اللہ کے رسولﷺکی دعائیں (12)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺشام ہونے پر اس طرح کہا کرتے تھے: أمسینا و أمسی الملك للہ والحمد للہ لا اله الا اللہ وحدہ لا شریک له له الملک وله الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔اللھم أسألك خیر ھذہ اللیلة و خیرما بعدھا و أعوذ بك من شر ھذہ اللیلة و شر ما بعدھا اللھم انی أعوذ بك من الکسل وسوء الکبر۔اللھم انی أعوذ بك من عذاب فی النار و عذاب فی القبر۔ہم نے شام کی اور اللہ کے ملک نے شام کی۔تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کاملک ہے اور اسی کی تعریف اور وہی ہر شئے پر قادر ہے۔اے اللہ ! میں تجھ سے اس رات اور اس کے بعد آنے والی رات کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس رات کی اور آنے والی رات کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اے اللہ !میں سستی اور کبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اے اللہ! میں دوزخ اور قبر میں عذاب دیے جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اللہ کے رسولﷺیہی دعا صبح کے وقت بھی کہا کرتے تھے اور اس میں شام کے بجائے صبح کا ذکر ہوتا تھایعنی أمسینا کی جگہ أصبحنا و أصبح الملك للہ کہا کرتے تھے۔اس کے علاوہ اور بھی روایتیں ہیں جن میں یہی دعا تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ آئی ہے۔
قرآن میں صبح و شام اللہ کا ذکر کرنے کی تاکید آئی ہے۔سورۂ اعراف میں فرمایا: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور ڈر سے اور بغیر آواز نکالے زبان سے صبح و شام اور غافلوں میں نہ ہونا۔سورۂ احزاب میں ہے : اے ایمان والواللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بولو۔سورہ مریم میں جہاں حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر ہے وہاں فرمایا تو اپنی قوم پر مسجد سے باہر آیا تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو۔سورۃ الانسان میں ہے: اور اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو۔مفتی احمد یار خاں نعیمی خزائن العرفان میں فرماتے ہیں شام عصرو مغرب کے درمیان کا وقت ہے۔ان دونوں وقتوں میں ذکر افضل ہے کیوں کہ نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور اسی طرح نماز عصر کے بعد غروب تک نماز ممنوع ہے اس لیے ان وقتوں میں ذکر مستحب ہوا تا کہ بندے کے تمام اوقات قربت و طاعت میں مشغول رہیں۔ایک اور جگہ ہے صبح اور شام ملائکہ روز و شب کے جمع ہونے کے وقت ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اطراف لیل و نہار کے ذکر سے ذکر کی مداومت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
مذکورہ دعا میں پہلے اللہ تعالی کے اوصاف کا ذکر ہے اور اس کے بعد رات کے خیر اور شر کا سوال ہے۔رات کے خیر سے مراد اس میں عبادت کرنا ہوسکتا ہے اور رات کے شر سے مختلف جانوروں یا حشرات الارض کے شر سے محفوظ رہنا مراد ہے کیوں کہ بہت سارے جانور اور کیڑے مکوڑے جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں رات کے وقت زیادہ چلتے پھرتے ہیں اور چوں کہ یہ وقت اندھیرے کا ہوتا ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ انسان ان میں سے کسی کا شکار ہوجائے۔یا جنوں کا شر بھی مراد ہوسکتا ہے کیوں کہ رات میں جن بھی یہاں وہاں گشت کرتے رہتے ہیں۔یا چوری،ڈکیتی اور لوٹ مار مراد ہوسکتی ہے۔آخر میں سستی اور کبر کے ساتھ دوزخ اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگی گئی ہے۔ایک اور روایت میں بڑھاپے اور دنیا کے فتنے کا بھی ذکر ہے۔
حضرت شکل بن حمید فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺسے استعاذہ(پناہ مانگنے)کی ایک دعا پوچھی۔آپ نے میرا ہاتھ پکڑااور یہ دعا سکھائی: أعوذ بك من شر سمعي وشر بصري و شر لساني وشر قلبي و شر مني۔میں اپنے کان اپنی آنکھ اپنی زبان اپنے دل اور اپنی منی کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔کان کے شرسے غیبت،جھوٹ وغیرہ سننا،آنکھ کے شرسے ناجائز اور حرام چیزوں کی طرف دیکھنا،زبان کے شر جھوٹ بولنا غیبت کرنا چغلی کرنا،دل کے شر برے خیالات کا آنا دوسروں کو حقیرسمجھنا، حسد،بغض،کینہ وغیرہ اور منی کے شرسے ناجائز اور حرام کاموں کے ذریعہ اپنی شہوانی خواہشات پوری کرنا مراد ہے۔اس دعا میں بدن کے ان اعضاء کا ذکر ہے جن کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے مثلاًسننا،دیکھنا اور بولنا۔دل تمام خیالات اور وسوسوں کا مرکز ہے اور منی سے انسان کی جنسی خواہشات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ جائز طریقے سے ہو تو ٹھیک ورنہ حرام اور ناجائز ہوگا اور ایسے تمام افعال سے بچنے کے لیے اللہ کی تائید اور اس کی حمایت بہت ضروری ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسولﷺاس طرح دعا کیا کرتے تھے۔اللھم انی أعوذ بك من القلة والفقر والذلة وأعوذبك من أن أظلم أو أظلم۔اے اللہ ! میں قلت،فقر اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں خود ظلم کرنے یا خود پر ظلم کیے جانے سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں۔قلت اور فقر سے مراد مال میں کمی ہے۔مال کم از کم اتنا ہونا چاہیے کہ آدمی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کو خود پورا کرسکے۔اگر ایسا نہیں ہوگا تو اسے قرض کا شکار ہونا پڑے گا اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا یقیناً اچھا نہیں ہے۔فقر اور غربت کی وجہ سے انسان میں مایوسی بھی پیدا ہوسکتی ہے جو کہ خود ایک گناہ ہے یا کسی مالدار کو دیکھ کر دل میں وسوسے اور خیالات آسکتے ہیں۔فقر اورمال کی قلت کی وجہ سے ہونے والی ذلت سے بھی پناہ مانگی گئی ہے کہ کوئی بھی نیک انسان ایسی ذلت سے گزرنا پسند نہیں کرے گا۔ظلم کرنا تو بلاشک و شبہ گناہ ہے مگر ظلم کیے جانے سے بھی بچنا ضروری ہے اور اگر آپ کے اوپر کسی بھی طرح کا ظلم ہورہا ہے تو آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور ظلم کو بند کریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺاکثر اس طرح دعا کیا کرتے تھے:اللھم انی أعوذ بك من فتنة النار وعذاب الناروفتنة القبر وعذاب القبر وشر فتنة المسیح الدجال وشر فتنة الفقر وشر فتنة الغنی اللھم اغسل خطایاي بماء الثلج والبرد و أنق قلبي من الخطایا کما أنقیت الثوب الأبیض من الدنس وباعد بیني و بین خطایاي کما باعدت بین المشرق والمغرب اللھم انی أعوذبك من الکسل والھرم والمأثم والمغرم۔اے اللہ !میں آگ کے فتنے،آگ کے عذاب،قبر کے فتنے،قبر کے عذاب،مسیح دجال کے فتنے کے شر،فقر کے فتنے کے شر اور غنا کے فتنے کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اے اللہ ! میری خطاؤں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھوڈال اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل سے پاک کیا ہے۔میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری پیداکردے جس طرح تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری پیدا کردی ہے۔اے اللہ ! میں سستی،بڑھاپے،گناہ اورقرض سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ یہ حدیث دوسرے الفاظ کے ساتھ پہلے گزر چکی ہے اس میں خطاؤں کو برف سے دھونے نیز کپڑے کی طرح پاک صاف کرنے کا ذکر ہے اس لیے یہاں لکھ دی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺاس طرح دعا کیا کرتے تھے۔اللھم انی أعوذ بك من الجوع فانه بئس الضجیع وأعوذ بك من الخیانة فانھا بئست البطانة۔اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں کیوں کہ وہ کتنا برا بستر ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیوں کہ وہ بری مخفی چیز ہے۔بھوک آج کل ایک عالمی مسئلہ ہے اور کئی ممالک جن میں بعض ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں اس سے جوجھ رہے ہیں۔بھوک کبھی تو غذا کی کمی یا فصل کی بربادی کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی جنگ کی وجہ سے پیش آتی ہے۔افریقہ کے کئی ایک ممالک اور آج کل فلسطین میں بھوک ایک اہم مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔خیانت میں بدعنوانی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔حکومت کے اہل کار،نوکر شاہ اور پولیس کے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں بدعنوانی اور خیانت اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔تجارت میں خیانت ایک عام بات ہے۔
ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ہے اس طرح ہے: اللھم انی أعوذ بك من الشقاق والنفاق وسوء الأخلاق۔اے اللہ ! میں ناچاکی،نفاق اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ناچاکی عام طور پر رشتہ داروں میں پائی جاتی ہے کہ ذرا سی بات پر لوگ تعلقات ختم کرلیتے ہیں اور دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔نفاق کا معنی ہے کہ آدمی اوپر اوپر سے بہتر نظر آئے لیکن اندر ہی اندر وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔نفاق کا ایک اور معنی جو اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں تھا کہ منافق اس شخص کو کہتے تھے جو اصل میں کافر ہوتا تھا لیکن مسلمانوں کے ڈر سے نمازیں پڑھتا تھا۔ایسے لوگ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔اب یہ صورت حال تو باقی نہیں البتہ منافقوں کی بعض صفات اب بھی لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔برے اخلاق سے یقینا پناہ مانگنا چاہیے کیوں کہ انسان کی اصل خوب صورتی اس کا اخلاق ہی ہے۔اخلاق اگر نیک تو انسان بھی نیک اور اگر اخلاق بد ہوں تو انسان بھی بد ہوتا ہے۔قرآن اور حدیث میں نیک اخلاق کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جبکہ برے اخلاق کی خوب مذمت کی گئی ہے۔