جمعہ اوراس کے فضائل ومسائل

ہفتے کے سات دن ہر قوم ہر مذہب اور ہر دور کی وضعوں میں تقریباً متفق علیہ رہے ہیں_ البتہ مختلف قوموں نے ان کے مختلف نام وضع کیے_ چنانچہ ہفتے کا ایک مخصوص دن جو ازل ہی سے بے پناہ اہمیتوں اور فضیلتوں کا حامل ہے جسے ہم اردو و عربی زبان میں جمعہ کہتے ہیں_ فارسی میں اسے آدینہ کہتے ہیں_ ظہورِ اسلام سے قبل اہل عرب اسے عروبہ کے نام سے موسوم کرتے تھے_ عرب میں پہلی مرتبہ اس دن کا نام عروبہ سے بدل کر جمعہ کعب ابنِ لوی نے رکھا جو حضور سرور کونین صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جد امجد حضرتِ عبد المطلب کے پردادا تھے_ جیسا کہ قرآن وحدیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرتِ آدم سے لیکر حضرت عبد الله تک حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نور ہمیشہ پاک پیشانیوں میں منتقل ہوتا رہا، جناب کعب ابنِ لوی بھی بت پرست نہ تھے، وہ اس دن لوگوں کو حرم کعبہ کے گرد جمع کرتے اور خطبہ دیتے_ یہی مناسبت تبدیلی اسم کا سبب بنی_ چونکہ ،،جمعہ،، جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ جمع اور اکٹھا ہونے کے ہیں_ 

قرآنِ مجید میں اس دن کا تذکرہ اسی نام سے آیا ہے:
            ،،اذا نودی للصلوت من یوم الجمعة ،،

حدیثِ پاک میں ہے کہ اسی دن تمام مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی_ اسی دن ملک الموت نے تمام مقامات کی مٹی جمع کرکے خمیر کیا اور حضرتِ آدم علیہ السلام کا پتلا تیار ہوا_ اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گیے اور اسی دن جنت سے باہر تشریف لائے_ اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن حضرتِ سیدنا آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی_ مشکوٰۃ شریف کی حدیث کہ نفخئہ اولی بھی اسی دن ہوگا_ جس سے تمام مخلوقات فنا ہوجائے گی_ ،، کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام،، کا وعدہ پورا ہوگا_ اسی دن نفخئہ ثانیہ بھی ہوگا جس پر تمام لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے_ حتیٰ کہ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن صبحِ صادق سے سورج نکلنے تک تمام مقرب فرشتے زمین وآسمان، ہوائیں ،پہاڑ حتیٰ کہ چرند پرند تک ساری مخلوق خوف زدہ رہتی ہے کہ کہیں آج ہی قیامت کا دن نہ ہو، جب سورج نکل آتا ہے تو وہ اطمینان کا سانس لیتے ہیں_ صرف انسان وجنات ہی ایسی مخلوق ہیں جو اس سے غافل رہتے ہیں_

الله رب العزت نے اس دن کو جمعہ فرمایا اس لیے کہ اس دن تمام مسلمان جمع ہوکر الله تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں_ ارشاد ربانی ہے: والیوم الموعود وشاھد ومشھود ،، یومِ موعود سے مراد قیامت اور یومِ مشہود سے مراد یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) ہے جب حجاج کرام میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں_ اور شاہد کا معنیٰ حاضر ہونے والا_ اس سے مراد جمع ہے یعنی یوم عرفہ میں لوگ دور دور سے جمع ہوتے ہیں_ اور یومِ جمعہ کی وہ خاص نعمت ورحمت ہے جو خود ہمارے گھر میں آکر ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہتی ہے کہ اے ایمان والو! غفلت سے بیدار ہوجاؤ تم کتنے بے ہس وحرکت اور غفلت کے عادی ہو چکے ہو کہ رحمت و نور کا خزانہ تمہارے پاس آگیا ہے مگر تم دامن تک نہیں پھیلاتے_

  جمعہ کی فضیلت:
           جمعہ کے دن کو الله رب العزت نے ہر شریعت میں اپنے بندوں کی عبادت وریاضت کے لیے پسند فرمایا_ توریت میں اس کی رحمتوں اور عظمتوں کا تذکرہ موجود تھا_ مگر خصوصیت کے ساتھ الله رب العزت نے قوم یہود سے اس دن میں عبادت کا ذکر نہ فرمایا بلکہ انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ تم ہفتے کے کسی ایک دن کو عبادت کے لیے خاص کرلو_ مگر ان کی نظریں اس یومِ رحمت تک نہیں پہنچ سکیں شاید منشائے ایزدی یہی تھا کہ اسے امت محمدیہ کے لیے خاص کرلیا جائے_ یہ رب کریم کا فضل بے پایاں ہے جو ہمیں غلامئی مصطفٰی کے سبب نصیب ہوا_
 

الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
          ھذا ایومھم الذی فرض علیھم یعنی الجمعتہ فاختلفوافیہ فھدانا لله لہ (مشکات شریف باب/ الجمعہ)

یعنی جمعہ کا دن یہود ونصاریٰ پر بھی فرض کیا گیا تھا مگر وہ اس میں اختلاف کربیٹھے بایں طور کہ یہود نے سنیچر کو اپنی عبادت کے لیے خاص کیا کہ اسی دن اسے فرعون سے نجات ملی تھی_ اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنے لیے منتخب کیا مگر جمعہ کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی، ہمیں الله تعالیٰ نے اس کی ہدایت دی یعنی عظمت و رفعت والا دن ہم پر ظاہر فرمایا گیا اور واضح طور پر بتادیا تاکہ ہم انتخاب میں غلطی نہ کریں_ اور جس دن کو مسلمانوں نے منتخب کیا وہ جمعہ تھا اور اسی میں نمازِ جمعہ بھی ہے_ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ مرقات نے ابنِ سیریں سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہجرت فرمانے سے قبل مدینہ کے انصار نے سوچا کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے عبادت کا دن مقرر ہے تو کیوں نہ ہم بھی اسی طرح کا دن مقرر کرلیں، چناچہ انہوں نے جمعہ کے دن سعد ابنِ زارہ کو امام بناکر ان کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں_ حدیثِ بالا میں ،،ھدانا،،  کے لفظ سے اس جانب بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ الله رب العزت نے میری امت کے خیال کو پسند فرمایا_ پھر جب حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو جمعہ کا حکم آچکا تھا_ الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پیر کے روز مقام قبا میں پہنچے وہاں بنی عمر و ابنِ عوف میں جمعرات تک قیام کیا اور جمعہ کے روز مدینہ شریف کا عزم فرمایا_ سالم ابنِ عوف کے وطن وادی میں جمعہ کا وقت آگیا لوگوں نے وہاں پر ایک مسجد کی تعمیر کی سید عالم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وہاں پر جمعہ کی نماز پڑھائی_ یہ پہلا جمعہ تھا جو صحابہ کرام نے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی اقتداء میں ادا کیا_

جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اس کا منکر کافر ہے_ اور بلا عذر چھوڑنے والا فاسق اور ناقابلِ تعظیم، نمازِ جمعہ ہر مسلمان، مرد، عاقل وبالغ، تندرست اور مقیم شہری پر فرض ہے_

جمعہ کی نماز صحیح ہونے کی سات شرطیں ہیں (1) شہر جہاں قضاء مقدمات کا اختیار رکھنے والا کوئی حاکم ہو (2) حاکم کا ہونا (3) وقت ظہر کا ہونا (4) خطبہ وقت کے اندر ہونا (5) خطبہ کا قبل نماز ہونا اور اتنی جماعت میں ہونا جو جمعہ کے لیے ضروری ہے (6) جمعہ کے لیے جماعت شرط ہے جسکی تعداد یہ ہے کہ امام کے علاوہ کم از کم تین آدمی موجود ہوں (7) اذن عام کہ نمازیوں کو مقام نماز میں آنے سے روکا نہ جائے_ بیمار، مسافر، بچے، غلام اور عورتوں پر جمعہ واجب نہیں_ مگر یہ لوگ اگر جمعہ پڑھ لیں تو ظہر ادا ہوجاتی ہے سوائے عورتوں کے کہ ان پر ظہر ہی فرض ہے_ اس لیے کہ جمعہ کے لیے جماعت شرط ہے اور عورتوں کا مسجد کی جماعت میں شریک ہونا ممنوع بلکہ خود گھر میں ان کی اپنی جماعت بھی مکروہ ہے_ لہذا عورتوں کو جمعہ کی جگہ ظہر اور عیدین میں نمازِ نفل تنہا ادا کرنی چاہیے_ (عام کتب فقہ) 

دیہاتوں میں جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو وہاں قائم نہیں کرنا چاہیے اور جہاں ہورہا ہو وہاں منع بھی نہیں کرنا چاہئے کہ ،،العوام کا الانام،، جو لوگ صرف جمعہ ہی پڑھتے ہیں اگر انہیں جمعہ سے روک دیا جائے تو وہ یاد الٰہی سے بالکل غافل ہو جائیں گے_ البتہ گاؤں والوں کو جمعہ کے بعد ظہر کی چار رکعتیں ضرور ادا کرنی چاہیے ورنہ تارک ظہر اور گنہگار ہوں گے_ (انوار الحدیث) 

نمازِ جمعہ کی اہمیت: 

نمازِ جمعہ کی پابندی کرنی چاہیے الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جس مسلمان نے بلا عذر تین جمعے لگاتار چھوڑ دئیے تو الله تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے_ یعنی وہ آدمی رفتہ رفتہ نیکی سے دور ہوتا جائے گا اور حدیث ہے کہ کہیں وہ اسلام کی حدود کو پار نہ کرجائے_ 

مستحبات:

جمعہ کے دن مسواک کرنا، غسل کرنا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا، خوشبو ملنا وغیرہ مستحب ہے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جمعہ کو آئے پھر جو مقدر میں ہو نماز پڑھے پھر امام کے خطبے سے فارغ ہونے تک خاموش بیٹھے، تو الله رب العزت اس کے دس دنوں کے گناہ معاف فرما دے گا_ جمعہ کی نماز کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم سے وقار و متانت کے ساتھ جانا چاہیے، ایک حدیث پاک میں آیا کہ ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ مٹایا جاتاہے ( موطا امام محمد) مسجد میں اگلی صف میں جگہ ہو تو پچھلی صف میں نہ بیٹھے بلکہ پہلے پہنچ کر امام سے قریب بیٹھنے کی کوشش کرے الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
       ،،احضروا الذكر، وادنوا من الإمام، فإن الرجل لا يزال يتباعد حتى يؤخر في الجنة، وإن دخلها،، 

جمعہ کے خطبے میں حاضر رہو امام سے قریب رہو اس لیے کہ آدمی جس قدر دور رہے گا اسی قدر جنت میں پیچھے رہے گا_ اگرچہ داخل ہوگا_ معلوم ہوا کہ جمعہ کے لیے خطبہ سے قبل مسجد میں آنا چاہیے ایک دوسری حدیث پاک میں آیا کہ جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر رجسٹر لے کر ہر آنے والے کا نام یکے بعد دیگرے لکھا کرتے ہیں یہاں تک کہ جب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے اپنے دفتر سمیٹ کر نمازیوں کے ساتھ خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں اس کے بعد آنے والے کا نام درج ہونے سے رہ جاتا ہے_ اس حدیثِ پاک سے عوام کو عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ فرشتے خطبے کے احترام میں اپنی ڈیوٹی ختم کر دیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کے خطبے کے وقت شور و شغف، بات چیت، تاک جھانک اور اٹھک بیٹھک کو اپنی ڈیوٹی بنا لیتے ہیں_ جبکہ یہ حرکتیں قطعاً ناجائز و حرام ہیں حتیٰ کہ سلام کا جواب تک دینے کا حکم نہیں_ 

ساعت مقبول:

نماز سے خالی اوقات میں درودشریف کا ورد کثرت سے کریں نیز نہایت عجز و انکساری کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں دعائیں کریں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن میں ایک ایسی بھی گھڑی ہے کہ جسے بندہ مومن نماز پڑھتے ہوئے نہیں پاتا ہے کہ الله رب العزت سے وہ کچھ مانگے مگر الله رب العزت اسے عطا کردیتا ہے قبولیتِ دعا کی یہ ساعت رات میں روزانہ آتی ہے مگر دنوں میں صرف جمعہ کے روز، یقینی طور پر نہیں معلوم کہ وہ گھڑی کون سی ہے الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف راغب کرنے کی غرض سے شب قدر کی طرح اس ساعت کو بھی مخفی رکھا_ علمائے کرام کے اس سلسلے میں دو قول زیادہ قوی ہیں اول وہ ساعت امام کے خطبے کے لیے منبر پر بیٹھنے سے لے کر ادائے نماز کے درمیان_ دوم وہ ساعت آفتاب ڈوبنے کے وقت ہے،پہلے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: 
         ،،ھی مابین ان یجلس الامام الی ان تقتضی الصلوت،،
اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کی آخری تین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں بندہ مومن جو دعا کرتا ہے قبول ہوتی ہے_ ایک مرتبہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے حضرتِ کعب بن اخبار سے اس گھڑی کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس گھڑی کو جانتا ہوں اور وہ جمعہ کی آخری گھڑی ہے_ حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس وقت کوئی نماز پڑھنا مکروہ ہے_ انہوں نے فرمایا کہ کیا رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص کسی نماز کے انتظار میں بیٹھے تو وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں ہے؟ حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! فرمایا تو وہی گھڑی ہے_ چنانچہ حضرتِ فاطمتہ الزہرا رضی الله تعالیٰ عنہا اس وقت خود حجرے میں بیٹھتیں اور اپنی خادمہ فضہ کو دروازے پر کھڑا کرتیں جب آفتاب ڈوبنے لگتا تو خادمہ آپ کو خبر کرتی اور آپ اس کی خبر پر ہاتھ اٹھاتیں-

                                                   حافظ افتخاراحمد قادری

کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش

iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter