قربانی! … فضائل اور تقاضے

قربانی! دین کی شان اور اسلام کا ایک عظیم نشان ہے … قربانی! حضرت ابراہیم علیہ السلام نیز دوسرے انبیائے کرام کی سنّت اور رب کے دربار میں بندوں کی بہترین عبادت ہے۔ جس طرح بے آب و گیاہ مردہ زمین بارش کے اثر سے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے، ایسے ہی جان و مال کی خشک کھیتیاں قربانیوں کے فیض سے ہری بھری ہوکر لہلہانے لگتی ہیں۔ … چوں کہ بندہ قربانی کے ذریعے خداوند قدوس کے قربِ خاص سے مشرف ہوجاتا ہے، اس لیے اس عبادت کو قربانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

قربانی کے فضائل و تقاضے کے گلہائے رنگا رنگ سے کتاب و سنّت کے اوراق مزیّن ہیں۔ جن سے قربانی کی اہمیت و ضرورت کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ بھی کہ کیسی قربانی خدا کو مطلوب ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ  آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے
جس طرح نماز کا حکم بظاہر صرف رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو ہے، لیکن درحقیقت سب مسلمانوں کو ہے۔ اسی طرح قربانی کا حکم بھی صرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ اُمت پر بھی لازم ہے۔ اُمت کے نبی و رسول پر جو انعام و اکرام ہوتا ہے وہ لطف و احسان اُمت کو بھی شامل ہوتا ہے، لہٰذا اُمت پر نبی کا شکریہ اور اتباع ضروری ہے۔ 

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : قالو مَا ھٰذِہٖ الْاَضَاحِی یَا رَسُوْلَ اللہِ قَالَ سُنَّۃُ  اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْم۔ کیا ہیں یہ قربانیاںاور ان کا مقصد کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ عرض کی گئی اس سنّت پر عمل سے کیا نفع ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: ذبح کیے جانے والے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوں گے، ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جائے گی۔ اُم المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللہ من احراقِ الدم وانہ لیاتی یوم القیامۃ بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع علی الارض فطیبوا بھا نفسا۔ (رواہ ترمذی) حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس ذی الحجہ کو انسان کے لیے اللہ کی راہ میں قربانی کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ نہیں ہے، اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور سموں سمیت آئے گا، (اور مومن کی نیکیوں والے پلّے میں رکھا جائے گا) اور اس جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں محل قبولیت میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا ان قربانیوں کو فراخ دلی سے کیا کرو۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہو اکہ قربانی میں جانور کا ذبح کرنا، اس کا خون بہانا ضروری ہے۔ لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ جانور کو ذبح کرنے کی کیا ضرورت ہے، بلکہ اس کی قیمت صدقہ کر دینی چاہیے، یہ لغو و باطل ہے۔ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے۔ قرآنِ کریم نے جانور کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے اور حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول و عمل سے اس عمل کو افضل و اعلیٰ، اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ فرمایا ہے۔ 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے:  اقام رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ عَشْرَ سِنِیْنَ یضحٰی۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں دس سالہ مدتِ اقامت میں قربانی دیتے رہے۔ واضح ہوگیا کہ قربانی دینا صرف میدانِ منیٰ کے ساتھ خاص نہیں، اور صرف حاجیوں پر لازم نہیں۔ بلکہ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر لازم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سالہ قیامِ مدینہ کے دوران قربانی دے کر اس کی اہمیت کو ظاہر فرما دیا اور تمام شبہات کا ازالہ کردیا … 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحج کو دو مینڈھے جو کہ سیاہ رنگ والے، سینگ دار، خصّی کیے ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں ذبح فرمائے اور فرمایا: اے اللہ! یہ قربانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی اُمت کی طرف سے قبول فرما۔ 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اپنے ساتھ قربانی کے ثواب میں شریک فرمایا، تو اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ اُمتی بھی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کریں۔ دوسری چیز یہ کہ حضور نے اُمت کی طرف سے قربانی فرمائی، خواہ وہ موجود تھے یا نہ تھے۔ … بلکہ بعد میں پیدا ہونے والے تھے یا پہلے وفات پاچکے تھے۔ تو معلوم ہوا کہ کسی بھی مسلمان کی طرف صدقہ کرنا، اسے اپنے ثواب میں شریک کرنا خواہ وہ زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو کارِ ثواب ہے، سنّتِ مصطفی ہے۔ 

حجۃ الوداع کے موقع پر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ قربان کیا۔ جن میں سے تریسٹھ اونٹ آپ نے اپنے دست ِ مبارک سے ذبح فرمائے اور باقی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذبح کے لیے خنجر ہاتھ میں لے کر اونٹ کے سامنے آئے اور اونٹ پانچ پانچ چھ چھ کی ٹولی میں آپ کے پاس لائے جانے لگے تو وہ ایک دوسرے کو دھکیل کر اپنی گردن آگے کرتے تاکہ پہلے اسے ذبح کیا جائے۔… جانوروں کو بھی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق ہے کہ جان جانے کا غم نہیں۔ بھاگ کر جان بچانے کی فکر نہیں، بلکہ ہر ایک اس خواہش پر کہ پہلے مجھے ان کے دست ناز سے ذبح ہونا نصیب ہو، دوسرے کو دھکیل کر گردن آگے بڑھاتا ہے۔   

جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا

جب جانوروں کے اندر جانثاری و فداکاری کا ایسا بے پناہ جذبہ موجود ہے، تو پھر ان مردانِ حق کے جذباتِ محبت کا اندازہ کون کرسکتا ہے، جو محبوب کے قدموں پر اپنی جانیں نچھاور کرتے تھے۔  ؎

نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

علامہ اسمٰعیل حقی صاحبِ روح البیان ’’کشف الاسرار‘‘ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ کی اُمت میں جو بھی مفلس و نادار ہو اور قربانی نہ کرسکے تو کوئی ایسی صورت ہے جس سے وہ قربانی کا ثواب حاصل کرسکے؟ … تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نسخۂ کیمیا عطا فرمایا کہ چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد گیارہ مرتبہ سورۂ کوثر پڑھے۔ تو اللہ تعالیٰ ساٹھ قربانیوں کا ثواب اس کے دفتر حسنات میں درج فرمائے گا۔ ……

نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا زکوٰۃ، تلاوت ہو یا کوئی اور عبادت … وہ تمام صرف اور صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ ارشادِ پاک پروردگار ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ آپ فرما دیں کہ میری نماز اور قربانی، حیات و ممات اس اللہ کے لیے ہے جو کہ ربّ العالمین ہے۔ امام رازی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ لِرَبِّکَ  والا لام نماز و قربانی اور جملہ عبادات کے لیے یوں ہے جیسے بدن کے لیے روح۔ بدن چاہے کتنا حسین سے حسین تر کیوں نہ ہو، جب تک اس میں روح نہیں، اس کا کوئی کمال ٗ کمال نہیں بن سکتا۔ اور نہ وہ کسی مدح و ثنا کا مستحق ہے، بلکہ وہ تو عن قریب سڑ گل کر تباہ و برباد ہوئے گا۔ لہٰذا وہ پیوند خاک کردینے ہی کے قابل ہے۔ اسی طرح نماز اگرچہ بظاہر احسن طریقے سے ادا کی گئی ہو، قیام و قرأت بڑے لمبے ہوں، رکوع و سجود بڑے طویل ہوں، لیکن ریاکاری و دکھلاوا پیش نظر ہو یا نمود و نمائش مقصود ہو، یا غیر اللہ کے لیے ہو۔ تو اس بدن کی مانند ہے جو روح سے خالی ہو۔ اس کی کوئی قدر و قیمت اللہ کے یہاں نہیں ہے۔ بلکہ وہ باعث ثواب ہونے کے بجائے ذریعۂ عذاب بن جاتی ہے۔ ایسی ہی قربانی جو بظاہر بڑی نفیس اور قیمتی ہو، لیکن خلوص و للہیت والی روح اس میں موجود نہ ہو تو وہ عبث ہے، لغو ہے، بیکار ہے۔ اللہ کی نزدیکی کی بجائے دوری کا سبب بنتی ہے۔ معلوم ہوا قربانی کا مقصد محض جانور کو ذبح کردینا ہی نہیں بلکہ قربانی کی روح یہ ہے کہ بندہ جذبۂ اخلاص سے اپنے قلب و دماغ کو منور کرکے اپنے اندر تقویٰ و ایثار کا کمال پیدا کرے۔ قرآنِ کریم نے کتنے صاف لفظوں میں قربانی کا مقصد بیان فرمایا ہے: لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم۔ ہرگز ہرگز خدا کے دربار میں نہ قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اس کا خون، البتہ تمہاری پرہیزگاری وہ انمول نکوکاری ہے جو خدا کے دربار میں باریاب ہوجاتی ہے۔

جاننا ہے بارگاہِ حق کے آئین و اُصول
دل کے ٹکڑوں کی یہاں پر نذر ہوتی ہے قبول

تقاضائے قربانی یہ ہے کہ نور اخلاص سے اپنے باطن کو ایسا سجایا جائے کہ اس کے مظاہر سے صدق و صفا کی خوشبو آئے۔ اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے تو پھر قبولیت و عدم قبولیت کا کوئی کھٹکا نہ رہے گا، بلکہ رحمت و اجابت خود بڑھ کے اپنے آغوش میں لے لے گی۔ ورنہ یاد رکھا جائے کہ   ؎

جب تک کہ براہیم کی فطرت نہ ہو پیدا 
قربانی بھی آزر ہے، عبادت بھی ہے نمرود 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter