رفعتِ ذکر رسول ﷺ کا دل آویز اسلوب، اظہارِ محبت رسول ﷺ
ذکر رسول ﷺ بلند ہو رہا ہے… ہر لمحہ ہر آن… عظیم رب نے اپنے محبوب ﷺ کو عظمتیں دیں…محبوب ﷺ کے ذکر کو بلند فرمایا… محبوب ﷺ کو آخر میں بھیجنا تھا؛ لیکن بھیجے جانے کا ذکر پہلے سے ہی ہوتا رہا… انبیاے کرام علیہم السلام ذکرِ محبوبﷺ کی محفلیں سجاتے رہے… حضرت عیسیٰ علیہ السلام میلادِ مصطفیٰﷺ کا چرچا کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں:
’’ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔‘‘ (سورۃ الصف: ۶)
قرآن مقدس میں محبوب پاک ﷺ کی اداؤں کا ذکر ہے…بے مثالی و بے نظیری کا ذکر ہے…جود و سخا اور شانِ کریمی کا ذکر ہے…حسنِ پاک کا ذکر ہے…ادب و احترام کے پہلو بھی ہیں…بارگاہِ ناز کی تعظیم و تکریم بھی سکھائی گئی…اللہ تعالیٰ نے محبوب پاک ﷺ سے متعلق انبیاے کرام علیہم السلام سے عہد لیا…میلادِ پاک کے بیاں اور مقدس عہد و پیمان کا قرآنی انداز دیکھیے…اور محبوب پاک ﷺ سے وفاداری کا عہد کیجیے:
’’اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔‘‘ (سورۃ آل عمران:۸۱)
قرآن مقدس نے نور پاک کا ذکر کیا…ساتھ ہی آمد آمد کا تاباں بیان…محبوب پاک کی شان کے ساتھ ہی ولادت، تشریف آوری اور بھیجے جانے کا ذکر بھی فرمایا:
’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا۔‘‘ (سورۃ المآئدہ: ۱۵)
سبحان اللہ! محبوب پاک خوش خبری دیتے ہیں…حاضر و ناظر ہیں…شاہد و مبشر ہیں…چمکتے آفتاب…دمکتے ماہتاب…جن سے جہان روشن ہوا…جن سے ایمان ملا…اللہ کی معرفت اور رضاے الٰہی کا حصول ہوا…سُنیے سُنیے کیسی دل پذیر اور ایمان افروز صدا آرہی ہے:
’’اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۴۶۔۴۵)
سارے جہان والوں کے لیے محبوب ﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا گیا…جہاں رحمت ہوگی وہاں برکتوں کا نزول ہوگا… ایمان کی بہاریں ہوں گی…اسی لیے ذکر پاک ﷺ کی محافل سجانا اسلاف کا طریقہ رہا ہے…میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا مقصد ذکر پاک کی ترغیب بھی ہے…رسول اللہﷺ کے بھیجے جانے کا بیاں بھی…قرآن مقدس کا کیسا پیارا انداز ہے رفعتِ ذکر کا…
٭…’’اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔‘‘(سورۃ الانبیاء:۱۰۷)
٭…’’اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔‘‘(سورۃ الفرقان:۵۶)
٭…’’بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان۔ ‘‘(سورۃ التوبۃ:۲۸)
اس مبارک ارشاد کے پس منظر مجھے اعلیٰ حضرت کا ایک فکر انگیز اقتباس یاد آرہا ہے…جسے یہاں اِس امید پر درج کر رہا ہوں…کہ دل کے کان سے سُنا جائے گا…عمل کے گام پر آویزاں کیا جائے گا…تفکر کی بزم میں پڑھا جائے گا:
’’محبوب بھی کیسا! جانِ ایمان و کانِ احسان، جس کے جمالِ جہاں آرا کی نظیر کہیں نہ ملے گی؛ اور خامۂ قدرت نے اس کی تصویربنا کر ہاتھ کھینچ لیا کہ پھر کبھی ایسانہ ملے گا۔ کیسا محبوب! جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لیے رحمت بھیجا۔ کیسا محبوب! جس نے اپنے تن پر ایک عالَم کا بار اُٹھا لیا۔ کیسا محبوب! جس نے تمھارے غم میں دن کا کھانا، رات کا سونا ترک کردیا، تم رات دن اس کی نافرمانیوں میں منہمک اور لہو و لعب میں مشغول ہو اور وہ تمھاری بخشش کے لیے شب و روز گریاں و ملول۔‘‘ (قمرالتمام،ص۴،طبع نوری مشن مالیگاؤں)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم فضل بھی ہیں…رحمت و نعمت بھی…بلکہ جانِ نعمت، جانِ رحمت… نعمتوں کے شکر بجا لانے والوں کے دلوں کا نغمہ ہے…’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘…نعمتوں کے ملنے پر خوشی منائی جاتی ہے…شرعی طریقے پر خوشی منانا قرآنی مقصود بھی ہے…اور دینی تقاضا بھی:
’’تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دَھن دولت سے بہتر ہے۔‘‘(سورۃ یونس:۵۸)
ہمیں چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں…نعمتوں کے حصول پر اظہارِ تشکر بجا لائیں…وہ قوم زندہ رہتی ہے جو اپنی زندگی کا ثبوت دیتی ہے…نعمت و رحمت کے ملنے پر خوشی منانا دینِ فطرت سے وابستگی کا اظہار ہے…اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا کہ:
’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔‘‘(سورۃ الضحیٰ: ۱۱)
چرچا کرنے والے مقبول ہو جاتے ہیں…بارگاہِ الٰہی میں ان کے دل کی آواز بھی مقبول…ان کی آخرت بھی روشن اور دنیا بھی ایمان کے نور سے معمور…آپ بھی ذکر محبوب ﷺ میں وارفتہ ہو جائیے…زباں پُکار اُٹھے گی…عقیدہ و عقیدت کی معراج ہوگی…لب وا ہوں گے…بقول اعلیٰ حضرت؎
انھیں جانا، انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
٭ ٭ ٭