشمندی اور زیرکی ہے کیا خوب کہا شاعر نے

   اوست دیوانہ کہ ایوانہ نہ شد     اوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد 

قربانی میں مطلوب صرف اور صرف قربانی کرنے والے کی اخلاص نیت اور باطنی تقوی ہے جیسے کہ قرآن گویاں ہے اللہ تعالی کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ تمھارے دلوں کا تقوی مطلوب و مقصود ہے اور تقوی یہ ہے کہ جو ہم نے کہا وہ کرو تو قربانی محض ایک رسم نہیں بلکہ ایک عظیم فلسفہ ہے جو رب کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے اللہ تعالی اسی پاکیزہ ذہنیت کے ساتھ ہم سب کو تمام عبادتیں کرنے کی توفیق رفیق عنایت فرمائے آمین تمام قارئین کو میری طرف سے عید کی خوشیاں مبارک ہوں.

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter